شوگر مافیا

پاکستان میں ہر دور کے اندر کسی نہ کسی مافیا کا راج رہتا ہے ،یہ مافیا کسی نہ کسی شکل میں عوام اور سرکار کا پیسہ لوٹتا ہے یوں اربوں روپے عوام اور سرکار کی جیب سے چند ہزار لوگوں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔شوگر مافیا کی کاروائیاں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عروج پر ہیں ،ماضی میں حکومتیں بھی اس مافیا کا حصہ رہی ہیں اور کسی نے ان پر ہاتھ نہیں ڈالامگر اب اس مافیا کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق گذشتہ سال استعمال ہونے والی چینی سے سٹہ مافیا نے تقریبا 110 ارب روپے کی ناجائز کمائی کی،چند روز قبل متعدد بااثر شوگر ملز مالکان کے چینی کی مبینہ سٹے بازی میں ملوث ہونے کے انکشاف کے بعدایف آئی اے نے کارروائی شروع کر دی ہے،ایف آئی اے کے مطابق چینی کے سیکٹر میں ایک بہت ہی منظم سٹہ مافیا دھوکے اور جعل سازی سے چینی کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر اوپر لے جا رہا تھا۔گزشتہ سال کے آغاز میں جب چینی کی قیمت 69.50 سے 100 روپے تک پہنچی تو حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے شوگر کمیشن بنایا تھا، ویسے تو سٹہ مافیا آپس میں جڑا ہوا ہے لیکن ان کے آگے دس مزید گروپس ہیں اور انہی گروپس کے حساب سے ان پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی، مذکورہ گروپس کے خلاف ثبوت ان سب کی آپس کی واٹس ایپ پر ہونے والی پیغام رسانی ہے، جس کا تمام ریکارڈ ایف آئی اے کے پاس موجود ہے۔ ایف آئی اے کے ترجمان بتایا کہ سٹے کے ذریعے مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھایا جاتا ہے جس سے شوگر مافیا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے،سٹے باز کام کیسے کام کرتے ہیں؟ سٹے باز، جن میں شوگر ملز مالکان کے ایجنٹ اور بازار میں بیٹھے بڑے منافع خور شامل ہوتے ہیں سٹے بازی کو کنٹرول کرتے ہیں،مثال کے طور پر اگر جنوری میں چینی کی فی بوری قیمت پانچ ہزار روپے ہے تو سٹے باز اپریل کے لئے چینی کی قیمت سات ہزار روپے فی بوری پہلے سے ہی مقرر کر لیتے ہیں،پھر وہ مارکیٹ میں تاجروں سے کہتے ہیں اپریل میں چینی کی فی بوری قیمت سات ہزار روپے سے زیادہ ہو گی لہٰذا وہ جنوری میں ہی سات ہزار روپے فی بوری کے حساب سے پیشگی بکنگ کرا لیں، یوں ملک میں پیدا ہونے والی تمام چینی کی قیمت تین ماہ پہلے ہی متعین کر لی جاتی ہے، جس کا مقصد زیادہ اور ناجائز منافع کمانا ہوتا ہے،ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جس قسم کا کیپٹلزم پایا جاتا ہے یہاں پر منافع خوروں کے لیے بہت سے مواقع ہیں،شوگر مافیا کارٹلز بنا کر کام کرتے ہیں،ہر طرف سے فائدے اٹھاتے ہیں، ایک تو مارکیٹ کی قیمت سے اضافی قیمتیں وصول کرتے ہیں، پھر جو حکومتی سبسڈی صارف کو ملنی چاہئے وہ بھی شوگر ملز مالکان کو دی جاتی ہے۔ ایسے سکینڈل پہلے بھی آچکے ہیں، یہ ملز مالکان گنے کے کاشت کاروں کو لمبے عرصے تک پیسے نہیں دیتے تھے، اس سے بھی یہ منافع کماتے ،اس کے علاوہ بینک شوگر ملز کو ان کے سٹاک پر قرضہ دیتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ یہ سٹاک بھی وہ ہوتا ہے جو پہلے سے بک چکا ہوتا ہے، مافیا کے لوگ یہ کارٹل بنا کر کئی مہینے پہلے ہی چینی کی قیمت فکس کر دیتے ہیں، جسے سپیکیولیٹیو ٹرانزیکشن کہتے ہیں، مثلا ًآج کا سپاٹ ریٹ آج کا ہے لیکن آج سے تین ماہ بعد کا ریٹ یہ فکس کریں گے، اسی کے ذریعے مستقبل کے سٹاک بیچ کر یہ سپیکیلیٹیو ٹرانزیکشن کرا لیتے ہیں، یہی سٹہ کہلاتا ہے جو غیر قانونی ہے۔