وقت دعا ہے

کرونا ، لاک ڈاون اور اچانک ہونے کی وجہ سے میٹھی عید ویسے ہی پھیکی عید تھی مگر غزہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی ظلم وستم نے اسے ایک غمگین عید بنا دیا ۔ ان حالات میں کیا عید اور کیا عید کی خوشیاں،سوچا تھا راولپنڈی رنگ روڈ کے سکینڈل بارے لکھوں گا ،جسکی انکوائری رپورٹ میں کمشنر اور ڈی سی کا موقف الگ الگ ہے ، مگر ان حالات میں کچھ اور کیسے لکھا جا سکتا ہے،تمام حالات نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،صرف یہی کہا جا سکتا ہے اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے پوری دنیا کرونا کے قہر کا شکار مگر دوسری طرف محصور اور نہتے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے ذریعے زندگی اجیرن کر دی گئی ہے ،مگر انسانیت کیخلاف یہ جرم آج بھی عالمی توجہ حاصل نہیں کر سکا ،انسانی آبادی پر بمباری سے اس مرتبہ بھی 190 سے زائد شہادتیں ہو چکی ہیں زخمیوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد اور بے گھر افراد ہزاروں میں ہیں جن کی اکثریت کھلے آسمان تلے پڑی ہے اور اب میڈیا کے ارکان اور دفاتر بھی اس اسرائیلی دہشت گردی کا شکار بن رہے ہیں تاکہ دنیا ان مظالم سے آگاہ بھی نہ ہو سکے۔ یہ معاملہ مشرقِ وسطی کے دل میں ایک کھلا ہوا زخم ہے اور اسی وجہ سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونے والی جھڑپیں اور ہاتھا پائی بڑھ کر راکٹوں، فضائی حملوں اور ہلاکتوں تک پہنچ گئی ہے،حالیہ برسوں میں یہ تنازع بین الاقوامی سطح پر شہہ سرخیوں کی زینت نہیں بنا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ختم ہو چکا ہے،ایسے تنازعے جنھیں چند برسوں نے نہیں بلکہ نسلوں کے درمیان لڑائی اور ہلاکتوں نے سینچا ہو وہ خودبخود ختم نہیں ہوتے اور نہ ہی ان سے پیدا ہونے والی نفرتیں اور تلخیاں ہوا میں تحلیل ہوتی ہیں۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے دریائے اردن اور بحیرہِ روم کے درمیان علاقے کا مالک بننے کے لیے یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے، اسرائیل نے 1948 ء میں اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کو کئی مرتبہ کچلنے کی کوشش کی لیکن وہ ابھی تک جیت نہیں سکا ،جب تک یہ تنازع جاری ہے دونوں میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں، اس صورتحال میں کم از کم ایک بات یقینی نظر آتی ہے کہ رہ رہ کے ایک سنگین اور پرتشدد بحران پیدا ہو گا، گزشتہ تقریبا 15 برس سے اکثر یہ کشیدگی غزہ کو اسرائیل سے تقسیم کرنے والی خاردار تاروں کو پار کر کے غزہ پہنچ جاتی ہے،اس مرتبہ بھی یہ ایک یاد دہانی ہے کہ یروشلم اور اس کے مقدس مقامات میں ہونے والے واقعات میں تشدد کو بھڑکا دینے کی بے مثال قوت موجود ہے۔ مسیحیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے اس شہر کا تقدس صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ، مسلمان اسے القدس اور یہودی یروشلم کے نام سے پکارتے ہیں،یہودیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات قومی علامات بھی اس شہر میںہیں، جغرافیائی لحاظ سے یہ ایک دوسرے سے بس اتنے ہی فاصلے پر ہیں کہ ایک پتھر بھی فسادات کو ہواء دے سکتا ہے،ایک اسرائیلی چیک پوسٹ کی دوسری جانب ہولی سیپلکر چرچ واقع ہے جو فلسطینی مسیحیوں کے لیے انتہائی قابلِ احترام ہے،اسی علاقہ میں عیسائیوںکے عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ کو پھانسی دی گئی اور یہیں ان کی قبر بھی ہے،ایک جانب آرمینائی عیسائیوں کی اکژیت ہے جو کیتھولک یا پروٹسٹنٹ نہیں آرتھوڈوکس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں،بیت المقدس کے ایک جانب مسلمانوں کی اکثریت اور مذہبی مقامات ہیں جن میں مسجد اقصیٰ بھی شامل ہے،دوسری جانب یہودیوں کی اکثریت اور ان کے مذہبی مقامات ہیں جن میں ہیکل سلیمانی کی یادگار کے علاوہ دیوار گریہ بھی موجود ہے۔ قدیم فلسطین کے علاقہ شیخ جرح سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی کوششوں نے حالیہ کشیدگی کو ہواء دی، قدیم شہر کی دیواروں سے باہر یہ ایک فلسطینی محلہ ہے جس کی زمین اور گھروں کی ملکیت پر یہودی آبادکاروں نے عدالتوں میں مقدمات کیے ہوئے ،جہاں سے حق میں فیصلہ آیا تاہم سپریم کورٹ نے اسے غیر قانونی قرار دیکر یہودی آباد کاری روکنے کا حکم دیا مگر اسرائیلی حکومت نے ماتحت عدالتوں کے فیصلہ کی روشنی میں یہودی آباد کاری جاری رکھی جواب میں فلسطینیوں نے احتجاج کیا تو ان پر تشدد کیا گیا، یہ صرف چند گھروں کی ملکیت کا تنازع نہیں ، یہ برسوں سے اسرائیلی حکومتوں کی ان باقاعدہ کوششوں کے نتیجے میں پنپنے والا تنازع ہے اسرائیلی حکومت کی کوشش ہے بیت المقدس کوو زیادہ سے زیادہ یہودی آبادی والا علاقہ بنایا جائے،بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے شہر کے چاروں جانب بڑی بڑی یہودی بستیاں قائم کی جا رہی ہیں، حالیہ برسوں میں حکومت اور آبادکار گروپوں نے مل کر قدیم شہر کی دیواروں کے پاس فلسطینی علاقوں میں ایک ایک کر کے گھروں میں یہودی اسرائیلیوں کو بسانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حالیہ کشیدگی میں مزید اضافہ رمضان کے مہینے میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس کے سخت روئیے کی وجہ سے بھی ہوا، اسرائیلی پولیس نے مسجد الاقصی ٰکے اندر آنسو گیس اور سٹن گرینیڈز کا بھی استعمال کیا،حماس نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اسرائیل کو اپنے سکیورٹی دستوں کو مسجد الاقصی اور شیخ جرح سے فوری طور پر ہٹانے کا الٹی میٹم دیا اور اس کے بعد یروشلم کی جانب راکٹ داغے،1990 ء کی دہائی میں اوسلو امن عمل کے دوران ایک مختصر عرصے کے لئے اس مسلٔہ کے مستقل حل کی امید پیدا ہوئی تھی، لیکن یہ بات اب شائد کچھ لوگوں کو یہ یاد ہو گا،دونوں طرف کے رہنما اپنی مقامی سیاسی لڑائیوں میں بھی مصروف رہے ان کی توجہ سیاست میں اپنی جگہ مضبوط کرنے پر رہی ، جبکہ کسی بھی اسرائیلی اور فلسطینی سیاستدان کے لئے سب سے اہم امن کا قیام ہے، اس چیلینج کو کئی برس سے سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا ،کچھ نئی تجاویز اس حوالے سے سامنے آئی ہیں، کارنیگی انڈامنٹ فار پیس اور یو ایس مڈل ایسٹ پروجیکٹ جیسے نامور تھنک ٹینکس کا استدلال ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لئے برابر کے حقوق اور سکیورٹی پہلی ترجیح ہونا چاہئے،ان تھنک ٹینکس کے مطابق اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں رہنے والے تمام لوگوں کو مکمل برابری اور حقِ رائے دہی کی امریکہ کو حمائت کرنی چاہئے اور دو علیحدہ اور غیر مساوی نظاموں کی توثیقنہ کی جائے،یہ نئی سوچ اچھی ہے۔ تاہم اس ہفتے وہی پرانی حقیقتیں، وہی جانی پہچانی لفاظی اور پرتشدد واقعات، ہر نئی اور تازہ سوچ کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔اللہ خیر کرے