کون کتنا غیرت مند؟

مہنگائی کو کنٹرول کرنا،معیاری اشیاء کی یقینی فراہمی،منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو گرفت میں لانا کوئی آرٹ ہے نہ سائنس ، ایک انتظامی معاملہ ہے جسے آج کل کے دور میں بڑی بردباری ،تحمل اور قوانین پر عمل درآمد سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔گئے وقتوں میں اس کے اور طریقے ہوتے ہوں گے۔ .1965 ء کی جنگ کے دوران نواب کالا باغ امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان تھے،مارکیٹ میں اشیاء ضرورت کی مہنگے داموں فروخت کی اطلاع ملنے پر امیر محمد خان منڈی جا پہنچے،تاجر اکٹھے ہو گئے،سب کی طرف بے اعتنائی سے دیکھا اپنی مونچھ کا ایک کونہ انگلیوں میں دبایا اور گویا ہوئے جنگ کا دور ہے عوام مشکل میں ہیں،ضروری اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے،لمبی بات نہیں میری مونچھ کو تائو آنے سے پہلے قیمتیں واپس مناسب سطح پر لے آئیں،ورنہ ۔۔۔اور مارکیٹ کے حالات ٹھیک ہو گئے،یہ تھا سادہ سا فارمولا مہنگائی کنٹرول کرنے کا،مگر یہاں ہر کوئی اپنی مرضی اور طریقہ کار سے معاملات کو درست ڈگر پر لانے کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہے،نتیجے میں معاملات سدھرنے کے بجائے دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں اور حکمران جماعت کو پڑنے والی گالیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، وجہ ؟ جس کا کام ہے اسے کرنے نہیں دیا جا رہا،قانونی،عدالتی، انتظامی معاملات کو دیکھنا اور انہیں کنٹرول کرنا بیوروکریسی اور سرکاری مشینری کا کام ہے مگر اسے اس فرض منصبی سے کوسوں دور کر دیا گیا ہے اور پھر سوال بھی ان سے کیا جاتا ہے الزام بھی ان کو دیا جاتا ہے اور باز پرس بھی ان سے ہی ہوتی ہے۔گزشتہ دنوں سیالکو ٹ میں رمضان بازار کے دورہ میں ایک انداز ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اپنایا،اسے سیاسی جارحیت قرار دیا جا سکتا ہے مگر مہنگائی کنٹرول کرنے کا فطری راستہ نہیں،وہ اسسٹنٹ کمشنر جس نے اس تمام معاملہ کو دیکھنا ہے اس کو سرعام یوں باتیں سنانا کسی بھی طرح نہ اچھی حکمرانی ہے نہ اس طرح سے مہنگائی کو قابو کیا جا سکتا ہے،بلکہ تاثٔر یہ ابھرا کہ بیوروکریسی موجودہ حکومت کی دشمن ہے ۔ بیوروکریسی وقت اور حالات دیکھ کر فیصلے نہیں کرتی بلکہ حکومت کی جانب سے تیار کردہ پالیسی اور قوانین کے تحت کارروائی عمل میں لاتی ہے،تحصیل کی سطح پر اسسٹنٹ کمشنر انچارج بلکہ حکومت ہوتا ہے ، اگر ایک تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افسر سے کوئی حکومتی عہدیدار ایسا رویہ سر عام روا رکھے گا تو ان کی رٹ کو کوئی دوسرا تسلیم ہی نہیں کرے گا،یہ دراصل بیوروکریسی کو عوام کے سامنے ذلیل کر کے اسکی غیرت کو للکارنے کی ایک کوشش تھی، جس کا نقصان حکومت کو ہی ہوا ،یہ واقعہ بزدار انتظامیہ کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے،اب ان کو سمجھ جانا چاہئے کہ بیوروکریسی ان کی حکومت سے خوفزدہ کیوں ہے؟ تحریک انصاف کو حکومت بنائے تین سال کا عرصہ گزر چکا مگر اب تک ان کی حکومتی رٹ قائم نہ ہو پائی،وجہ فیثا غورث کی منطق نہیں بلکہ بہت سادہ ہے کہ موجودہ حکومت یہ طے نہیں کر پائی کہ اس کے منشور کے مطابق اس کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے والی فورس بیوروکریسی ہے،حکومت نے اگر عدالتی اور انتظامی امور بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے تو وہ اپنا کام بھی نہیں کر سکے گی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں نئی حکومت بنتی ہے تو منتخب حکمران ہوں یا غیر منتخب اپنی پسند کی انتظامی ٹیم لاتے ہیں،با اعتماد افسروں کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور پھر ٹاسک دیکر کارکردگی دکھانے کیلئے وقت اور مہلت دی جاتی ہے،مگر موجودہ حالات میں یہ افسر جانتے ہی نہیں کہ ان کی آج کی ڈیوٹی اور کل کی پوسٹنگ کہاں ہو گی ؟