اقبالؒ کی شاعری کے حوالے سے اسلام کی نشاة ثانیہ

علامہ اقبالؒ وہ شخصیت ہیں جنہیں قدرت نے ہر اس سبب سے آگاہ کر دیاجس سے امت مسلمہ زوال پذیر تھی اور ہر اس راز سے آشنا کر دیا جو اس زوال کو عروج میں بدل سکتا تھا۔ پھر اقبالؒ نے قدرت کے اس انعام کو اس الہام کو مسلمانوں تک پہنچانے کے لئے شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اقبالؒ کی شاعری مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کے پروگرام کی تھیوری ہے اور قم باذن اللہ کی وہ صدا ہے جس سے مردہ جسموں میں جان پڑ جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی حالت یہ ہے کہ دو اسلامی ممالک عراق اور افغانستان امریکہ کی ننگی جارحیت کا شکار ہیں۔ بے شمار مسلمان شہید کر دیئے گئے لاتعداد عورتوں کی عصمت دری کی گئی ہے شہروں کے شہر برباد کر دیئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ کشمیر اور فلسطین غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور زخموں سے ان کا وجود نڈھال ہو چکا ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک میں اتنی سکت نہیں ہے کہ حریفوں کے دست ستم کش کو روک سکیں اور بحیثیت امت مسلمہ اپنا دفاع کر سکیں۔ جب حالات یہ ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبالؒ کے خواب طلوع اسلام کی تعبیر کیسے ممکن ہو گی۔ افق سے آفتاب ابھرنے اور دورگراں خوابی کے ختم ہونے کی باتیں کیسے پوری ہوں گی اور مسلمان جو ایک سوئے ہوئے شیر کی مانند ہے اس کے بیدار ہونے کی نوید جو اقبالؒ نے سنائی ہے اس کی کیا صورت ہو گی اوراسلام کے عروج کی جو بات اقبالؒ نے اس طرح کی ہے کہ اب تیرا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زر وسیم ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام خود اشاعت علم اور حصول علم کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اسلام کی علم پروری کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ غزوات میں کفار کے جو جنگی قیدی تعلیم یافتہ تھے ان کی رہائی کا فدیہ رسول اللہ نے نقد رقم کی ادائیگی کے بجائے یہ مقرر فرمایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو وہ علم منتقل کر دیں اور لکھنا پڑھنا سِکھا دیں۔ حصولِ علم کے معاملے میں اسلام کی اس انقلابی پالیسی کا ثمر تھا کہ مسلمانوں میں حصولِ علم کا شوق عام ہو گیا لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہم نے سیرتِ نبوی ہی نہیں بلکہ علم سے متعلق اسلام کے بتائے اور سِکھائے تمام زرّیں اصولوں کو بھی فراموش کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ریاست مدینہ کا تصور علامہ اقبال کے مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کے پیغام کے عین مطابق ہے۔دنیا کے بعض ممالک نشاة ثانیہ کے معاملے پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ تاہم عمران خان جیسے رہنما اس معاملے پر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے استحصال کی جو بات کی تھی وہ آج سچ ثابت ہوئی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کی سوچ اور شاعری آفاقیت پر مبنی ہے۔ وہ پاکستان سمیت سب قوموں بالخصوص امت مسلمہ کے شاعر تھے۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا۔ چند سالوں میں تحریک پاکستان میں شامل مسلمان رہنماﺅں کو یہ ادراک ہوگیا تھا کہ ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا استحصال کیا جائے گا۔ علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بار بار برصغیر کے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے الگ وطن ضروری ہے۔ علامہ اقبالؒ کو یورپ میں دوران تعلیم احساس ہوا کہ مسلمان بالخصوص ہندوستان کے مسلمان زوال پذیر ہیں جس سے ان کو صدمہ ہوا۔ اس اثر کا اظہار ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے اس وقت اپنے اشعار کے ذریعے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی۔ ان کی شاعری نے امت مسلمہ کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارتی حکومت جو حالات پیدا کر رہی ہے اس سے وہاں انتشار پیدا ہوگا۔ دو قومی نظریہ اس وقت کا بہترین نظریہ تھا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے لیکچرز میں ایمان‘ منطق اورصوفی ازم پر زور دیا۔ ہمارے لئے قرآن پاک کی تعلیمات مشعل راہ ہیں۔ انسان میں اس وقت تبدیلی پیدا ہوتی ہے جب وہ روحانی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی تصانیف میں موت اور زندگی کا تصور بھی پیش کیا۔ سرسید احمد خان سمیت دیگر مسلمان رہنماو¿ں نے برصغیر کے مسلمانوں کی سوچ بدلنے کی کوشش کی۔ پاکستان نشاة ثانیہ کی طرف جارہا ہے۔ یہ ہمارے دلوں کی آواز ہے۔ ملک کی موجودہ قیادت اسی عزم و ہمت سے کام کرے گی تو اس سے پاکستان ترقی کرے گا۔ اسلامی تعلیمات نے عرب بدوو¿ں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کرعلم و حکمت کے نور سے منور کیا اور اسی وجہ سے وہ عظیم رہنماو¿ں کی صورت دنیا کے منظر نامے پر چھا گئے۔ انہی تعلیمات کی بدولت ایسی تابناک تہذیب کی بنیاد پڑی ، جس کی ضیاءسے اہل جہاںہزار سال تک مستفید ہوتے رہے مگرافسوس صد افسوس مغربی تہذیب کے ذیرِ اثر اسی اسلام کے نام لیوا اب پستی کا شکارہیں۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج بھی ویساہی انقلاب برپا کرنا ممکن ہے۔کیا ممکن ہے کہ برصغیر سے پھوٹنے والی اسلامی تحریک بالآخر ہندوستان سمیت پوری دنیامیں اسلامی نشاة ثانیہ کاباعث بنے گی۔ خوش قسمتی سے برصغیر ہندو پاک میں ایک وسیع پیمانے پر ایسی تحریک پیدا بھی ہوچکی ہے جس کے زیر اثر عوام میں ایمان کی روشنی پھیل رہی ہے اور حیات دنیوی سے زیادہ حیات اخروی کی اہمیت کا احساس ا±جاگر ہو رہا ہے۔