‎وزارتیں اور افسران

وفاقی وزیر  فواد چودھری کو ایک بار پھر وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے ،یہ ایک اچھی خبر ہے مگر وزیر اعظم  عمران خان کی طرف سے  کابینہ کے ارکان اور ان کے پورٹ فولیوز کی بار بار تبدیلی کو   بہتر قرار   نہیں  دیا جا سکتا ، چند روز قبل ہی  وزیر خزانہ کا  عہدہ سنبھالنے والے حماد اظہر سے  یہ  وزارتِ   واپس لے کر شوکت ترین کو  سونپ دی گئی ہے، حماد اظہر  کو  وزیرِ توانائی مقرر کیا گیا ہے،عمر ایوب سے وزارتِ توانائی کا چارج واپس لے کر انہیں وفاقی وزیرِ اقتصادی امور بنا دیا گیا ہے، جب کہ شبلی فراز کو وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی  کا قلم دان دیا گیا ہے۔فواد چودھری کا دوبارہ سے وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالنا اہم  بات ہے  اس سے قبل بھی وہ اس وزارت میں خدمات انجام دے چکے ہیں،خزانہ کا قلمدان بھی اسد عمر کے بعد حفیظ شیخ پھر حماد اظہر اور اب مختصر عرصے کے بعد شوکت ترین کو دیا گیا ہے، وزارت اطلاعات پر بھی ایسے ہی تجربات کئے گئے،فوادچودھری پہلے وزیر اطلاعات بنائے گئے،پھر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ذمہ داری ملی،شبلی فراز بھی ذمہ داری نبھاتے رہے،مگر فواد چودھری اس وزارت کیلئے درست انتخاب تھے اور  ہیں،ان کے نہ صرف صحافی برادری سے اچھے تعلقات ہیں  بلکہ  وہ خبر دینے کے معاملہ  اور دستیابی میں  بھی بخیلی نہیں کرتے  ، متحرک اور فعال ہونے کیساتھ اپوزیشن کے پراپیگنڈہ کا بھی موثرٔ جواب دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ‎      بات  تو  سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی،   پی ٹی آئی  کی وفاقی اور پنجاب حکومت  میں تبادلوں تقرریوں کو مذاق بنا لیا گیا ہے، کوئی  پسند ہی نہیں آتا  اب تو  غیر یقینی  یہاں تک ہے  کہ  کسی وزیر اور افسر کو پتہ نہیں ہوتا کہ کل اس نے اس پوسٹ پر رہنا بھی ہے یا نہیں، دوسری طرف   کسی کو بھی فرائض کی انجام دہی اور کام  کیلئے مہلت    دی جاتی ہے نہ فری ہینڈ،ہاتھ پائوں باندھ کر گھوڑے پر بٹھا کر میدان جنگ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔صرف تین ہفتے قبل وزیرِ اعظم عمران خان نے عبد الحفیظ شیخ کو وزیرِ خزانہ کے عہدے سے ہٹاکر حماد اظہر کو نیا وزیر مقرر کیا ، اس وقت کے وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا تھا کہ وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو مہنگائی کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے،وزیرِ اعظم عمران خان نے شوکت ترین کو اپنی معاشی ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن شوکت ترین نے بعض نیوز چینلز پر انٹرویوز میں کہا تھا کہ ان کا نام نیب کے بعض کیسز میں شامل ہے، نیب کیسز کے فیصلوں تک وہ کوئی وزارت نہیں سنبھالیں گے، شوکت ترین پیپلز پارٹی دور میں بھی وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں۔ ‎    بار بار  تبدیلیاں  مثبت  نتائج نہیں دے سکتیں،  گزشتہ 32 ماہ میں ایف بی آر کے چیئرمین چھ بار، بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین چار بار، سیکریٹری کامرس چار بار، پنجاب کے آئی جی پولیس چھ بار، چیف سیکرٹری چار بار ،وفاقی  فنانس سیکریٹری تین بار، وزیرِ اطلاعات چار بار، وزیرِ خوراک چار بار، وزیرِ صنعت چار بار اور وزیرِ خزانہ بھی چار بار تبدیل ہو چکے ہیں۔حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی وزارتِ خزانہ کا منصب اسد عمر سے لے کر عبد الحفیظ شیخ کو دیا گیا تھا جو سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں وزیرِ نجکاری کے علاوہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں وزیرِ خزانہ رہے،تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے تین سالہ دور میں چوتھی مرتبہ کابینہ میں بڑی ‎تبدیلیاں کی گئی ہیں، اس سے قبل آخری بار گزشتہ سال دسمبر میں کی گئی تبدیلیوں میں مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو وزیرِ خزانہ کا قلم دان سونپا گیا تھا  جب کہ شیخ رشید کو وزیرِ داخلہ بنایا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ بریگیڈیئر (ر)اعجاز شاہ کو وزیرِ انسداد منشیات اور اعظم سواتی کو وزیرِ ریلوے کا عہدہ دیا گیا تھا، گزشتہ برس اپریل میں بھی  تبدیلیاں کی گئی تھیں جس کے تحت خسرو بختیار کو وفاقی  وزیر فوڈ سکیورٹی کی وزارت سے ہٹا کر اقتصادی امور، حماد اظہر کو اقتصادی امور کی جگہ وزارتِ صنعت جب کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین فخر امام کو وزارتِ غذائی تحفظ دی گئی تھی،وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے دوسری مرتبہ یہ وزارت سنبھالی ہے، اب ایک بار پھر فواد چوہدری حکومت کی ترجمانی کے فرائض انجام دیں گے،یہ حکومت کا عرصہ بعد ایک  خوش آئند فیصلہ ہے۔ ‎     اپوزیشن کی جانب سے سرکاری افسروں کو دھمکیوں کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے نوٹس لیتے ہوئے دھمکیاں دینے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے،انہوں نے  کہا ہے کہ  سرکاری افسروں کو دھمکیاں دینا غیر قانونی ہے،اسے برداشت نہیں کیا جائے گا،سرکاری افسر اپنے ریاستی فرائض کی انجام دہی میں مکمل آزاد اور خود مختار ہیں،کوئی افسروں کو دھمکیاں دے گا تو حکومت اور قانون خاموش نہیں  رہیں گے۔اچھی بات  ہے کہ  وزیر اعلیٰ بزدار  کو بیوروکریسی کی مشکلات کا اندازہ ہوا،ن لیگ  کے رہنمائو ں نے جاتی امراء میں حکومت کی طرف سے  غیر قانونی تعمیرات مسمار کرنے   کا اعلان کر کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو موقع پر طلب کر لیا  اور  ساتھ ہی    چیف سیکرٹری پنجاب،کمشنر لاہور اور ڈپٹی کمشنر کو نام لیکر دھمکیاں دی گئیں،جو کسی بھی حوالے سے ایک غیر اخلاقی حرکت تھی۔ ‎    بیوروکریسی پہلے ہی بہت پر خطر حالات اور خوف میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہے،ان پر حکومتی دبائو کے علاوہ تبادلے اور نئی تعیناتی ‎ کی تلوار ہر وقت لٹکی رہتی ہے،جس کی وجہ سے افسر موجودہ دور میں اپنی اہلیت،قابلیت اور صلاحیت کے مطابق ملک و قوم کی خدمت انجام نہیں دے پا رہے۔ ‎پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار  سیاسی طور پر تو مضبوط ہیں مگر ان کے زیر سایہ  بیوروکریسی کے مختلف گروپ  آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں  جس سے انتظامی سطح پر حکومتی نیک نامی تو نہیں ہو رہی۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پنجاب میں افسروں کا  گوجرانوالہ  گروپ باقی افسروں کے خلاف سازشیں کر رہا ہے ،خبر یہ ہے کہ پنجاب میں کام کرنے والے وزیر اعلیٰ کے قریبی افسروں کے خلاف جال بنے جا رہے ہیں ،وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید ،ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑ ،ڈی سی لاہور مدثر ریاض ملک  کو ‎ ایک لابی ان سیٹوں پر نہیں دیکھنا چاہتی،کون نہیں دیکھنا چاہتے ،یہ وہی ہیں جو ماضی  میں ان پوسٹوں پر فائز تھے مگر کرپشن کی بنا پر انہیں تبدیل کر دیا گیاتھا،یہ  افسر اب بھی  منافع بخش  پوسٹوں پر لگے ہوئے ہیں  مگر  لگتا ہے  انکی آ مدن میں کمی  ہوئی ہے جو انہیں آرام سے  بیٹھنے نہیں دے رہی ۔ڈی جی ایل ڈی اے اور ڈپٹی کمشنر لاہور اس وقت محنت اور کارکردگی میں بہترین  جا رہےہیں۔  ایک خبر  یہ بھی ہے  کہ  پرنسپل سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ بزدار کے درمیان بھی غلط فہمیاں ڈالی جا رہی ہیں،پرنسپل سیکرٹری جن افسروں کو اپنا تابعدار ‎  اور دوست  سمجھ رہے ہیں وہی ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ محکمہ بلدیات  کے سیکرٹری اس محکمہ میں نہیں رہنا چاہتے ، کیوں؟یہ بھی  وزیر اعلیٰ  کے لئے جاننے کی ضرورت ہے ۔