اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

سیاسی راہنماوں اور حکمرانوں کو علم و ادب ،تقاریر اور برمحل شعر بتانے ، سکھانے اور سمجھانے والے شعیب بن عزیز کی ایک غزل کے مطلع نے غزل کے باقی خوبصورت شعر اپنی چھاوں میں چھپا رکھے ہیں ۔مجھے یہ غزل آج بہت یاد آ رہی ہے آپ اس غزل کو پی ڈی ایم کے موجودہ حالات ،بلاول بھٹو اور مریم نواز کی گفتگو کے تناظر میں نہ لیں صرف اس غزل کا مزہ لیں۔ اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں اب تو اس کی آنکھوں کے میکدے میسر ہیں پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب میں ترے فقیروں میں ،میں ترے غلاموں میں زندگی بکھرتی ہے شاعری نکھرتی ہے دلبروں کی گلیوں میں دل لگی کے کاموں میں جس طرح شعیب اس کا نام چن لیا تم نے اس نے بھی ہے چن رکھا ایک نام ناموں میں سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تو پہلے ہی جانتے تھے کہ مختلف الخیال جماعتوں خصوصی طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے اتحاد کا انجام کیا ہو گا ،مگر اچھا ہوا عام لوگوں کو بھی معلوم ہو گیا کہ اپنے مفادات کے لئے ہمارے راہنما کیا کیا نہیں کر جاتے ۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ،اب سیاست اور جنگ میں سب جائز بنا دیا گیا ہے اور سیاست کا مقصد اقتدار حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کیا مقرر ہو ئے ، حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان وجہ تنازع بن گئے۔ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے مشترکہ طور پر قائدِ حزبِ اختلاف کی نشست مسلم لیگ کو دینے کا فیصلہ کیا تھا، جب کہ پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ اپوزیشن لیڈر کا منصب ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی اکثریتی جماعت کا حق ہے۔ اب پی ڈی ایم کے قائم رہنے کے باوجود ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے ،مستقبل میں بھی حزبِ اختلاف کا اتحاد کوئی مشترکہ حکمتِ عملی نہیں بنا پائے گا کیوں کہ دو بڑی رکن جماعتوں کے سیاسی بیانئے میں بہت فرق ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان نہ صرف لائحہ عمل بلکہ بنیادی مقاصد پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے، پیپلز پارٹی نظام کے اندر رہتے ہوئے حکومت کو گرانے پر یقین رکھتی ہے جب کہ مسلم لیگ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا چاہتی ہے، ایسے میں یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ پی ڈی ایم کا ڈھانچہ برقرار رہتے ہوئے بھی حزبِ اختلاف مشترکہ لائحہ عمل نہیں اپنا سکے گی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلاف کی وجہ سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ نہیں بنا، بلکہ یہ دونوں جماعتوں کا حکومت مخالف لائحہ عمل اور حکمتِ عملی پر اختلاف کا تسلسل ہے، باہمی اختلاف پر کھلم کھلا بیانات سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اکھٹے چلنے کے امکانات اب معدوم ہو چکے ہیں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کی ایک تاریخ ہے اور دونوں جماعتوں کی قیادت کا ایک دوسرے پر اعتماد میں فقدان پایا جاتا ہے، آصف زرداری کو ہمیشہ خدشہ رہتا ہے نواز شریف انہیںکسی بھی وقت دھوکہ دے سکتے ہیں، جس کی مثال وہ 2015 ء میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے اختلاف کی دیتے ہیں کہ کیسے انہیں نواز شریف نے دھوکہ دیا تھا،جب وہ اپنی جان بچانے دبئی میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے، دونوں جماعتوں کے ووٹرز اور حلقہ انتخاب بھی مختلف ہیں، ایک وسطی پنجاب جب کہ دوسری سندھ کی جماعت ہے، اس کے علاوہ پیپلز پارٹی ایک صوبے میں حکمران ہے جب کہ مسلم لیگ مکمل طور پر اقتدار سے باہر ہے جو کہ حکمتِ عملی میں فرق کی ایک اور وجہ ہے، سینیٹ انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات اچانک شدت اختیار کر گئے جس کی ایک وجہ مسلم لیگ(ن) کا اعظم نذیر تاڑر کو سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کا امیدوار نامزد کرنا تھا، اعظم تارڑ بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں نامزد پولیس اہلکاروں کے وکیل رہے ہیں جس بناء پر پیپلز پارٹی نے انہیں تسلیم کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ یاد رہے یوسف رضا گیلانی نے رواں ماہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر ایوانِ زیریں میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومتی امیدوار عبد الحفیظ شیخ کو شکست دی تھی،جس کے بعد اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے چیئرمین سینیٹ کے لئے یوسف رضا گیلانی کو حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے مقابلے میں کھڑا کیا،بارہ مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت اس وقت تنازع کھڑا ہو گیا تھا جب اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہونے سے حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کو غیر متوقع کامیابی ملی تھی،یوسف رضا گیلانی نے اس انتخاب کے نتائج کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جہاں سے ان کی درخواست مسترد کردی گئی،پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو اب سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے،اس حوالے سے بھی دونوں جماعتوں میں واضح اختلاف دیکھنے کو ملا ،یوسف رضا کو پڑنے والے پانچ ووٹ مسترد کئے گئے اور یی پانچوں ووٹ ن لیگ کی حامی اور بڑی اتحادی جے یو آئی ف کے سینیٹرز کے تھے،پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ دونوں جماعتوں کو ماضی میں میثاق جمہوریت پر متفق کرنے کا سہرا مرحوم نوابزادہ نصراللہ کے سر ہے،تب دونوں جماعتوں کی قیادت جلاء وطنی کی زندگی بسر کر رہی تھی،اسی معاہدہ کے تحت پہلے بینظیر شہید اور پھر نواز شریف کے پاکستان آنے کی راہ ہموار ہوئی،مگر الیکشن کے بعد جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکو مت معرض وجود میں آئی تو دونوں جماعتوں نے روائتی معاندانہ سیاست شروع کر دی،اس مرتبہ دونوں اگر چہ عمران خان دشمنی میں متحد ہوئے اور فضل الر حمٰن ان کو مزید قریب لے آئے تاہم تینوں کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات تھے،نواز شریف کشتیاں جلانے پر آمادہ ہیں تو فضل الرحمٰن کو امید کہ کچھ تو ہاتھ آئے،پیپلز پارٹی مگر سیاست کے ساتھ سندھ حکومت بھی بچانے کی فکر میںمبتلا ہے،سچ یہ کہ اس جنگ میں کامیابی کی صورت میں سب سے زیادہ مفاد نواز شریف کو ملتا،ناکامی کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کا ہوتا۔اب بلاول بھٹو اور مریم نواز ایک دوسر ے کو باتیں سن رہے ہیں ،ان کو منیر نیازی کی زبان میں یہی مشورہ ہے ، کس دا دوش سی کس دا نئیں سی ایہہ گلاں ہن کرن دیا ں نئں ویلے لنگھ گئے توبہ والے راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں جو ہویا ہونا ای سی تے ہونی روکیاں رکدی نئیں اک واری جدوں شروع ہو جاوے گل فر ایویں مکدی نئیں ۔