وزیر اعلیٰ بزدار کے اچھے اقدامات

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اپنے پیش رو، وزرا ء اعلیٰ کی نسبت ذرا الگ سوچ کے حامل ہیں،ان کا طریقہ کار بھی مختلف ہے اور لب و لہجہ بھی ، اپنے وزراء اور افسروں کو کارکردگی دکھانے کیلئے فری ہینڈ کے ساتھ عزت بھی دیتے ہیں اور بہتر کارکردگی پر تعریف و توصیف بھی کرتے ہیں۔کوئی وزیر ٹھیک کام نہ کر رہا ہو تو اسے پیار سے سمجھاتے ہیں اور ساتھ لے کر چلتے ہیں ،کسی افسر کا کام پسند نہ آئے تو اسکی سرزنش کرنے کی بجائے مین سٹریم سے ہٹا دیتے ہیں جس کا کچھ افسر ناجائز فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔ انکی حکومت میں جزا اور سزا کے حوالے سے کوئی باقاعدہ سسٹم وجود نہیں پا سکا جس کی وجہ سے اچھے افسروں کی ستائش اور نکمے افسروں کی باز پرس نہیں ہو رہی۔ اس کے بر عکس پنجاب کی بیوروکریسی میں مختلف گروپ اپنے اپنے افسروں کو نوازنے اور انہیں کلیدی عہدوں پر لگوانے کے لئے سرگرم رہتے ہیں جسکی وجہ سے کسی گروپ میں شامل نہ ہونے والے اچھے اور کام کرنے والے افسر منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں،یہ رسم بد بھی اب بدلنا ہو گی، وزیر اعلیٰ بزدار پنجاب کے محکموں کی کارکردگی جانچنے کے لئے ان دنوں باقاعدگی سے اجلاس کر رہے ہیں۔انہیں جائزہ اجلاسوں کا سلسلہ بہت پہلے شروع کر دینا چاہئے تھا اس سے حکمرانوں اور بیوروکریسی میں رابطے بڑھتے،شکر رنجیاں دور ہوتیں اور غلط فہمیوں کے خاتمے کا موقع ملتا ،ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ،وزیر اعلیٰ بزدار ان دنوں اپنی حکومت کے اڑہائی سالوں میں محکموں کی کارکردگی کا جائیزہ لینے کے لئے جو اجلاس کر رہے ہیں ان میں محکمے کے وزیر اور سیکرٹری دونوں موجود ہوتے ہیں جو ایک خوش آئیند بات ہے۔ان اجلاسوں کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو وزراء اور بیوروکریسی کی نہ صرف کارکردگی کا پتہ چل رہا ہے بلکہ آپس میں اعتماد کی فضاء بھی بہتر ہو رہی ہے۔،وزیر اعلیٰ کے اس اقدام کو نہ سراہنا زیادتی ہو گا ۔ انہوں نے وزراء اور سیکرٹریوں کی نبض پر انگلیاں رکھ دی ہیں اور اب یقین ہے کہ ڈھنگ سے مرض کی تشخیص بھی ہو سکے گی اور کہاں خرابی ہے اس کا ادراک کر کے علاج بھی تجویز کیا جا سکے گا یہی اک فطری طریقہ تھا اور یہی بہترین طرز حکمرانی بلکہ اچھی حکومت کی ابتداء اور بنیاد ہے۔ جیسے ہر کام ایک سسٹم کے تحت انجام پاتا ہے ایسے ہی کسی کی کارکردگی جانچنے کا بھی ایک سائنٹفک طریقہ ہے،بے نظم اور غیر منظم قدرت کے نظام بھی نہیں ہیں،معمولی سے تدبر کی ضرورت ہے لاکھوں کروڑوں سال سے قدرت کا نظام شمسی،آبی،ہوائی اور دیگر نظام بناء کسی خلل کے کامیابی سے چل رہے ہیں تو یہ صاحب قدرت کے وضع کردہ خامیوں سے پاک نظام کی وجہ سے ہے، الل تلل کئے گئے کسی کام کا کبھی کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا،بیوروکریسی اور ماتحت انتظامی مشینری کسی بھی حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور اگر اسے کسی منظوم مرتب نظام میں پرو دیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہوتا ہے،کامیابی کیلئے خود احتسابی کیساتھ ماتحت محکموں کی کار کردگی پر نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے مگر اس سے بھی ضروری ہے کہ جن سے کام لینا ہے ان پر اعتماد کیا جائے،ٹاسک دیا جائے اور پھر نتائج کے حصول کیلئے مہلت اور وسائل فراہم کئے جائیں،کسی فوج کے سپاہیوں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر اسلحہ سے عاری کر کے میدان جنگ میں اتارنے کے نتائج تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے،لہٰذا ضروی ہے کہ وزیر اعلیٰ کارکردگی کا جائزہ ضرور لیں مگر اس کے ساتھ کارکردگی دکھانے کا موقع،ماحول اور وسائل بھی تفویض کریں۔ یہ تو تھا جملہ معترضہ،دنیا بھر میں یہ روائت ہے کہ اچھی کارکردگی پر ایوارڈ اور ریگارڈ دیا جاتا ہے،جبکہ ہمارے ہاں صرف بیوروکریسی اور ماتحت انتظامی عملہ پر ہی بس نہیں ہر شعبہ زندگی میں ماتحت افسروں اور عملہ کی زندگی بھر کی تپسیا ایک غلطی کی نذر ہو جاتی ہے بلکہ ایک الزام خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا،اس افسر کی نیک نیتی،محنت،اچھے،کاموں کو فراموش کر کے اس کی نیک نامی کو مٹی میں ملانے کیلئے بہت کافی ہوتی ہے،جبکہ ملزم تب تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک الزام ثابت کر کے اسے مجرم کے طور پر سزا نہیں سنائی جاتی،مگر ہمارے ہاں ملزم اور مجرم کا فرق ہی ختم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کارکردگی دکھانے کے خواہشمند بھی خوف کی چادر اوڑھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں،کارکردگی کا جائزہ لینا ہر حکمران کا حق ہے جو اسے عوام نے مینڈیٹ کی صورت میں ووٹ سے منتخب کر کے دیا ہے،مگر اس جانچ پڑتال کے نتیجے میں اچھی کارکردگی پر انعام اور توصیف کا بھی نظام بنانا چاہئے صرف الزام پر یا کسی غلطی پر سزا دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ وزیر اعلیٰ بزدار کی طرف سے جہانگیر ترین گروپ میں جانے والے ناراض پارٹی ارکان کی طرف توجہ مبذول کرنا بھی وقت کا تقاضا تھا،ان 32ارکان پنجاب اسمبلی کو جہانگیر ترین سے شائد اتنی ہمدردی نہیں کہ ان کی حمائت میں اپنی جماعت سے تعلقات خراب کر لیں،ان کا اصل مسلئہ اپنے مسائل کا حل تھا،ان کے حلقے کے ترقیاتی منصوبے جو بند پڑے تھے،ان کے ووٹرز کو ملازمت دینے کا مسئلہ جو انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے،یہ مسائل جب حل نہ ہوئے تو انہوں نے جہانگیر ترین کے کندھوں پر بندوق رکھ کے اپنا غصہ نکالا،وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ارکان پنجاب اسمبلی کی رنجش کا احساس بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا مگر جب انہوں نے ایک ایسے شخص جسے عدالت نا اہل قرار دے چکی ہے کی کال پر حکومت کیخلاف ناراضی کا اظہار کیا تو حکومت نے بجائے محاذ آرائی کا رویہ اپنانے کیلئے ان کے تحفظات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی جس کے نتیجے میں تمام رنجشیں،کدورتیں،اختلافات اور تحفظات کو دور کرنے میں مدد ملی،عثمان بزدار نے ناراض گروپ کوملاقات کا وقت دیکر اہمیت دی اور ان کو احساس دلایا کہ پنجاب حکومت ارکان صوبائی اسمبلی سے غافل نہیں،ان کے مسائل سے آگاہ اور ان کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے،نتیجے میں اختلافات ختم اور تحفظات دور ہو گئے،سب نے اپنی وفاداری کا یقین دلا دیا،اس اہم پیش رفت کے بعد وزیر اعظم کو بھی ناراض ارکان کو منانے کا خیال آیا اور ان سے مکالمہ کیلئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو ایلچی بنا کر بھیجا گیا،جنہوں نے اپنی دلچسپ جملے بازی سے ماحول کو کشت زعفران کر کے سب کے دل نرم کئے ان کے تحفظات سے آگاہی حاصل کر کے یقین دلایا کہ ان کے تحفظات دور کئے جائیں گے،بعد میں ان سے ملاقات کی رپورٹ اور اپنی سفارشات بھی وزیر اعظم کو پیش کر دیں،بحر طور اس کا کریڈٹ بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو جاتا ہے جنہوں نے ماحول خراب ہونے سے پہلے اقدام کیا اور ناراض ارکان کو منانے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد وفاقی حکومت نے بھی بات چیت کے ذریعے مسئلےکا حل تلاش کر لیا۔ #usman buzdar #mohsin goraya