عالمی برادری افغان طالبان کوتسلیم اور ان کی امداد

محترم اعجاز احمد چودھری صاحب وطن عزیز کے ممتاز سیاسی رہنما اور بڑے محب وطن دانشور ہیں ۔ وہ سول انجینئر ہیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ابتدائی مراحلے میں یہاں کام کر چکے ہیں۔ چودھری صاحب کافی عرصہ جماعت اسلامی میں شامل رہے اور انہوں نے جماعت کے سیاسی شعبے میں نہ صرف فعال کردار ادا کیا اوران کی وجہ سے لاہور کے عوام میں جماعت اسلامی کومزید مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ لاہور میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر بھی رہے۔ انہوں نے اس دوران نہ صرف لاہور کے شہریوں کے مسائل حل کرنے میں گہری دلچسپی لی بلکہ لاہور کو خوبصورت بنانے کےلئے تعمیری اقدامات بھی کئے۔ تحریک انصاف کا قیام عمل میں آیا تو آغاز ہی میں چودھری صاحب تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ ان دنوں تحریک انصاف وسطی پنجاب کے صدر ہیں اورمیں منتخب ہوئے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ چودھری صاحب جیسے فعال اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے رہنما رواں سال ہونے والے سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات میں پنجاب سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ اعجاز احمد چودھری صاحب 15 ستمبر 1956 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے سول انجیئنرکی ڈگری حاصل کی اور بطور سول انجینئر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ۔ تعلیم کے دوران میں اعجاز چودھری صاحب جمعیت طلبہ اسلام کے ناظم اعلیٰ بھی رہے اور انہوں نے اپنے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے ملک کے مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے جمیعت کے اجتماعات میں شرکت کی اور ان کا خطاب ہمیشہ مو¿ثر اور دلنشین ہوتا تھا۔ اسلام کا وسیع مطالعہ رکھنے والے اور علامہ اقبالؒ کے کلام کے عاشق ہیں۔ انتہائی سادہ زندگی گزارنے کے قائل ہیں۔ ہر ایک سے محبت اور شفقت سے ملتے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہمیشہ پہل کرتے ہیں۔ افغان مسئلے پر بھی اعجاز چودھری صاحب اپنے لیڈر اور وزیر اعظم عمران خان کے ہم زبان ہیں کہ اس مسئلے کا حل فوجی نہیں صرف اور صرف مذاکرات تھا ۔ اگر دوحہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہوتے اور سابق افغان صدر اشرف غنی طالبان سے مذاکرات کر کے ان کی بات مان لیتے اور مستعفی ہو جاتے تو افغان مسئلہ مزید بہتر طریقے سے اور جلدی حل ہوگیا ہوتا۔ بہرحال افغانستان میں قیام امن اب طالبان کی ذمہ داری ہے اور امید ہے کہ طالبان اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چودھری صاحب سی پیک کے بھی بڑے حامی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سی پیک وطن عزیز کی ترقی کا زینہ ہے۔ سی پیک سے یہاں روزگار کے مواقع پید ا ہوں گے ۔ یہاں خوش حالی آئے گی اور معیشت کو فروغ حاصل ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 20 ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کرکے بہت اچھا فیصلہ کیا۔ ان کی ایران، بیلاروس اور دیگر ممالک کے سربراہان سے ملاقات ہوئی جس میں افغانستان میں قیام امن اوراس کے مستقبل کے حوالے سے مثبت بات چیت ہوئی ۔ ان کا مو¿قف ہے کہ افغانستان کا مسئلہ سب کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو مختلف بحران جنم لیں گے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ جناب اعجاز احمد چودھری صاحب بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ نائن الیون امریکی ڈرامہ تھا جس کا اصل مقصد امت مسلمہ کو تہس نہس کرنا اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنا تھا۔ نائن الیون کے بعد عراق اور افغانستان پر امریکی و نیٹو افواج کی چڑھائی ، ابھی تک ایک معمہ ہے کہ یہ کیوں کیا گیا۔ نہ تو عراق سے انتہائی خطرناک جوہری ہتھیار ملے جن کی موجودگی عراق پر حملے کا بہانہ بنی اور نہ ہی افغانستان سے کچھ حاصل ہوا۔ بلکہ بیس سال بعد ذلیل و خوار ہو کر جب امریکہ اور اس کے اتحادی یہاں سے رات کی تاریکی میں نکلے تو امریکی عوام نے اپنی حکومت سے سوال کیا کہ جب اس طرح ذلیل ہو کر نکلنا ہی تھا تو حملہ کیوں کیا تھا۔ اعجاز صاحب کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے تمام فیصلے عوام اور ملکی مفاد میں کئے ہیں کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو ریلیف دینے کا تہیہ کررکھا ہے۔انہیں غریب عوام احساس ہے۔کورونا کے باوجود بہترین اقدامات کے باعث پاکستانی معیشت استحکام کی سمت بڑھ رہی ہے اور اس کے اقتصادی اشاریے مثبت اہداف کی نشاندہی کررہے ہیں۔ یہ معاشی بہتری کے خوش آئند عندیوں کے غماز ہیں۔ حکومت کی مضبوط معیشت کو بنیادی ہدف قرار دیا جا رہا ہے ۔ حکومت ایک ٹھوس اقتصادی پیش رفت کو پانے کے لیے سیاسی اور سماجی تبدیلی کے مشن کو عملی طور پر ممکن اور مربوط اقتصادی پروگرام کو نتیجہ خیز بنانے کا تہیہ کرچکی ہے۔ عوامی ریلیف اور بڑے تعمیراتی فیصلوں کو حکومتی اہم منصوبوں میں شامل کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے جس کے تحت وزیرِ اعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبے کو شیڈول کے مطابق مکمل کیا جائے۔ محترم اعجاز چودھری صاحب بدعنوانی کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم جیسے اپوزیشن کے اتحاد اصل میں کرپٹ ضمیروں کا ٹولہ ہے۔ پی ڈی ایم جماعتوں نے اپنے سیاہ دورحکومت میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کاروائیاں کیں۔کچھ ہمارے عدالتی نظام اور قوانین میں بھی سقم ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر سرمایہ داربدعنوان طبقہ چھوٹ جاتے ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی بدعنوانی سے کون نہیں واقف مگر یہ لوگ اپنے سرمایے کی وجہ سے عدالتی کارروائی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور ابھی تک سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ حکومت کوشش کررہی ہے کہ ایسا نظام لایا جائے کہ بدعنوان عناصر چاہے وہ جتنے ہی بااثر کیوںنہ ہوں، وہ سزا سے بچ نہ سکیں اور قوم کا لوٹا ہوا سرمایہ واپس لایا جا سکے۔