بڑےا فسر اور چھوٹے شہر

ایک بہت اچھے بیوروکریٹ اور اس سے بھی اچھے انسان پرویز مسعود نوے کی دہائی میں جب چیف سیکرٹری پنجاب تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ سرکاری افسران کی اکثریت پنجاب ،لاہور اور اس کے نواحی اضلاع چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتی ،وفاقی حکومت میں جانا پسند کرتے ہیں نہ پنجاب کے کسی دور دراز علاقے میں نوکری کرنا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ لاہور کا جمخانہ کلب،جی او آرز اور ایچیسن کالج یہاں سے کسی کو جانے نہیں دیتے۔انہوں نے درست کہا تھا،ان کے کہنے کا مطلب تعلیم اور رہائش کی اچھی سہولیات کے ساتھ ساتھ فراغت کے لمہات میںکوئی ایسی جگہ تھی جہاں فیملی ،دوستوں اور ہم خیال لوگوں سے میل ملاقات کی جا سکے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو سرکاری افسر تو درکنار عام شہری بھی اپنی زمین مال مویشی بیچ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں ،ہر سرکاری افسر کی خواہش ہے کسی بڑے شہر یا گردو نواح میں تعیناتی ہو سکے،بات اسی حد تک رہتی تو گزارا ہو جاتا ، چھوٹے شہروں میں سہولتوں کے اضافے کے باوجود بڑے افسر اب بھی لاہور اور پنجاب کے بڑے شہروں میں تعیناتی کیلئے بضد ہیں جبکہ صوبائی افسروں کی اکثریت تو لاہور چھوڑنے کو ہی تیار نہیں حالانکہ انکی اکثریت کا تعلق دیہات سے ہے۔ دوسری طرف ،ماضی قریب میں ملک کے دیہات جنت کا نقشہ پیش کرتے تھے،سہولیات کی کمی کے باوجود ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ مہینے میں ایک بار ہی سہی گائوں کی صاف ستھری فضاء میں تازہ اور شفاف ہوا میں سانس لے،خالص دودھ دہی مکھن اور فطری طریقے سے اگائی گئی سبزیاں پھل کھائے،کنویں ٹیوب ویل کے گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں قدرتی گرم پانی میں نہائے،مگر آہستہ آہستہ دیہات میں بھی شہروں کی تہذیب قدم جماتی گئی اور لوگ فطری طرز زندگی سے محرو م ہوتے گئے،سچ جانئے تو گئے وقت میں سرکاری افسروں،ڈاکٹروں،اساتذہ کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ ان کی تعیناتی شہر کے قریب کسی دیہہ میں ہو جائے،آج تو دیہات میں بھی کچھ نہ کچھ سہولیات دستیاب ہیں تب دیہات 18 صدی کا نمونہ پیش کرتے تھے مگر شہری اور سرکاری افسروں کی ترجیح دیہات اور قصبے ہوتے تھے۔ اس صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں مگر اہم ترین چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہات میں جدید بنیادی سہولیات کا فقدان ہونا ہے،اسی وجہ سے کوئی سینئر استاد دیہات یا قصبے کے تعلیمی ادارہ میں جانے ،کوئی ڈاکٹر دیہی علاقوں میں کسی ہسپتال میں تعیناتی،کوئی ضلعی افسر کسی پسماندہ تحصیل یا ضلع میں جانے کو تیار نہیں،وجہ پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں سہولیات کا نہ ہونا ہے،کہیں اچھے تعلیمی ادارے نہیں جن میں یہ افسر اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکیں،جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال نہیں جہاں وہ اپنے اہل خانہ کا فوری اور معیاری علاج معالجہ کرا سکیں،افسروں کی تفنن طبع اور اچھا وقت گزارنے کیلئے دیہی علاقوں میں جمخانہ طرز کے کلب بھی نہیں،ان سہولیات کی کمی کی وجہ سے افسر دیہی ،پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں تعیناتی کو اپنے لئے سزا سمجھتے ہیں،اس رویہ کی سزا دیہی عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے،کہ ان کو اچھے اساتذہ،ڈاکٹر اور افسر دستیاب نہیں،موجودہ دور میں دیہی لوگ بھی جدید ترین سہولتوں کے حقدار ہیں،قواعد کے مطابق افسر بھی اپنی تعیناتی کے مقام