مقننہ انتظامیہ آمنے سامنے ،سیز فائر کیسے؟

گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ ایک قانون نے مقننہ اور انتظامیہ کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے ،شائد یہ ہماری ہمیشہ سے بد قسمتی رہی ہے کہ ہم کامیاب اقوام کے آزمودہ تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے نت نئے اور متنازعہ فیصلوں سے تلخ تجربات کا باعث بنتے رہے ہیں،حالیہ قانون کے ذریعے بھی ملک کی بیوروکریسی یعنی ملکی،صوبائی ،ضلعی انتظامیہ اور دوسرے افسران کو پنجاب اسمبلی کے منتخب ارکان کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے ،کوئی قانون ضابطہ قاعدہ اہم نہیں مگر منتخب ارکان کی زبان سے جو نکل گیا وہ قانون کا درجہ پا گیا جب کہ سرکاری مشینری یعنی انتظامی افسران بھرتی ہونے اور پہلی تعیناتی سے قبل ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں نہ کہ کسی ادارہ یا شخصیت کی وفاداری کا ، اور یہی قائد اعظم کا فرمان بھی ہے، مگر نئے قانون کے ذریعے انتظامیہ کو منتخب ارکان کا وفادار بنانے کی کوشش کی گئی ہے،اس قانون کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مقننہ یعنی منتخب ارکان کو سزا دینے کا اختیار دیکر عدلیہ کے متوازی لا کھڑا کیا گیا ہے ،زبانی حکم کی اطاعت لازمی قرار دیکر قوانین اور قواعد کو پس پشت ڈال دیا گیا اور منتخب ارکان کو ہی متوازی حکومت بنا دیا گیا،یوں ایک قانون کے ذریعے ریاست کے تینوں اہم ستونوں کو تلپٹ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ گورنر پنجاب چودھری سرور نے اس قانون کی توثیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے توثیق سے اگر چہ انکار کیا مگر اس کے باوجود قانون آئین کی رو سے منظور کر لیا گیا،ضروری تھا کہ پنجاب اسمبلی گورنر کے اعتراضات کا جائزہ لیتی مگر عدلیہ کے اندر عدلیہ قائم کرنے پر ان کے اعتراض کو بھی تسلیم نہیں کیا گیااور جلد بازی میں ایک ایسا قانون منظور کر لیا گیا جو ریاستی اداروں کے بخیئے ادھیڑ دے گا اور ریاستی بنیاد کو کمزور کرے گا،آئین کے تحت گورنر کا کردار اس قانون کے حوالے سے ختم ہو چکا،اب اس الجھی ڈور کو سلجھانے کے تین ممکنہ حل ہیں اور میرے خیال میں ان پر غور ہونا چاہئے ۔اولاً:سپیکر چودھری پرویز الٰہی بطور کسٹوڈین اسمبلی اس قانون کا از خود جائزہ لیں،بیوروکریسی کے سابق اور موجودہ اعلیٰ افسروں کی مدد سے اس پر نظر ثانی کریں یا کم از کم ان سے تجاویز حاصل کریں کہ کوئی ایسا ضابطہ تشکیل دیا جائے جو فریقین کیلئے قابل قبول ہو،جس میں نہ کسی توہین و تضحیک کا پہلو ہو نہ کسی کو بر تر و بالا ہونے کا احساس ہو،چودھری پرویز الہیٰ ویسے بھی بیوروکریٹک فرینڈلی سیاستدان ہیں، وہ اس مسئلے پر بھی نرمی اور دور اندیشی سے ہی کام لیں گے۔ ثانیاً:گورنر، سپیکر اور ماہرین قانون کے مشورہ سے قانون کی منسوخی کا آرڈیننس جاری کر دیں ۔ثالثاً: بیوروکریسی کی تنظیمیں قانون کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کر دیں مگر اس سے بھی محاذ آرائی بڑھے گی، اگر متاثرہ فریق عدلیہ سے رجوع کرتا ہے تو فیصلہ ایک کے حق اور دوسرے کی مخالفت میں آئیگا،جس کے حق میں آیا وہ شادیانے بجائے گا اور جس کے خلاف آیا وہ تنقید کے ڈونگرے برسائے گا، یوں ریاست کے دو ادارے مقننہ اور انتظامیہ باہم دست و گریبان اور تیسرا ادارہ عدلیہ حیرت و استعجاب میں سرگرداں ہو جائیگا ،اس لئے بہترین حل یہی ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی سابق اور حاضر سروس بیوروکریٹس کے تعاون سے ایک ایسا میکنزم تشکیل دیں جس سے ادارے آپس میں ٹکرائیں نہ کسی کو بے اختیار کر کے اس کی توہین کی جائے اور نہ کسی کو حاکمیت کا احساس دلایا جائے۔ قانون سازی منتخب نمائندوں کا حق ہے اور کسی کو اس حق پر اعتراض بھی نہیں نہ کوئی ان کا استحقاق مجروح کرنا چاہتا ہے بیورو کریسی بھی نہیں،مگر قانون سازی کرتے وقت آئین کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا،دستور پاکستان کے مطابق آئین کے منافی کو ئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی،جبکہ موجودہ قانون ایک ادارہ انتظامیہ کو بالکل بے اختیار کرنے کی کوشش ہے،یہی نہیں بلکہ ان پر قید اور جرمانہ کی تلوار بھی لٹکا دی گئی یعنی منتخب ارکان کے منہ سے نکلی بات حرف آخر،عدلیہ کے اختیارات کو بھی صلب کرنے کی کوشش،ایک قانون نے ملک کے ایسے ادارہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو حکومتوں کا چہرہ ہوتا ہے،حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر آئین و قانون کے مطابق عمل در آمد کرانا جس کی آئینی ذمہ داری ہے،مگر یہ اختیار ان سے چھیننا نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بلکہ آئین کی طرف سے دئیے گئے اختیارات چھیننے کے مترادف ہے،اس مسئلہ کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو انتظامیہ ار مقننہ کے آمنے سامنے آنے کے بہت زیادہ خدشات ہیں،اور اگر بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کی تنظیموں نے استقامت اور استقلال،اتحاد و یکجہتی کے تحت ارکان اسمبلی کے زبانی اور غیر قانونی احکامات نہ ماننے کی ٹھان لی تو ریاستی نظام اور حکومتی نظم و نسق چوپٹ ہو جائیگا۔ اگر سرکاری ملازمین نے کام کرنے سے انکار کیا تو تحریک انصاف کی حکومت کیسے باقی ماندہ مدت اقتدار میں عوام سے کئے وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکے گی،اور کیونکر آئندہ انتخابی مہم میں عوام کا سامنا کر پائے گی،پنجاب اسمبلی کے جملہ ارکان اپنی اپنی حیثیت میں بھی قانون اور اس کے نفاذ کے بعد اس کے ما بعد نتائج کو نظر میں رکھتے ہوئے تجاویز مرتب کر کے سپیکر پنجاب اسمبلی کو پیش کریں،سابق اور حاضر سروس بیوروکریٹس سے اگر سپیکر کی طرف سے تجاویز طلب نہیں بھی کی جاتیں تو وہ خود ایک پینل بنا کر اس حوالے سے تجاویز مرتب کر کے قومی اور ملکی مفاد اور ریاستی اداروں کی بہتری کیلئے سپیکر کو پیش کریں،معاملہ اگر عدلیہ کے پاس چلا گیا تو ملکی آئین کی روشنی میں اس قانون کے منسوخ ہونے کے وسیع امکانات ہیں، جس کے بعد انتظامیہ اور مقننہ میں ایک نئی سرد جنگ کے چھڑ جانے کا بھی امکان ہے،ارکان اسمبلی سرکاری مشینری کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے اور اگر سرکاری مشینری نے ضد میں آکر ارکان اسمبلی کے منصوبوں اور ان کے کاموں میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں تو پھر ملکی نظام ٹھپ ہو کر رہ جائیگا،کسی بھی شعبے میں ترقی کا خواب ادھورا رہ جائیگا۔ حرف آخر، مقننہ اور انتظامیہ کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا،دونوں کو اپنے اداروں کو تباہی کی طرف لے جانے کے بجائے ان کو بچانے اور مضبوط کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے،ایسا نہ ہوا تو سب کا نقصان ہو گا ، خدارا ہوش کے ناخن لیں اور درمیانی راہ نکالیں تاکہ نظام بھی چلتا رہے اور امور ریاست و حکومت بھی۔