اور نہ عوام جانتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کے حل کیلئے کس کے در پر دستک دیں،یہ حکمرانی کرنے کا عجیب اور نادر نسخہ ہے ، لا علمی،بے خبری،عدم آگہی،مگر یوں کوئی بھی حکومت عوام کی خدمت نہیں کر سکتی،ہدف طے کر کے راستے تلاش اور ٹیم منتخب کر کے ڈیلیور کرنے کی کوشش ہی آزمودہ کار ہے۔ موجودہ حکومت کیلئے تو اپنے پرائے کی پہچان ہی اب تک مسٔلہ بنی ہوئی ہے،ایک افسر کو صبح گلے لگایا جاتا ہے دوپہر کو گلے سے اتار کر دوسرے کی جانب بانہیں پھیلا دیتے ہیں،بھائی تمام افسروں کی سالانہ خفیہ رپورٹس ان کی فائلوں میں موجود ہیں ، ماضی دیکھ کر افسر ٹیم میں شامل کریں پھر اعتماد کریں اور کام لیں،نظر بھی رکھیں ،ٹاسک بھی دیں،نتائج بھی ملحوظ رکھیں،حالت اگر یہی رہی تو حکومت کا حال چند سال قبل والی پاکستان کرکٹ ٹیم جیسا ہو جائے گا جس میں کپتان بنیان کی طرح تبدیل ہو جا تے تھے اور نتیجہ ہر میدان میں سبکی کی شکل میں ظاہر ہوتا تھا ،تحریک انصاف حکومت کے پاس اب صرف دو سال بچے ہیں اگر یہ بھی تجربات اور ٹیم منتخب کرنے میں گزرے تو آئیندہ الیکشن کے بعد تحریک انصاف وہاں کھڑی ہو گی جہاں آج ن لیگ اور پیپلز پارٹی کھڑی ہیں،انتخابی مہم میں یہ کس منہ سے جائیں گے ؟ باقی بچ جانے والے دو سال کچھ کرنے کیلئے بہت ہیں۔کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ہر وقت ہنگامی حالت میں ہے، بیوروکریسی الیکشن جیت کر عملی زندگی میں نہیں آتی ،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اندرون اور بیرون ملک تربیت پر بھی ان کا وقت اور قومی سرمایہ خرچ ہوتا ہے،یہ سب دشمن نہیں ،اکثر ذمہ دار،محب وطن،قانون پسند،تجربہ کار،سیاسی پشت پناہی سے دور ،اہل،تجربے کار اور قابل بھروسہ ہیں۔ خدارا بیوروکریسی کو محب وطن اور غدار کی بنیاد پر تقسیم نہ کریں،بیوروکریسی حکومت کی نہیں ریاست کی ملازم ہے،اسکے پاس اختیار ہے کہ وقت کے حکمرانوں کے غیر آئینی احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے ، سرکاری افسروں نے ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے،اگر کوئی افسر غیر آئینی حکم نہیں مانتا تو وہ سازشی نہیں بلکہ حکم دینے والے کو چاہئے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ حکم ماننے سے انکار کیوں کیا گیا؟،بیوروکریسی ہر دور میں تقسیم رہی،سابق حکومت کیساتھ طویل عرصہ نتھی رہنے والوں کے دل میں ان کیلئے کچھ نرم گوشہ ضرور ہو گا،مگر ایسے بہت سے افسر ہیں جو سابق حکمرانوں کے نا پسندیدہ تھے مگر عجیب بات ہے کہ ایسے افسر بھی آج نا پسندیدہ ہیں ،اس صورتحال کی وجہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے، سراغ لگائیں کہ سابق حکمرانوں کے چہیتے افسر تو آپ سے نالاں ہیں مگر ان کے ناپسندیدہ افسر بھی آپ کے ساتھ تعاون کو تیار کیوں نہیں ۔عثمان بزدار صاحب ،آپ ایک نرم خو حکمران ہیں ، افسروں کو عزت دینا،اعتماد کرنا،ان سے کام لینے کا قرینہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ،سیاستدانوں اور انتظامی افسروں نے مل جل کر چلنا ہوتا ہےاور ان میں سے کون کتنا غیرت مند ہے سب جانتے ہیں۔