گڈ گورننس کو نیب سے بچایا جائے

ملک کے طول و عرض میں ہونے والے احتساب کا جائزہ لیں تو یہ دراصل ایسی ننگی تلوار ہے جو ان لوگوںپر براہ راست لٹک رہی ہے جنہوں نے اس ملک کے نظم و نسق کو چلانا،امن و امان قائم رکھنا ،حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا اور عوام کوآئین و قانون کے مطابق سہولیات فراہم کرنا ہے۔ جب اس سرکاری مشینری کی اپنی عزت،ملازمت اور مستقبل ہی دائو پر لگ جائے تو ان سے کار کردگی کی کیا امید باندھی جا سکتی ہے ، ان دنوں بیوروکریسی کے سر پر نیب کی تلوار ہی نہیں لٹک رہی بلکہ اسے موجودہ حکومت کی طرف سے ابھی تک شک و شبہ کا بھی سامنا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف حکومت آج تک بیوروکریسی کا اعتماد بحال کر پائی ہے نہ بیورو کریسی پر ان کا اعتماد پختہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بیوروکریسی بھی ڈانواں ڈول ہے اور کوئی بھی افسر اپنے طور پر کوئی فیصلہ لینے سے گریزاں ہے ،نتیجے میں کاروبار مملکت و سلطنت عملی طور پر ٹھپ پڑا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی انہی وجوہات کی نشاندہی کی ہے ،محترم جج کے الفاظ دراصل حکومت اور نیب کیلئے مشعل راہ ہیں،اگر ذمہ داران نے اس صورتحال کا جائزہ لیکر معاملات کو درست ڈگر پر لانے کی کوشش نہ کی تو گڈ گوننس کے خواب کو تعبیر کبھی نہیں مل سکے گی اور نہ ہی عوامی مسائل و مشکلات میں کبھی کمی آئیگی۔نندی پور کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ’’گڈ گورننس کو نیب سے بچایا جائے،عوامی مفاد میں نیب کو اختیارات کے غلط استعمال سے روکنا ہو گا‘‘ فاضل جج نے کہا تو اور بھی بہت کچھ مگر یہ دو جملے سمجھ دار کیلئے کافی ہیں۔بیوروکریسی پر شک و شبہ شہباز شریف دور کے چند بیوروکریٹس اور اس وقت کے طرز حکمرانی کی وجہ سے بھی ہے،اس دور میں بعض بیوروکریٹس نے کریز سے نکل کر چھکے مارے اور آج کی حکومت کی راہ میں ہر ممکن طور پر کانٹے بچھا رہے ہیں،ان کی روش کی وجہ سے وفاق اور پنجاب کی بیوروکریسی راندہ درگاہ بن چکی ہے،حکومتی ذمہ داران کی نظر میں تمام بیوروکریسی مشکوک ہو گئی ہے،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کسی افسر پر اعتماد کر نے پر آمادہ نہیں،جب بیوروکریسی پر اعتماد ہی نہیں ہو گا تو سرکاری مشینری کو کیسے اور کیونکر عوامی مفاد میں استعمال کیا جا سکے گا؟اس حوالے سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،انہوں نے اپنے تحریری فیصلہ میں قرار دیا کہ ’’بیوروکریسی کے حقوق اور جائز مفادات میں توازن لانے کی ضرورت ہے،مگر مقاصد کا حصول بھی ضروری ہے،اسی مقصد کیلئے نیب آرڈیننس 1999ء لایا گیااور نیب کا ادارہ قائم ہواء‘‘،فاضل جج نے قرار دیا کہ’’عوامی مفاد میں گورننس کے نظام کو بیوروکریسی کی جانب سے بلا روک ٹوک اقدامات اور اختیارات کے غلط استعمال سے روکا جائے،احتساب کا عمل اور اس کا میکنزم موثر ہونا چاہئے،کیونکہ یہ جمہوری عمل کا ایک لازمی حصہ اور قانون کی بالا دستی قائم رکھنے کی ایک پیشگی شرط ہے،کوئی شک نہیں کہ کرپشن بہت بڑی لعنت ہے،جو ملک کے گورننس سسٹم کو تباہ کر دیتی ہے،معاشی ترقی پر بھی اثر انداز ہو تی ہے،سب سے زیادہ اس کا نقصان غریب طبقہ اٹھاتا ہے،آئین کے تحت چلنے والے ملک میں کرپشن کا تاثر بھی ناقابل برداشت ہے،اس کے باوجود احتساب کے نظام میں احتیاط سے کام نہیں لیا جا رہا اور قانون کے مطابق کام