بدقسمتی سے ماضی میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ جتنے شوگر ملز مالکان ہیں وہ سیاست دان یا بااثر لوگ ہیں، حکام ان پر ہاتھ ڈالنے سے گھبراتے ہیں۔اب بھی ایف آئی اے نے جن لوگوں کو طلب کیا ہے،مشکل لگتا ہے ان کے خلاف کوئی ایکشن ہوگا البتہ ہو سکتا ہے کہ ان کے فرنٹ مین وغیرہ کو معمولی سزا دے دی جائے،دوسری جانب ایف آئی نے شوگر ملز مالکان کو اپنے لاہور آفس طلبی کے نوٹس جاری کئے تھے، انہیں یکم نومبر2020 ء سے بیچے گئے سٹاک کا ریکارڈ ہمراہ لانے کا حکم دیا گیا ہے،انہیں یکم نومبر2020 ء سے ایف بی آر میں ڈکلیئرڈ شوگر فروخت کا ریکارڈ اور اسی تاریخ سے اپنے تمام کارپوریٹ بینک اکائونٹس اور بے نامی اکائونٹس کی فہرست بھی ساتھ لانے کا کہا گیا ہے۔ چینی کی قیمت بڑھانے کا ایک طریقہ افواہ سازی بھی ہے،ااس سلسلے میں دو قسم کے مافیاز بلکہ کارٹل کام کر رہے ہیں،ایک لاہور کی اکبری منڈی کے باہرپلازہ میں آفس بنا کربیٹھا ہے جو گھریلو استعمال کی چینی کے ریٹ طے کرتا ہے،جو تقریباً کل چینی کا 30سے35فیصد ہے،جبکہ کراچی کے جوڑیابازار کی کچھی گلی میں ایک مافیا ہے جو صنعتی استعمال میں آنے والی چینی کے مستقبل کے نرخ طے کرتا ہے جو 65سے70فیصد چینی کا حصہ ہے،ان کا طریقہ واردات بہت سادہ ہے،یہ لوگ ملوں کے گوداموں میں پڑی چینی کا ایڈوانس دیکر ان سے مہنگی قیمت پر چینی خریدنے کی رسیدیں حاصل کر لیتے ہیں سٹاک بھی نہیں اٹھایا جاتا اور مارکیٹ میں مشہور کر دیا جاتا ہے کہ آئندہ ماہ چینی کی قیمت میں دس پندرہ یا بیس روپے اضافہ ہو گا۔ ستم یہ کہ ہمارے ہاں اب تک چینی کی حقیقی قیمت نکالنے کا کوئی فارمولا بھی طے نہیں کیا گیا،راقم انہی سطور میں بارہا مرتبہ کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکائونٹینسی کی اہمیت بیان کر چکا ہے،یہ شعبہ ہر ملک میں فعال ہے اور ہر مصنوعات کی لاگت اور منافع یہاں تک کہ فریٹ ملا کر چیز کا ریٹ نکالتا ہے صنعتکار اپنی مصنوعات اس قیمت پر فروخت کرنے کا قانونی طور پر پابند ہوتا ہے،چینی کی پیداواری لاگت معلوم کرنے کا فارمولا ذرا پیچیدہ ہے،اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کو استعمال میں لا کر پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ چینی کی 85روپے کلو قیمت بہت کم ہے۔چینی کی قیمت کو آسانی سے سمجھنے کیلئے کین کمشنر پنجاب محمد زمان وٹو نے ایک بہت سادہ تجزیہ پیش کیا ہے شائد یہ واحد افسر ہیں جو اس حوالے سے سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں، پنجاب کا شوگر ملز مافیا ان سے خوفزدہ ہے اور ان کے خلاف بے پر کی اڑا رہا ہے ، مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ مافیا زمان وٹو کی کردار کشی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے مگر جس زمان وٹو کو میں جانتا ہوں وہ ان کے رعب میں آنے والا نہیں ۔زمان وٹو کے تجزیے کے مطابق سال2018ء میں گنے کی قیمت 180روپے من تھی،مل والے بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں، تاہم 2018ء مین چینی کا مارکیٹ ریٹ 52روپے کلو تھا،شوگر ملز کی اپنی رپورٹ کے مطابق گنے کی قیمت 259روپے من رہی،یعنی گنے کی قیمت میں 43. 89فیصد اضافہ کا دعویٰ کیا گیا،اگر اس وقت چینی کی قیمت 52روپے کلو تھی تو اس میں اضافہ 43.89ہواء یہ شامل کیا جائے تو چینی کی قیمت 74.82روپے کلو بنتی ہے، سیلز ٹیکس بھی 8فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دیاگیا ہے 9فیصد یہ اضافہ بھی ملایا جائے تو 81.56 روپے چینی کی قیمت بنتی ہے،اس قیمت پر چینی فراہم نہ کرنا ملز کی بد دیانتی ہو گی،حکومت مقرر کردہ ریٹ قانون کے ذریعے لاگو کرانے میں بالکل حق بجانب ہے ۔