چودھری پرویز الہیٰ اور الیکشن کمیشن

چودھری پرویز الہیٰ وہ سیاستدان ہیں جن کے بغیر پنجاب کی سیاست اور حکومت مکمل نہیں ہو سکتی ،انہوں نے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا وہ باب لکھا ہے جسے بار بار پڑھ کر آنے والے سیاستدان ، حکومت اور سیاست میں نام پیدا کر سکتے ہیں ۔رواداری ،بھائی چارے اور مفاہمت کی سیاست ان کا امتیاز ہے ،اپنی انہی خوبیوں کے سبب انہوں نے پنجاب میں سینیٹ کے الیکشن میں وہ کر دکھایا جسکی امید بھی نہیں تھی ۔ ایک جانب سینیٹ الیکشن حکومت اپوزیشن کیلئے زندگی موت کا مسٔلہ بنا ہوا ،فریقین اپنے اپنے ارکان کو مخالفین سے محفوظ رکھنے کیلئے دن رات سر جوڑے بیٹھے ہیں،انتخاب کے طریقہ کار پر مباحثہ جاری ہے،ارکان کی جاسوسی ہو رہی ہے،حلف لئے جارہے ہیں،دوسری طرف منڈی بھی لگی ،بولیاں بھی دی جا رہی ہیں،اس حوالے سے سخت ترین معرکہ پنجاب کا تھا،جبکہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں ہونے والے تشدد کے بعد سوچا جا رہا تھا کہیں سینٹ الیکشن بھی پر تشدد نہ ہو جا ئے،ایسے میں مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کمال کر دکھایا اور پنجاب میں سینیٹ کے معرکہ کو پر امن بنا کر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کو اسمبلیوں میں حاصل عددی اکثریت کے مطابق نشستوں پر بلا مقابلہ کامیاب کرا دیا،آزاد اور ناراض ارکان کی بولیاں لگانے اور فارورڈ گروپ بنانے کی کوششیں خاک ہو گئیں، چودھری پرویز الٰہی نے دو متحارب جماعتوں کو پر امن انداز سے الیکشن کے نتائج حاصل کرنے پر قائل کر کے بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ کی یاد تازہ کر دی،بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جماعت کے امیدوار کامل علی آغا کی کامیابی کی راہ ہموار کی،مگر اتحادی ہونے کے ناطے کامل آغا ق لیگ کے نہیں تحریک انصاف کے امیدوار تھے،جب ق لیگ کے ارکان نے اتحادی ہونے کے ناطے تحریک انصاف کے امیدواروں کومنتخب کرنا تھا تو تحریک انصاف کے ووٹرز کو بھی ق لیگ کے امیدوار کو ووٹ دینا تھے۔ چودھری پرویز الٰہی نے انتہائی کشیدگی کے دور میں اپنے خاندان کی روادارانہ سیاست پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کامیاب کوشش کی،یہی کردار چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہیٰ نے طاہرالقادری کے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران ادا کیا تھا اور ایسے وقت جبکہ لیگی حکومت تشدد سے دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کی پلاننگ کر رہی تھی چودھریوں نے طاہرالقادری کو پر امن طریقے سے دھرنا ختم کرنے پر راضی کیا،چودھری خاندان کے بانی شہید چودھری ظہور الٰہی بھی اپنی زندگی میں ثالث اور مصالحت کا کردار ادا کرتے رہے،خاص طور پر بھٹو دور میں جب احتجاجی تحریک عروج پر تھی قومی اتحاد کی جماعتوں کو بھٹو سے اختلاف کے باوجود مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا،یہی کردار چودھری پرویز الٰہی نے ادا کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن نتائج کو متنازعہ ہونے سے بچا لیا۔ قرائین بتا رہے تھے کہ الیکشن جتنے بھی شفاف ہوتے اپوزیشن اتحاد نے دھاندلی کا شور مچا کر ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دینا تھا اور جس طرح ڈسکہ الیکشن پرلے دے ہو تی رہی اسی طرح سینیٹ الیکشن کو بھی متنازع بنا دیا جاتا،اب بھی ن لیگ کو پنجاب سے حصہ ملنا تھا مل گیا،سندھ سے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو ان کی عددی اکثریت کے مطابق نشستیں دیدی جائیں اور کے پی کے تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کو ان کا فطری حصہ دیدیا جائے تو تنازع اور جھگڑے کی راہ روکی جا سکتی ہے،میدان لگنا ہے اسلام آباد کی ایک نشست پر یا بلوچستان میں ،بلوچستان میں چونکہ کسی پارٹی کو ایسے اکثریت حاصل نہیں جیسی پیپلز پارٹی کو سندھ اور تحریک انصاف کو کے پی کے میں حاصل ہے اس لئے وہاں فیصلہ پولنگ سے ہی بہتر ہو گا،اسلام آباد کی نشست پر حکومت اور اپوزیشن کی ساکھ کا سوال ہے اس لئے شائد اس پر بھی کسی قسم کی بات چیت ممکن نہ ہو،مگر چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب میں ثالثی کرا کے ملک کو ایک بڑے سیاسی بحران سے بچا لیا ہے۔ ڈسکہ ضمنی الیکشن میں پولنگ کے دن اور نتائج کی ترتیب کے دوران جو تماشے ہوئے وہ ملکی انتخابی نظام پر سوالیہ نشان ہے،اس کے بعد کشیدگی عروج پر پہنچ گئی،ایسے میںتحریک انصاف حکومت نے ،جن حلقوں کے نتائج میں ٹمپرنگ کا الزام لگایا گیا ان میں ری پول کرانے کی پیشکش کی مگر اپوزیشن نے پورے حلقہ این اے 75میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا،اس تماشے کا نوٹس الیکشن کمیشن بھی لے چکا تھا،لیگی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کی درخواست پر سماعت کے بعد الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 18مارچ کو اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ صادر کیا،الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ بھی بہت دانشمندانہ تھا،ورنہ سیاسی درجہ حرارت جس مقام کو چھو رہا تھا وہ خطرناک تھا،اگر صرف متنازع پولنگ سٹیشنز پر ری پولنگ کا فیصلہ آتا تو اپوزیشن نے تسلیم نہیں کرنا تھا اور ان کے شور شرابے میں سینیٹ الیکشن کا انعقاد بھی مشکوک ہو جاتا،چودھری پرویز الٰہی کی ثالثی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے نے ملک کو افراتفری اور احتجاجی تحریک سے بچا لیا،جس پر دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں،اگرچہ تحریک انصاف کے امیدوار نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے،لیکن بہتر ہوتا اگر تحریک انصاف بھی فیصلہ کو من و عن تسلیم کر کے الیکشن کی نئے طریقے سے تیاری شروع کر دیتی۔ ڈسکہ الیکشن میں اٹھنے والے طوفان بد تمیزی کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت فوری طور پر ذمہ داران کیخلاف ایکشن لیتی مگر یہ کام بھی الیکشن کمیشن کو کرنا پڑا،حکومت کا یہ بھی فرض اول تھا کہ سراغ لگاتی 23پریزائیڈنگ افسر کہاں لا پتہ رہے،اور کیوں؟اس دوران کس سے ملے،تاکہ اندازہ ہو سکتا کہ یہ لوگ لالچ میں کہیں گئے یا ان کو زبردستی وہاں لے جایا گیا،الیکشن کمیشن کے رابطہ پر رسپانس نہ دینے والے اعلیٰ افسروں سے بھی کم از کم پوچھ گچھ تو کی جاتی کہ وہ اس قدر کشیدہ حالات پر بھی خاموش تماشائی بنے کیوں بیٹھے رہے،لاپتہ پریزائیڈنگ افسروں کا معاملہ معمولی ہے نہ ایسا کہ اس پر فوری اور خصوصی توجہ نہ دیجائے یہ نظام انتخاب کو متنازع بنانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے اور ضمیر فروشی کی ایک کوشش بھی،اس حوالے سے اگر حکومت نے اقدام نہ کیا تو شک سیدھا حکومت پر جائیگا کہ اس الیکشن میں ریاستی طاقت استعمال ہوئی۔