امت مسلمہ اور اسلام کےلئے مولانا مودودی ؒ کی لازوا

راقم السطور کو اپنی زندگی میں عالم اسلام کے درجنوں مشاہیر، مفکروں، دانشوروں اور جید علماءکرام جن میںمولانا سید ابوالحسن ندوی مرحوم، سید عطاءاللہ شاہ بخاری مرحوم، مولانا احمد علی لاہوری مرحوم، مولانا خیر محمد جالندھری مرحوم،علامہ عبدالحامد بدایونی مرحوم، مفتی اعظم مفتی محمد شفیع مرحوم،سید علی گیلانی مرحوم،مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم شامل ہیں، سے بارہا ملاقات کا شرف حاصل ہوا اس پر میں اللہ تعالیٰ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔ ان نامور عظیم ہستیوں میں مجدد عصر اور دنیا کے سب سے زیادہ تعداد میں زیر مطالعہ اور چھپنے والی تفہیم القرآن کے مصنف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے تومیری لاتعداد ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ ہمیشہ مجھ پر نوازش فرماتے بلکہ کبھی علیل بھی ہوتے یا طبیعت ناساز ہوتی تو مجھے حاضری کا موقع فراہم کرتے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو 1953 ختم نبوت کی تحریک کے دوران چیف مارشل لاءنے سزائے موت کا حکم سنایا اس سے پہلے وہ قلعہ گجر سنگھ کی مبارک مسجد درس قرآن پاک دیا کرتے تھے اور میں نے بھی وہاں ان کی کافی نشستوں میں شرکت کی۔ مولانا موصوف مغربی پاکستان میں جہاں کہیں بھی گئے ، کراچی، بہاولپور، ملتان، فیصل آبادکے علاوہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پشاور اور کئی دوسرے شہروں میں ان سے ملاقات اور ان کا خطاب سننے کا موقع ملا۔ مولانا کی تقریر ڈیڑھ ، دو گھنٹے کی بھی ہوتی تھی لیکن اس میں اتنا تسلسل اور دلنشینی ہوتی کہ سامعین کے دل و دماغ میں اترجاتی اور اثر انداز بھی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ لندن سے کراچی آئے تو ایئرپورٹ کے رن وے پر جیسے ہی جہاز اتر اور مولانا جہاز سے باہر تشریف لائے تو سب سے پہلے مجھے ان سے مصافحہ کرنے کا موقع ملا۔ انہوںنے کمال شفقت سے فرمایا کہ ریاض صاحب آپ یہاں بھی پہنچ گئے۔ میں یہاں ان کے بہاولپور میں خطاب کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔ مولانا مودودیؒ کو بہاولپور میں خطاب کے بعد اسی شام کو ملتان کے قلعہ قاسم باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ میں بہاولپور گیا اور ان کے خطاب سے فارغ ہو کر کمشنر بہاولپور محترم بی اے قریشی صاحب سے ملنے ان کے دفتر چلا گیا۔ وہ میرے بہت مہربان دوست تھے۔ انہوں نے اسی وقت اپنے سٹاف سے کہہ دیا کہ تمام سائلوں کو اگلی تاریخ دے کر فارغ کر دو میرے دوست آئے ہیں میں ان کے ساتھ مصروف ہوں۔ اسی دوران میں گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان کالا باغ کا کمشنر صاحب کو فون آگیا ۔ انہوں نے کمشنر صاحب کو کہا کہ مولانا مودودیؒ کو گرفتار کر کے تین ماہ کےلئے نظر بند کر دیں اور ان کو ملتان نہ جانے دیں۔ جناب بی اے قریشی نے کہا کہ جناب گورنر میں معذرت چاہوں گا ۔ میں پاکستانی قوم کو قادیانیت، عیسائیت، الحاد، لادینی اور اشتراکیت سے بچانے والی عالم اسلام کی اس عظیم ہستی کو گرفتار کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنی آخرت برباد نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا دلیر اور اسلام پسند انسان بہت کم دیکھا ہے۔ دوسری طرف نواب امیر محمد خان جیسا ظالم وجابر اور کینہ پرور شخص نہیں دیکھا۔چنانچہ میں وہاں سے فارغ ہو کر سیدھا قاسم باغ ملتان پہنچا ۔ مولانا تشریف لا چکے تھے۔ مولانا نے اڑھائی گھنٹے خطاب کیا۔ لوگ نہایت خاموشی کے ساتھ ان کا خطاب سن رہے تھے۔ مجھے ان کی زندگی ہی میں ان کی بہت سی تقاریر سننے کا موقع ملا۔ مولانا کی سزائے موت چوبیس گھنٹوں میں ہی عمر قید میں تبدیل ہو چکی تھی۔ مولانا اور دیگر ساتھی قیدی ، راولپنڈی سازش کیس کے سزا یافتہ فیض احمد فیض اور دیگر افراد اکٹھے جیل سے رہا ہوئے۔ ہوا یوں کہ جس قانون کے تحت ان کو سزائے موت دی گئی تھی۔ فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں اس قانون کو کالعدم قرار دیا کیونکہ اس پر گورنرجنرل کے دستخط نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ لہذا سزا کالعدم قرار پائی۔ جیل سے رہائی کے چند دن بعد مولانا کو موچی گیٹ جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ مولانا خود مجھے اپنے ساتھ گاڑی پر بٹھا کر جلسے میں لے گئے۔ جلسے کے اختتام پر جماعت اسلامی کے کچھ رہنما اور کارکن ہجوم پھیلنے سے قبل مولانا کو گاڑی میں سوار کراکر نکلنا چاہتے تھے لیکن مولانا نے فرمایا ریاض چودھری صاحب کہاں ہیں۔ وہ میرے ساتھ آئے تھے اب ساتھ ہی جائیں گے۔ ان کو تلاش کرومیں تب جاو¿ں گا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ مولانا سحری کے وقت خود کھانا اٹھا کر لاتے اور میرے ساتھ کھاتے۔ سخت سردیوں میں سحری ہوتی تو فرماتے کہ باہر جو گھڑا رکھا ہے اس میں سے پانی لائیں۔ مولانا یخ ٹھنڈا پانی پیتے اور شکر کرتے۔ وہ ہمیشہ ٹھنڈا پانی پیتے، پان کھانے کے باوجود لباس اور دانت انتہائی صاف ہوتے۔ میںنے اپنی زندگی میں جن چند خوش لباس افراد کو دیکھا ہے مولانا مودودی ؒ ان میں سے ایک ہیں۔ روزنامہ جسارت میں وقاص جعفری صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے مولانا کو ایک طالب علم کے طور پر پڑھا ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی کو براہ راست سننے اور دیکھنے والوں پر کیا گزرتی ہوگی ۔ وہ کون لوگ ہوں گے جنہوں نے ان کو دیکھا ، ان کے ساتھ وقت گذارا۔ تو اپنے رفقاءسے مولانا مودودیؒ کی محبت کا اندازہ اس مضمون کو پڑھ کر ہو جائے گا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی 1903ءبمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔ ابوالاعلیٰ مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