نہیں ہو رہا،اس صورتحال کی وجہ سے گورننس کے نظام کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے،اور ساتھ ہی ان تحفظات کی توثیق ہوتی ہے جو ریاست کے مفلوج ہونے کے بارے میں اسفند ولی کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ظاہر کئے تھے‘‘، فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ’’جو لوگ اس عمل کے تحت کام کرنے کے پابند ہیں،وہ کرپشن اور بد عنوانی کو غلط،نا مناسب یا بے ضابطہ انداز سے اختیارات کے غلط استعمال میں فرق نہیں کر سکتے تو اس کے نتائج گورننس کے نظام کیلئے جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں،جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال خواہ وہ کتنا ہی بد ترین ہوآرڈیننس کے تحت تب تک جرم قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک جان بوجھ کر ایسا کرنے کا عنصر اس میں شامل نہ ہو‘‘۔ قارئین ،یہ ہے اصل خرابی جو احتساب کے نظام میں موجود ہے جس کی سپریم کورٹ نشاندہی کر چکی ہے مگر آج تک اسے بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی گئی مگراس سسٹم کی وجہ سے بہت سے عزت داروں کی پگڑیاں اچھالی گئیں اور بہت سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ، وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی سولی پر لٹکی ہوئی ہے،نیب الزام عائد کرتا ہے ریفرنس بناتا ہے اور گرفتاری عمل میں آجاتی ہے،تحقیق اور تفتیش عزت و ناموس کا جنازہ نکالنے کے بعد کی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ گورننس کا نظام آج ہچکیاں لے رہا ہے،اس کی وجہ سے اچھی کیا کہیں کوئی بری حکومت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ہائیکورٹ کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں،’’کرپشن اور کرپٹ پریکٹس میں فرق نہ سمجھنے سے خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے،خوف کمزوری پیدا کرتا ہے،جس کا گورننس کے نظام پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے،اور یہ یقینی طور پر بیوروکریسی کو موثر انداز سے کام کرنے سے روکتا ہے،یہ عوامی مفاد میں ٹھیک نہیں نتیجہ میں جن حقوق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے وہ متاثر ہوتے ہیں،ایسی صورت میں سرکاری افسر اچھی طرز حکمرانی کو یقینی بنانے میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کر سکتے‘‘۔ اس سے زیادہ کوئی کیا گائیڈ لائین دے،اگر حکومت اب بھی برائی کی اصل جڑ تک نہیں پہنچ پاتی تو کبھی اس کا سرا نہیں پکڑ پائے گی،اسلام آباد ہائیکورٹ نے اور بھی بہت کچھ کہا اگر ان ریماکس کو حکومت اپنے لئے ہدایات سمجھے ، بد عنوانی اور بد نیتی میں فرق کو ملحوظ رکھ لے ، بیوروکریٹس کو اعتماد میں لے اور ان کو خوشگوار ماحول کے ساتھ تحفظ بھی دے تو کوئی وجہ نہیں بیورو کریسی اپنے فرائض منصبی بہترین طریقے سے انجام نہ دے،کسی قانونی معاشرے میں ملزم کو مجرم بنا کر پیش نہیں کیا جاتا،ان میں فرق نہ صرف آئین میں واضح ہے بلکہ مذہبی تعلیمات اور معاشرتی اقدار بھی ان میں فرق ملحوظ رکھنے کا درس دیتی ہیں۔نیب کا کام کرپشن کا خاتمہ ہے نہ کہ امور سلطنت کو تلپٹ کرنا،اب تک کی نیب پریکٹس اچھی حکومت کے قیام،عوامی مسائل کے حل میں روڑے اٹکانا ہی ہے،اسی بناء پر حکومت کے ڈھائی سال ضائع ہو گئے اور عوام آج بھی مسائل و مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں۔