پر جوائیننگ دینے کے پابند ہیں مگر ایسا نہ ہونے کی وجوہات پر توجہ نہیں دی گئی مگر اب دیہی علاقوں میں سہولیات دینے کی ضرورت ہے ورنہ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ترقی کا خواب شرمندٔہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اشد اور فوری ضرورت سرکاری افسروں کی دیہی اور پسماندہ علاقوں میں دلچسپی پیدا کرنے کی ہے،دلچسپی کے بناء کوئی افسر کسی جگہ تعیناتی کی صورت میں نتائج نہیں دے سکتا، تاہم اگر سرکاری افسر کے فرائض کی انجام دہی میں اس کی دلچسپی بھی ہو تو بد ترین حالات میں بھی وہ بہترین خدمات انجام دے سکتا ہے ڈیلیور بھی کر سکتا ہے اور عوام کو ریلیف بھی دینا ممکن ہو سکتا ہے،دیہی اور پسماندہ علاقوں میں خدمات انجام نہ دینے کی ایک وجہ وہاں کے سیاسی رہنمائوں،جاگیر داروں کا انتہا درجے با اثر اور طاقتور ہونا بھی ہے،یہ لوگ نہ کسی قاعدے قانون کو مانتے ہیں نہ کسی سرکاری افسر کی ان کے سامنے کوئی اہمیت ہے،ہر حکومت میں ان کے مراسم ہوتے ہیں انہی مراسم اور اپنی ذاتی قوت کی وجہ سے کوئی افسر عوام کو ریلیف دینے والا ایسا کوئی کام نہیں کر سکتا جو ان با اثر افراد کو ناپسند ہو،اولین ضرورت دیہی علاقوں میں قانون کی حکمرانی کی ہے،سیاسی اثر و رسوخ کو عوام کی بھلائی کیلئے استعمال میں لانا ہو گا،ہر شہری کو قانون کا پابند بنانا ہو گا تا کہ سرکاری افسر بغیر کسی رکاوٹ اور مخالفت ،ڈر اور خوف،دبائو کے بغیر قانون کے مطابق فرائض انجام دے سکے۔ یہ بات اب کوئی خفیہ راز نہیں کہ بعض با اثر لوگ ابھی تک اپنے علاقہ میں تعلیمی ادارہ قائم نہیں ہونے دیتے انہیں خدشہ لا حق رہتا ہے کہ اگر ان کی مملکت کی رعایا پڑھ لکھ گئی تو حقوق اور قانون کی بات کریگی اور اس کی غیر اعلانیہ رعیت سے نکل جائیگی،یہ لوگ اپنی مرضی کا پٹواری اور تھانیدارتعینات کرا کے ان کے ذریعے سے اپنی حکمرانی قائم کرتے ہیں،ہسپتالوں میں ڈاکٹر بھی ان کی مرضی سے تعینات ہوتے ہیں،تحصیل کی سطح تک کے افسر بھی ان کی جنبش پلک کے محتاج ہوتے ہیں،سب سے اہم یہ کہ ان کے بچوں کی تعلیم کیلئے اچھے تعلیمی ادارے دستیاب نہیں عمارات ہیں تو اچھے اساتذہ کی کمی ہے،ہسپتال اور ڈسپنسریاں یا بنیادی مراکز صحت ہیں تو اچھا عملہ دستیاب نہیں افسروں کو فارغ اوقات میں تفریح کے مواقع نہیں،صبح و شام کی واک کیلئے ٹریک یا پارک نہیں،علاج کرانے کیئے ڈاکٹر بھی نہیں تو ایسے میں کون اپنی جان جوکھم میں ڈالے گا،لہٰذا کوئی سرکاری افسر کسی بھی شعبے سے ہو دیہی یا دور دراز پسماندہ علاقہ میں جانے کو تیار نہیں۔ ضروری ہے کہ دیہی اور دور دراز پسماندہ علاقوں میں سرکاری افسروں کو زندگی کی تمام بنیادی اور جدید سہولیات موقع پر فراہم کی جائیںتا کہ کوئی افسر کہیں بھی تعینات ہو وہ اس جگہ سے اجنبی نہ ہواس کی دلچسپی کا ماحول ہو تاکہ وہ پوری لگن اور دل جمعی سے اپنے فرائض انجام دے اور تعیناتی کی جگہ کو بھی اپنا گھر سمجھے،سہولیات کی عدم فراہمی پر افسروں کو لاہور یا ایسے شہروںجہاں سہولیات دستیاب ہیں سے نکالنا ممکن نہیں اور اگر کوئی نئی تعیناتی پر جوائیننگ دے بھی دے گا تو فرائض منصبی ادا کرنے میں اس کی دلچسپی کم سے کم ہو گی،وہ وہاں سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈے گا،وقت گزاری کر کے اپنا عرصہ تعیناتی قیدی کی طرح گزارے گا،ایسی سوچ کے افسر سے ڈیلیوری اور نتائج کی توقع حماقت ہو گی، حکومت نے اس وقت ڈویزن لیول پر کافی سہولیات دی ہیں مگر انتہائی ضروری ہے کہ دیہی پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر بڑے شہروں کے برابرسہولیات دی جائیں۔ #leader.com.pk #Mohsin Goraya #Surkh feeta #beday afser aur chotay shehr #Pakistan