کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر

ہمارے محترم دوست اعجاز احمد چودھری صاحب وطن عزیز کے ممتاز سیاسی رہنما اور بڑے محب وطن دانشور ہیں ۔انہوں نے بی ایس سی سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور بطور سول انجینئر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں یہاں کام بھی کر چکے ہیں۔ وہ صاحب علم اور تجربہ کار انجینئر ہیں اورکالا باغ ڈیم کی افادیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔راقم السطور سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ اب بھی یہ ڈیم تعمیر ہو جائے تو وطن عزیز سے غربت، افلاس ، بے روزگاری کے ساتھ ساتھ میٹھے اور صاف پانی اور توانائی کی کمی بھی دور ہو سکتی ہے۔ کالاباغ ڈیم یا کالاباغ بند حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ کالاباغ بند کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازع رہا ہے۔ دسمبر 2005ءمیں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ءکو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“ صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ اب تک التوا کا شکار رہا۔ کالاباغ بند منصوبہ کی تعمیر کے حق میں صرف صوبہ پنجاب ہے جو تمام چاروں صوبوں میں سیاسی و معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ہے۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں نے اس منصوبہ کی تعمیر کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں متفقہ قراردادیں منظور کیں اور سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ تب سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا اور اس پر کوئی بھی تعمیری کام ممکن نہ ہو سکا۔ اس منصوبہ سے حاصل ہونے والے فوائد میں بجلی کی پیداوار اور پانی کا ذخیرہ کرنا، جس سے زرعی زمین سیراب ہو سکتی ہے شامل ہے ۔ اس منصوبہ کے مخالفین نے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت اس کے نقصانات کو واضع طور پر اجاگر کیا ہے جس کی وجہ سے تینوں مخالف صوبوں میں عوامی رائے عامہ اس منصوبہ کی تعمیر کے حوالے سے ہموار نہیں ہے۔ عالمی قانون برائے تقسیم پانی، عوامی رائے عامہ اور فریقین کا نقطہ نظر وہ چند عوامل ہیں جن کے سبب 1984ءسے اب تک اس منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ پنجاب کے نقطہ نظر میں کالاباغ بند کے علاوہ بھی دو بڑے منصوبے بھاشا بند اور سکر دو بند بھی تعمیر کیے جانے چاہیے۔ کالاباغ بند چونکہ ان تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابل عمل ہے تو اسے سب سے پہلے تعمیر ہونا چاہیے۔ بہاولپور اور بہاول نگر کے علاقے کالاباغ بند کے ذخیرے سے سب سے زیادہ مستفید ہوں گے۔پنجاب کے نقطہ نظر میں کالا باغ ڈیم دو دریاو¿ں یعنی دریائے ستلج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے صوبائی نقصانات کا بہتر نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے،یہ صوبائی نقصان بلاشبہ وفاقی سطح پر ہونے والی زیادتی ہے، جس کے ذمہ دار دوسرے صوبے بھی ہیں۔ صوبہ پنجاب کی اس منصوبہ کی حمایت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالا باغ بند سے تقریباً 3600 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستان کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہے۔پنجاب نے اس منصوبہ پر اپنے موقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا ہے اور کالا باغ منصوبہ سے حاصل ہونے والی وفاقی سطح پر آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ بدقسمتی سے پورے پاکستان میں ایک تکنیکی مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ جناب شمس الملک صاحب کا کہنا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سندھ کو اس ڈیم کی وجہ سے پانی کم ملے گا۔ وہ غلط کہتے ہیں کالا باغ ڈیم بننے سے اس ڈیم کا پانی باقی صوبوں سے زیادہ سندھ کو ملے گا۔ دوسرا یہ ڈیم بننے سے صوبہ سندھ کو سیلاب کا خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔ خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈیم بنانے سے بارشوں کا پانی ڈیم میں بھر جائے گا اور شدید بارشوں کی وجہ سے یہ پانی واپس ہو کر نوشہرہ کو سیلاب میں ڈبو دے گا۔یہ بالکل غلط ہے کیونکہ نوشہرہ شہر کالاباغ کے اوپر کی طرف ہے جبکہ ڈیم کے پانی کا بہاو¿ نیچے کی طرف ہے ۔ پانی واپس اوپر کیسے جائے گا۔ ہاں 1932 میں دریائے کابل میں سیلاب آنے کی وجہ سے نوشہرہ شہر کو خطرہ ہوا تھا مگر دریائے سندھ سے شہر کو کوئی خطرہ نہیں۔ کالا باغ اور گردو نواح میں آباد لوگ بھی یہی چاہتے ہیںکہ یہاں ڈیم بنے ۔ ڈیم بننے سے نہ صرف ان مقامی لوگوں کو روز گار ملے گا بلکہ یہاں پانی اور توانائی کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ کالاباغ شہر کے اندر ہی دو تین نمک کی کانیں واقع ہیں جن میں سے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) سالٹ مائین سب سے مشہور ہے۔ یہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے جہاں سے روم اور پلر کے اصول کے مطابق نمک نکالا جاتا ہے۔ یہاں کچھ چیمبر 80 میٹر تک گہرے ہیں جہاں آج بھی کاریگر ہاتھوں سے نمک نکاتے ہیں۔ یہاں تقریباً 13 مختلف اقسام اور رنگوں کا نمک نکالا جاتا ہے جنہیں چھوٹی چھوٹی ٹرالیوں میں بھر کر دوسرے شہروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کا سفید و گلابی نمک 96 فیصد خالص ہے۔ 2018 میں یہاں سے ایک لاکھ بیالیس ہزارپانچ سو چالیس ٹن نمک نکالا گیا تھا۔نمک کے علاوہ کالاباغ لوہے کی پیداوار میں بھی مشہور ہے۔ خام لوہے کے یہ ذخائر مکڑوال سے کالاباغ اور پھر سکیسر تک پھیلے ہوئے ہیں۔