جبر کے خلاف احتجاج کا منفرد انداز

ریگزار کربلاء میں لکھی گئی خونیں داستاں محض ایک واقعہ اور سانحہ نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا المناک اور اندوہناک باب ہے،اہلبیت اطہار کے پاکیزہ خون سے کربلاء کی ریت پرلکھی گئی یہ تحریر آج بھی اہل حق کو خون کے آنسو رلا رہی ہے،مومنین اہل بیت اطہار کیساتھ ہونے والے اس ظلم جبر استبداد پر صدیوں سے عزہ داری کی صورت میں تاریخ انسانی کا سب سے بڑا احتجاج کر رہے ہیں۔واقعہ کربلاء تاریخ انسانی میں حق کا پرچم سر بلند رکھنے اور جبر کے خلاف آواز آٹھانے کا سب سے منفرد انداز تھا،کچھ لوگ اعتراض کرتے تھے کہ جب اتنے جید حضرات نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو امام عالی مقام نے کیوں نہ کی؟ اس اعتراض کا جواب سید مودودی نے نہائت مختصر مگر بلیغ دیا،کہتے ہیں ،جب سیدنا حسین نے بیعت نہیں کی تھی تو دوسروں نے کیونکر کی یعنی جب سید الشہداء نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تھا تو اس کی بیعت باطل ہو گئی ،یہی وہ معرکہ تھا جسے سر کرنے امام صرف اہل بیت کی ہمراہی میں مدینہ سے نکلے،ارادہ جنگ کا ہوتا تو مکہ اور مدینہ میں امام عالی مقام جہاد کا اعلان کرتے تو لاکھوں جاں نثار سر بکف کشاں کشاںچلے آتے،مگر نواسہ رسول کے ذریعے اللہ پاک نے دنیا والوں اور اہل اسلام کو کئی سبق دینا تھے اور یہ قافلہ سخت جاں جس کا ہر فرد پاکیزہ و مطہر تھا اپنی منزل کو رواں رہا۔ کیا امام عالی مقام نہ جانتے تھے کہ اگر معرکہ ہواء تو یہ 72نفوس اطہر جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے مقابلہ نہ کر سکیں گے مگر انہوں نے اپنے نانا کے دین کے پیروکاروں کو درس دیا کہ جب معرکہ حق و باطل ہو تو عددی اکثریت کوئی معنی نہیں رکھتی،سامنے تیر و تفنگ سے لیس ہزاروں افراد بھی ہوں تو چند نفوس پاک بھی ان پر بھاری پڑ سکتے ہیں اور وقت نے یہ حقیقت ثابت بھی کر دی،اگر چہ یزیدی فوج کربلاء میں بظاہر فتح یاب دکھائی دیتی ہے اور اہل بیت امام سمیت مظلومانہ شہید نظر آتے ہیں مگر اصل میں فتح یاب اور کامران اہلبیت اطہار ہی ٹھرے،ظلم کیخلاف حق کی آواز آج بھی حسین اور ان کے جاں نثار ہیں،باطل فوج کے شرکاء سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ اہل اسلام اپنے بچوں کا نام یزید،شمر کے نام پر نہیں رکھتے،اور قافلہ حسین میں شامل افراد کے نام عقیدت و احترام سے لئے جاتے ہیں۔ سیدنا امام عالی مقام نے جب دیکھا کہ ان کے نانا کے دین میں ایسی بدعتیں شامل کی جا رہیں جو مستقبل میں امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر دیں گی تو آپ نے گھر سے نکلنے کا عزم کیا ،یہ شہدائے کربلاء کی قربانی کا دوسرا سبق ہے،کہ جب دیکھو دین میں اللہ جل شانہ کے احکامات اور نبی پاک کی تعلیمات سے ہٹ کر روایات کو فروغ دیا جا رہا ہے تو گھروں میں بیٹھ رہنا حرام ہے،خلافت دین اسلام کا انسانیت کیلئے ایک تحفہ عظیم تھا،اس نظام نے تاریخ انسانی میں انسانیت کی بھلائی کیلئے وہ روشنی بکھیری جس کی نظیر نہیں ملتی مگر شخصی حکمرانی،جاہ و حشم،داد و دہش،دنیاوی لذتوں،آرام و آسائش کے دلدادہ لوگوں نے اس نظام کی کایا ہی لپیٹ دی،اور مسلمان بادشاہی کی گود میں جا گرے،آج تک اگر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا قیام دوبارہ عمل میں نہ آ سکا تو دراصل یہ اہل اسلام سے قدرت کا انتقام ہے،جنہوں نے اہل بیت کو اس وقت تنہا چھوڑا جب وہ انسانیت کو بچانے نکلے اور شہید بھی انہوں نے کیا جو مسلمان ہونے کے دعویدار تھے،ان سے انتقام نہ لینا قدرت کو پسند نہ آیا اور مسلمان خلافت سے محروم کر دیئے گئے۔ مگر کیا زنجیرزنی،سینہ کوبی کر کے شہداء کربلاء کا وہ قرض اتارا جا سکتا ہے جو نوع انسانی کے سر پر آج بھی واجب الادا ہے،اگر چہ یہ اپنے جذبات کے اظہار کا ایک سلیقہ قرینہ ہے،احتجاج کا اپنا انداز ہے مگر اصل ضرورت امام عالی مقام کی فکر اور کردار کو اپنانے کی ہے،باطل کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہونے اور حق کا ساتھ دینا اصل فکر حسینی ہے،غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا بھی فکر حسینی کا پیغام ہے،یزید کی خلافت باطل تھی تو امام نے بیعت نہ کی اور اس انکار کو چھپانے کی بجائے کھل کر مخالفت کی اور میدان عمل میں اترے،اس کے باوجود کہ اسباب نہ ہونے کے برابر تھے،مگر باطل کی سطوت و حشمت کو خاطر میں لائے نہ باطل کی اکثریت سے ڈرے،اور نہ اپنا عقیدہ و مسلک بیان کرنے سے باز آئے،یعنی سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور پورا کنبہ شہید کرا لیا،یہ تھی عزیمت اور شان نواسہ رسول اور ان کے ساتھیوں کی۔ نماز کی بروقت ادائیگی کا سبق بھی ہمیں کربلاء سے ملتا ہے،شہید عزیز و اقارب بچوں کے جنازے اٹھاتے اور سامنے لاکھوں کی دشمن حق فوج کی موجودگی کے باوجود امام نے دشمن کو پیغام بھجوایا نماز کا وقت ہے ادا کرنے دو مگر شمر نے کہا یہ نماز کا وقت نہیں تو امام عالی مقام یہ کہہ کر نماز ادا کرنے میں لگ گئے کہ تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے ہیں۔ آسمان چرخ نیلی فام نے یہ منظر نہیں دیکھا ہو گا کہ قافلہ مختصر حق و صداقت اور سامنے ہزاروں کا تیر و تفنگ سے لیس لشکر مگر جو بظاہر کمزور ہیں وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور جو طاقت کے نشے میں سرشار ہیں وہ ڈرے سہمے ہیں،ایسا بھی کبھی نہ ہواء کہ ایک لشکر جرار کے مقابلے میں نہتے افراد ڈٹ کر کھڑے ہوں،ان کے چہرے تمتما رہے ہوں، اطمینان ہو،اللہ کی رضا پر راضی ہوں ،اور ہزاروں کا لشکر یہ بھی نہ سوچے کہ مقابلہ میں نواسہ رسول اور اہل بیت عظام ہیں،وہ بیبیاں سورج چاندتارے بھی جن سے حیاء کرتے ہوںوہ خیموں میں بیٹھی ہیں اور جب یزیدی لشکر اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ٹھرا تو ان بیبیوں کو رسیوں سے باندھ کر توہین و تذلیل کی گئی،مگر آج بھی روشنی کا استعارہ ، امام اور ان کے ساتھی ہیں اور یزید ذلت میں ڈوبا ایک نفرت انگیز شخص۔ اس المناک اور اندوہناک سانحہ پر اہل حق قیامت تک احتجاج جاری رکھیں گے،سیدنا حسین قیامت تک حق و صداقت کا علم اور یزید ظلم جبر کا نشان رہے گا،عقیدت اور محبت شہداء کربلاء کے حصے میں آئی اور نفرت و حقارت یزید اور اس کے ساتھیوں کا مقدر بنی،مگر امام عالی مقام کی قربانی کو ثمر آور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم تمام اہل اسلام کردار حسینی کی روشنی سے اپنی زندگی کو منور کریں،باطل کے مقابلے میں کھڑا ہونے اور حق کا ساتھ دینے کی عملی کوشش کریں،مظلوم کی آواز بنیں ، ظالم کے ہاتھ روکیں،جھوٹ،بد دیانتی،بد عہدی سے نجات حاصل کریں اور وقت مقررہ پر نماز کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