اہم اجلاس ، چھ نکات اور تاشقند کی کہانی

ہمارے بہترین اور قابل احترام دوست عبداللہ بٹ ایک صاحب علم، زیرک دانش ور اور علم و عرفان کا ذوق رکھتے تھے۔ وہ لوگوں سے محبت کرنے والے عظیم انسان تھے۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز علم و ادب اور تہذیب و تمدن کے فروغ کے لئے وقف کررکھی تھی۔ مرحوم عمر بھر غربت اور افلاس کے خاتمے اور انسانیت کی بھلائی کے لئے کوشاں رہے۔ انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے قلمی اور فکری جہاد کیا اگرچہ عبداللہ بٹ خود عمر بھر نامساعد حالات کا شکاررہے لیکن حوصلہ کبھی نہ ہارے۔ انہوں نے صحافت ایسے پیشے کا تقدس ہمیشہ بحال رکھا۔ راقم السطور تقریباً 65 برس صحافت کی وادی پر خار میں گزارنے کے باوجود آج کے پست معیار صحافت سے افسردہ ہے۔ عبداللہ بٹ اپنی ذات سے لے کر تنظیموں تک اعلیٰ نظم و نسق برقرار رکھنے کے ماہر تھے۔ 6 فروری 1966 ءکودانش ور اور اقتصادی امور کے ماہر چوہدری محمد علی نے اپنی رہائش گاہ واقع گلبرگ لاہور میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں اور ان کے رہنماﺅں کی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ چوہدری محمد علی راقم السطور اور عبداللہ بٹ کو اپنے ہاں حاضری کی دعوت دیتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں مذکورہ کانفرنس ملک میں پہلی ایسی کانفرنس تھی جو انتہائی منظم انداز میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں کوئی شخص بلا اجازت شامل نہیں ہوسکتا تھا۔ مذکورہ کانفرنس جو شام تک جاری رہی ،کے کئی اجلاس ہوئے۔ اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت موجود تھی۔ چوہدری محمد علی جیسے عظیم مسلمان، سچے مومن اور صاحب فہم و فراست کی رہنمائی میں عبداللہ بٹ مرحوم نے جس انداز میں دن رات جو جدوجہد کی اس پر میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ لاہور میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا ایک بہت بڑا اجلاس سابق وزیر اعظم پاکستان چودھری محمد علی کی رہائش گاہ گلبرگ میں ہوا۔ جس میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی، صدارتی نظام کے خاتمے اور دیگر سیاسی امور پر اہم فیصلے ہوئے۔ اس اجلاس میں عوامی لیگ کے مجیب الرحمن مشروط رہائی پر آنے کےلئے تیار تھے لیکن ولی خان صاحب اور میاں ممتاز احمد دولتانہ صاحب کے مطالبہ پر غیرمشروط طور پر اجلاس میں شریک ہوئے۔ دوسرا اہم اجلاس جنگ ستمبر کے خاتمے پر سابقہ سوویت یونین کے صدر کی دعوت پرجنگ بندی کےلئے تاشقند میں منعقد ہوا جس میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری ، صدر پاکستان جنرل ایوب خان مرحوم شریک ہوئے۔ لال بہادر شاستری تو اسی رات سورگباشی ہوگئے۔ ہمارے اس وقت کے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ، ایئر مارشل جناب اصغر خان مرحوم اور وفاقی سیکرٹری اطلاعات جناب الطاف گوہر صاحب بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ بھٹو صاحب نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے وطن واپسی پر بیان دیا کہ وہ تاشقند کے راز عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ اس روز کانفرنس میں ایک اہم کام یہ ہوا کہ کانفرنس جاری تھی جس میں ملک و ملت کو درپیش مسئلہ یعنی ون مین ووٹ کی بناءپر قومی رائے دہی اور دوسری طرف مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کی بنیاد پر پارلیمانی نظام کا مطالبہ کیا گیا تھا جب کہ اس دوران ایوب خان کی حکومت بار بار اعلان کررہی تھی کہ کانفرنس میں منظور کی گئی قرار دادیں کسی اخبار میں شائع نہیں ہوسکتیں۔ رات گئے اعلان ہوا کہ اس کانفرنس کے حوالے سے کوئی خبر بھی شائع نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن بھی شریک تھے۔ انہوں نے کانفرنس میں موجود بہت سے صحافیوں اور سیاسی رہنماﺅں سے بالمشافہ ملاقات کی اور فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملائے۔ میں واضح کردوں کہ میں واحد صحافی تھا جس نے شیخ مجیب الرحمن سے ہاتھ ملانا مناسب نہیں سمجھا۔ میں سمجھتا تھا کہ انہوں نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک جلسہ عام کے دوران بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شان میں گستاخی کی اور ان کے خلاف نعرے لگوائے۔ شیخ مجیب الرحمن نے قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لئے بھارتی حکومت سے ساز باز کی اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے 6 نکات وضح کئے۔ مجھے شیخ مجیب کی ان حرکات سے سخت نفرت تھی لہٰذا میں نے ان سے ہاتھ ملانا اپنی اور پاکستان کے عوام کی توہین سمجھا۔ ٹھیک رات بارہ بجے شیخ مجیب الرحمن نے ملتان سے تعلق رکھنے والے صحافی منظور ملک کے ذریعے مجھے فون کرایا کہ میں شیخ صاحب کے پاس آﺅں۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن سے فون پر علیک سلیک ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو 6 نکات کے بارے میں اہم خبر دینا چاہتا ہوں۔ میں نے شیخ صاحب سے عرض کی کہ جناب شیخ میں آپ کی یہ خبر شائع نہیں کرسکتا۔ انہیں معلوم تھا کہ میں اس کانفرنس کی کوریج کے لئے پاکستان ٹائمز لاہور، انگریزی روزنامہ مارننگ نیوز کراچی ، روزنامہ مشرق لاہور ، کوئٹہ ، کراچی، پشاور اور روزنامہ امروز لاہور اور ملتان کی نمائندگی کررہا تھا، جو نیشنل پریس ٹرسٹ کے کثیر الاشاعت اخبارات تھے اور شیخ مجیب الرحمن میرے ذریعے 6 نکات کی تشہیر چاہتے تھے چنانچہ نے مو¿دبانہ انداز میں ان سے معذرت کی کہ میں اپنی قوم اور ملک کے مفاد اور وقار کے خلاف یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس پر انہوں نے فون منظور ملک کو دے دیا۔ منظور ملک نے مجھے کہا ریاض چودھری صاحب ، آپ کو معلوم نہیں ہے کہ شیخ مجیب الرحمن آپ کی کس قدر مالی مدد کرسکتے ہیں۔ میں نے منظور ملک سے کہا کہ میں ایک معمولی مگر غیور پاکستانی ہوں اور رزق حلال کما کر کھاتا ہوں۔ مجھے حرام خوری کی عادت نہیں۔ میں نے کہا شیخ مجیب الرحمن میرے ہاتھ پر پوری کائنات بھی رکھ دیں تو بھی میرا طرز عمل انشاءاللہ ملک و ملت کے حق میں ہوگا۔ ملک منظور اس وقت کنونشن لیگ مغربی پاکستان کے اخبار کوہستان جو ملک خدا بخش بچہ کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا کے رپورٹر تھے۔ چنانچہ انہوں نے 7 فروری 1966 ءکے شمارہ میں 6 نکات والی خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی مگر اس اخبار کی اشاعت محدود تھی۔ بعدازاں مشرقی پاکستان کنونشن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ اور کنونشن لیگ مشرقی پاکستان کی صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس منعقد ہوئے جس میں ان چھ نکات کو مسترد کر دیا گیا۔ لیکن اس بارے میں مشرقی پاکستان کے کسی اخبار میں خبر شائع نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ فقیر عبدالمنان اور دیوان عبدالباسط یہ دونوں رہنما لاہور آئے اور انہوں نے ڈیوس روڈ پر واقعہ ایمبسیڈر ہوٹل میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ میرا معمول رہا ہے کہ میں اکثر ایسی تقریبات میںوقت سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہوں چنانچہ میں ایمبسیڈر ہوٹل پہنچا تو ان دونوں اصحاب سے مصافحہ کیا وہاں مرکزی وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین بھی تشریف رکھتے تھے۔ ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس دوران مجھے دونوں رہنماﺅں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی پاکستان کا پریس محب وطن ہے جب کہ مشرقی پاکستان کا پریس بھارت کے ہاتھوں بک چکا ہے۔ وہاں چھ نکات کے خلاف کسی لیڈر کی خبر چھپ ہی نہیں سکتی۔ میں نے عرض کیا خواجہ شہاب الدین صاحب تشریف فرما ہیں ان کی وزارت اطلاعات میں چھ نکات بنے ہیں اور یہ اس حوالے سے شیخ مجیب سے ملے ہوئے ہیں۔ میں یہ بات پوری ذمہ داری اور ایمانداری سے کررہا ہوں میرے پاس معلومات ہیں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ چھ نکات خواجہ شہاب الدین کی توثیق سے لکھے گئے اور شائع ہوئے ہیں اور مشرقی پاکستان کے پریس اور ٹرسٹ کے اخبارات پر ہندوﺅں اور مکتی باہنی کا قبضہ ہے لہٰذا آپ کے اصل مجرم خواجہ شہاب الدین ہیں ان کا محاسبہ کیجئے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور کے کالم نگار نجم الحسن ضیغم مرحوم گاہے بگاہے لکھتے رہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات کو نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات نے شائع کیا۔ دراصل محترم مجید نظامی مرحوم نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کے خلاف تھے کیونکہ ان کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات بند ہو جائیں ۔ چودھری محمد علی صاحب کے ہاں 6 فروری 1966 ءکو منعقد ہونے والی کانفرنس کا ایک اچھا ثمر یہ بھی تھا کہ محترم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے 17 ستمبر 1965ءکو تاشقند میں روسی صدر، بھارتی وزیر اعظم انجہانی لال بہادر شاستری اور جنرل ایوب خان مرحوم کے درمیان جو جنگ بندی کے لئے کانفرنس ہوئی تھی اور بھٹو مرحوم نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ وہ تاشقند کے راز وقت آنے پر افشاں کردیں گے۔ لاہور میں ہونے والی حزب اختلاف کی کانفرنس کے بعد بھٹومرحوم کو تاشقند کے راز اگلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ راقم السطور یہاں انکشاف کرنا چاہتا ہے کہ بھٹو مرحوم نے جنگ بندی کے بارے میں بہت سی تجاویز اور نوٹس تیار کیے تھے جو انہوں نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے۔ بھٹو صاحب مرحوم کے ہاتھ کی لکھی ہوئی یہ تحریریں الطاف گوہر مرحوم نے بڑی چابکدستی سے اٹھا لیں اور بھٹو مرحوم کو اس کا پتہ ہی نہیں چلنے دیا۔ پاکستان ایئر فورس کے سربراہ اصغر خان مرحوم بھی تاشقند کانفرنس میں شرکت کرنے کےلئے ایوب خان کے ساتھ گئے تھے۔ انہوںنے راقم السطور کو یہ بات بتائی۔ میں نے ان دنوں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی اہم شخصیات کو یہ بات بتائی تو بھٹو مرحوم کو بخوبی یہ علم ہوگیا تھا کہ اب وہ تاشقند کے حالات بتانے کا کارڈ استعمال نہیں کر سکتے تو بھٹو صاحب نے تہیہ کر لیا کہ وہ الطاف گوہر کے پاس موجود مواد ہر صورت حاصل کر کے رہیں گے۔ الطاف گوہربھی کافی محتاط اور چوکنا ہوگئے۔ الطاف گوہر نے عظیم مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی سے لاہور میں ملاقات کی اور انہوںنے بتایا کہ وہ تفہیم القرآن سے استفادہ کرکے انگریزی زبان میں کتا ب تحریر کرنا چاہتے ہیںاور مولانا مودودیؒ نے اجازت دے دی۔الطاف گوہر نے تفہیم القرآن انگریزی زبان میں تحریر کی۔ بعد ازاں الطاف گوہر نے روزنامہ ڈان کی ادارت سنبھال لی اور بھٹو مرحوم کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ بعد ازاں بھٹو صاحب مرحوم اور الطاف گوہر مرحوم کے درمیان مذاکرات ہوئے اور یہ طے پایا کہ بھٹو صاحب مرحوم کی حکومت الطاف گوہر مرحوم کو کراچی، ملتان، لاہور ، فیصل آباد کے شہروں میں روٹی پلانٹ لگانے کےلئے 15 کروڑ روپے فراہم کرے گی۔ چنانچہ الطاف گوہر مرحوم نے روٹی پلانٹ چلانے کےلئے باقاعدہ ایک کمپنی بنائی ۔ بھٹو صاحب مرحوم کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ روٹی پلانٹ بھی بند ہوگئے اور کچھ مقامات پر ان کی کورٹ کے ذریعے نیلامی بھی ہوئی۔ ملتان کی انڈسٹریل سٹیٹ میں واقع روٹی پلانٹ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے خرید لیا ۔ اس طرح ہمارے نہایت معزز اور پاک دامن سیاسی رہنما ڈاکٹر شریف چودھری صاحب (پنجاب کے سابق وزیر آبکاری)نے خرید لیا۔ وہ کئی وجوہات کی بنا پر اس پلانٹ کو چلا نہ سکے اور انہوں نے اس کی مشینری اونے پونے داموں فروخت کر دی اور اس رقبے کو اپنا ڈیرہ بنا لیا۔