چودھری پرویز الہیٰ کا خواب

نہاں خانہ دل بھی کیا چیز ہے ، ذہن کچھ اور سوچ رہا ہوتا ہے مگر یہ کہیں اور اٹک جاتا ہے ،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے میں کالم لکھنے بیٹھا ہوں ،پنجاب کے بہترین بجٹ پر لکھنے کے لئے لیپ ٹاپ کو کھولا مگر دل پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں اٹک سا گیا اور خیالات تتلیوں کی طرح اڑنے لگے۔تیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا رپورٹنگ اور صحافت کرتے ہوئے اور شروع کے بیس سال تو پنجاب اسمبلی کی ایکٹو کوریج اور رپورٹنگ میں گزرے ،اجلاس ہو نہ ہو اسمبلی جانا معمول کا حصہ،سپیکر ،ارکان اسمبلی اور اسمبلی سٹاف سے گپ شپ اور پھر ان سے اخبار کے لئے خبریں نکلواناہی سب کچھ ہوتا تھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا کی ترقی اور اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ،مخصوص نشستوں پر خواتین کی آمد سے پنجاب اسمبلی کی عمارت چھوٹی پڑ گئی تو یہ خیال پیدا ہوا کہ پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ ہونی چاہئے جس میں ارکان اسمبلی،پریس اور وزٹرز کے لئے موجودہ دور کے جدید تقاضوں کے مطابق گنجائش ہونی چاہئے۔پھر اس خیال کو لے کر چودھری پرویز الہیٰ آگے بڑھے ، جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور چودھری محمد افضل ساہی سپیکر پنجاب اسمبلی ، یوں کہ لیں جب پنجاب میں چودھری پرویز الہیٰ کا دور تھا تو انہوں نے دوسرے سینکڑوں ترقیاتی کاموں کی طرح اس کام کا بھی آغاذ کیا،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کے بعد جو وزیر اعلیٰ آتے وہ اس اچھے اور جمہوری کام کو مکمل کرتے مگر اس منصوبے کو انہوں نے پرویز الہیٰ کا منصوبہ قرار دے کر سائیڈ لائن کر دیا ۔ شائد ،مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء ،سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کو قدرت کی طرف سے یہ اعزاز ملنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کا سہرا ان کے ہی سر بندھے اس لئے انہیں ہی یہ اعزاز مل گیا،یہ ان کا خواب تھا جو شرمندہ تعبیر ہوا۔ یہ دراصل ان کی نیک نیتی، ملک،صوبے اور عوام کیلئے ان کی مثبت سوچ اور ہر طبقہ فکر کے مسائل پر نگاہ کا نتیجہ ہے،2006میں بطور وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کے نئے ہال کے منصوبہ کی منظوری دی،اسی سال اس منصوبے کا آغاز بھی کر دیا گیا،اگر چہ اپنی سیاسی مصروفیات کے باعث اس عمارت کا سنگ بنیاد وہ نہ رکھ سکے تاہم اس عظیم عمارت جو عوامی نمائندوں کی توقیر کا باعث ہے میں افتتاحی اجلاس کی صدارت کرنے کی سعادت انہی کو حاصل ہوئی،سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد2008ء میں جب انکی حکومت بدل گئی،مرکز میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی،پنجاب میں ن لیگ کے شہبازشریف نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا،مگر بوجوہ پنجاب اسمبلی کے اس نئے ہال کے منصوبہ کو پس پشت ڈالے رکھا،2013ء میں ن لیگ دوبارہ اقتدار میں آئی پنجاب کی حکمرانی شہباز شریف کے پاس ہی رہی مگر اس منصوبے کیساتھ سوتیلی ماں کا رویہ اس دور میں بھی جاری رہا،2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف بر سر اقتدار آئی تو ق لیگ ان کی اتحادی بنی، چودھری پرویز الٰہی کو سپیکر کا عہدہ ملا تو انہوں نے توجہ اور انہماک سے اس منصوبے کی تکمیل کرائی،جس کے نتیجے میں 2021/22ء کے بجٹ کا افتتاحی اجلاس اس عمارت میں منعقد ہوا ،جس کی صدارت چودھری پرویز الٰہی نے کی،واضح رہے کہ ن لیگ کی حکومتوں نے چودھری پرویز الٰہی کے دور میں شروع کئے گئے دیگر منصوبوں کیساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا اور دانستہ ان منصوبوں کی تکمیل میں روڑے اٹکائے۔پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت اب ایشیا کی ایک سب سے بڑی اسمبلی بلڈنگ بن چکی ہے ۔ پنجاب اسمبلی کی پر شکوہ عمارت اور اس کا ہال سٹیٹ آف دی آرٹ ہے،اس میں اسلامی خطاطی ،درود شریف اور دوسری آیات اور نقش و نگار ،چودھری پرویز الہیٰ کی اسلام اور رسول خد ا سےمحبت کی عکاسی ہے،ان کا اس عمارت میں ہونے والے پہلے اجلاس میں بھی یہی کہنا تھا کہ یہاں ہم سب کو مل جل کر خلق خدا کی بہتری کے لئے قانون سازی کرنا ہے۔اس نئی عمارت کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بزدار کا کردار بھی قابل تعریف ہے انہوں نے فنڈز کی فراہمی اور دوسرے حکومتی معاملات میں سپیکر چودھری پرویز الہیٰ کو اپنا پورا تعاون دیا۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی طرف سے مساویانہ اور منصفانہ بجٹ بھی اسی نئی اسمبلی بلڈنگ میں ہوا ،حیرت اس بات پر بھی تھی کہ وفاقی بجٹ پر بہت لے دے دیکھنے میں آئی مگر صوبائی بجٹ پر قلم اور زبانیں دونوں خاموش تھیں، پنجاب حکومت نے رواں سال ایک بہترین بجٹ دیا جس میں کسی بھی شعبے کو نظر انداز نہ کیا گیا،ہر مکتبٔہ فکر سے متعلقہ افراد کی ضروریات کو مد نظر رکھا گیا،اکثر اصحاب دانش کے خیال میں عثمان بزدار سے اس طرح کے بجٹ کی امید نہیں تھی مگر تین سال کے عرصہ میں انہوں نے مشکل ترین حالات میں خو د اعتمادی اور اپوزیشن کی طرف سے منڈلی لگانے کے باوجود بڑی مہارت سے اپنے کارڈز کھیلے اور معمولی اکثریت سے حاصل ہونے والی وزارت اعلیٰ کو بھی بچایا اور صوبے کی ترقی و خوشحالی اور عوامی بہبود میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئیے،ابترین حالات میں وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالنا اور اسے استحکام دینا ان کے عزم ،حوصلے کی علامت ہے جس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گا۔ یاد رہے سال 2010 ء میں پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے 1973 ء کے آئین میں 18ویں ترمیم منظور کی جس کے ذریعے دوسرے کئی اقدامات کے علاوہ صوبائی خودمختاری کی روح کے مطابق کئی محکمے اور وزارتیں وفاقی حکومت سے صوبوں کو منتقل کر دی گئیں،صوبوں کو منتقل ہونے والی وزارتوں میں تعلیم، صحت، سیاحت، مذہبی امور، امور نوجوانان، ترقی خواتین، آرکیالوجی، سیاحت، لوکل گورنمنٹ، اقلیتوں کے امور، سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم وغیرہ شامل ہیں، وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی کا مقصد ہر وفاقی اکائی کو وفاقی حکومت کی دخل اندازی کے بغیر اپنے وسائل اپنی عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق استعمال کرنے کا موقع اور حق فراہم کرنا تھا۔ ایسی صورتحال میں صوبے گومگو کا شکار رہتے ہیں،جیسے سندھ حکومت آج بھی ڈانواں ڈول ہے ،مگر پنجاب حکومت نے اس آئینی رکاوٹ کے باوجود ایک متوازن بجٹ پیش کیا، متعدد کابینہ ارکان زرعی ٹیکس لگانے کے حامی تھے اور تجویز بھی دی مگر عثمان بزدار نے مالی مشکلات ،کرونا کی تباہ کاری کے باوجود یہ تجویز مسترد کر دی اور کسانوں کو خوشحال خود مختار بنانے کے عزم کا اظہار کیا،تعلیم،صحت اور عوامی بہبود کے منصوبوں،نوجوانوں کی ترقی خوشحالی انہیں ہنر مند بنانے،بے گھروں کو گھر دینے کے منصوبوں کو اہمیت دی،صحت کارڈ،کامیاب نوجوان،خوشحال کسان اور دیگر پروگراموں کے تحت سرکاری فنڈز کیساتھ بینکوں سے سود فری آسان قرض کی بھی سہولت دی گئی،جو خوش آئیند ہے۔ #Pervaiz Elahi #Punjab Assembly #Mohsin Goraya #Surkh feeta #سرخ فیتہ