رنگ روڈ سکینڈل اور بیوروکریسی

راولپنڈی ،اسلام آباد اور گردونواح سے تعلق رکھنے والی حکومتی شخصیات کے اختلافات اور مفادات کے ٹکراو نے تحریک انصاف کی حکومت کو ایک بڑے سکینڈل سے دوچار کر دیا ہے ، اعلیٰ بیوروکریسی بھی اس معاملے میں نہ صرف تقسیم بلکہ شرمناک حد تک متحارب نظر آ رہی ہے۔افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں اس قسم کا جو بھی پراجیکٹ سامنے آ رہا ہے وہ سکینڈلز کا شکار ہو جاتا ہے یا بنا دیا جاتا ہے کچھ عرصہ پہلے لاہور رنگ روڈ پراجیکٹ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور پھر کام ہی رک گیا ،اس وقت پنجاب حکومت نے اپنے دو بہت ہی اچھے اور کام کرنے والے افسران قربان کر دیے ،جن میں اس وقت کے سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب اکبر اور کمشنر لاہور آصف بلال لودھی شامل تھے۔ایسے معاملات کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ عوام اچھے منصوبوں کے ثمرات سے محروم ہو جاتے ہیں ۔راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں اب تک ہونے والی تحقیقات،باتیں،الزامات اپنی جگہ پر مگر لگتا ہے وہ بیوروکریسی جس نے بڑی مشکل سے اب کام کرنا شروع کیا تھا اس کو ایک بار پھر سٹاپ لگ جائے گا ۔جب سے یہ حکومت بنی ہے اس وقت سے نیب اور الزامات کی وجہ سے بیوروکریسی کام نہیں کر رہی تھی۔اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ موجودہ حکمران بیوروکریسی کو اعتماد دینے میں ناکام رہے ہیں۔راولپنڈی رنگ روڈ کے اس منصوبے میں جن افسران کو الزامات کی بنا پر ہٹایا گیا ہے ان میں سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود اور سابق ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کیپٹن انوار الحق کی اپنے کام سے لگن، دیانتداری اور محنت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے،یہ موجودہ لاٹ کے بہترین افسروں میں سے ہیں اور میرے خیال میں کسی افسر کا ٹریک ریکارڈ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے،مگر ہم سب انسان ہیں فرشتے نہیں، ہونا ان دونوں کو بھی کچھ نہیں مگر ان کے بارے میں جس قسم کی باتیں کی جا رہی ہیں ،دھول اڑائی جا رہی ہے یہ مناسب نہیں ہے، الزامات لگانے والے بڑی جلدی میں ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ارض خداداد پاکستان میں کوئی بڑا منصوبہ تشکیل پائے تو آغاز سے انجام تک اس میں بے قاعدگی ، بے ضابطگی اور حکومتی کج فہمی ڈھونڈنا مشکل ہو ، وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ترجمان اب جتنی مرضی وضاحتیں پیش کریں،جتنی مرضی اب انکوائریاں کرائیں مگر راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہ رکھا گیا ؟ قرضوں کے بوجھ تلے دبے اس ملک اور مہنگائی کا بوجھ اٹھائے اس قوم کی بد قسمتی ہے کہ جب بھی کوئی بڑا منصوبہ تشکیل پاتا ہے اس میں ملکی اور عوامی مفادات سے زیادہ با اثر افراد کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے،جس وجہ سے نہ صرف منصوبہ کی ہئیت بدلتی رہتی ہے اور اس کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جس کا سارا بوجھ عوام کے مسائل سے جھکے کندھوں پرمنتقل ہو جاتا ہے،اگر چہ وزیر اعظم نے اس حوالے سے انکوائری کا حکم دیدیا ہے،مگر اس سے پہلے بھی ایک انکوائری ہوئی جس میں کہا گیا کہ سیاستدان حکمرانوں نے بیوروکریسی کی ملی بھگت سے منصوبہ کو اپنے لئے منفعت بخش بنا لیا،اپوزیشن نے اس کا الزام وفاقی وزیر غلام سرور خان اور معاون خصوصی وزیر اعظم زلفی بخاری پر عائد کیا ہے،اگر چہ زلفی بخاری نے انکوائری میں بیگناہ ثابت ہونے تک اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے جو ایک اچھا عمل ہے۔کہا جا رہا ہے کہ رنگ روڈ کے ماسٹر پلان کو تبدیل کیا گیا،سڑک کا رخ موڑا گیا،سیدھی سڑک بنانے کی بجائے اسے زگ زیگ بنا کے بھول بھلیاں بنا دیا گیا اور اس کیلئے قانونی تقاضے پورے نہ کئے گئے مجاز اتھارٹی کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا نہ اس کی اجازت طلب کی گئی،اگر چہ یہ کوئی نئی بات نہیں مگر تحریک انصاف کی احتساب کی دعویدار حکومت میں ایسی اندھیر نگری مچی تو پھراب کسے رہنماء کرے کوئی ،اس سے قبل مفادات کا جائزہ لینے کیلئے حکومت پنجاب نے فیکٹ اینڈ فائینڈنگ کمیشن بنایا تھا،مگر اس کمیشن میں شامل کمشنر راولپنڈی اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی متضاد رپورٹس نے شکوک شبہات کو ہوا دی،یہ تحقیقاتی رپورٹ قبل از وقت میڈیا کے حوالے کرنے سے بھی دیانتداری مشکوک ہوئی،وزیراعظم نے اس رپورٹ کے بعد ایک اور انکوائری کا حکم جاری کر دیا جبکہ چئیرمین نیب نے بھی نوٹس لیکر تحقیقات کرنے کی ہدائت جاری کر دی ہے،جسٹس (ر) جاوید اقبال کے مطابق بدعنوانی اور بے ضابطگی کیساتھ زمین کی خریداری میں بھی گھپلے کئے گئے۔کمشنر راولپنڈی کی رپورٹ کے مطابق حکمران طبقہ کی 12ہاوسنگ سوئٹیوں کو رنگ روڈ تک خلاف ضابطہ رسائی دی گئی جس سے روٹ تبدیل ہواء اور لاگت بڑھی،اس مقصد کیلئے دو ارب سے زائد کی اراضی بھی خریدنا پڑی،با اثر افراد کی ہائوسنگ سکیموں کو فائدہ دینے کا ذمہ دار سابق کمشنر راولپنڈی محمود خان کو ٹھرایا جا رہا ہے دوسری طرف ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ کے مطابق منصوبہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور ان کے مشیر سلمان شاہ کی ہدائت پر ری الائن کیا گیا۔ وزیر اعظم کے حکم پر منصوبہ پر کام روک دیا گیا ہے جبکہ پنجاب حکومت نے تمام متعلقہ افسروں کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے،سکینڈل سامنے آنے کے بعد وفاق اور پنجاب کی ٹاپ بیوروکریسی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ 2016 ء میں یہ منصوبہ شہباز شریف کے دور میں بنا اور نیسپاک کو تعمیراتی ٹھیکہ دیا گیا،این ایچ اے نے منصوبہ پر تحفظات کا اظہار کیاتھا،کمشنر راولپنڈی گلزار شاہ کی رپورٹ کے مطابق ہائوسنگ سوسائٹیوں کی مرضی سے سڑک کی الائنمنٹ تبدیل کی گئی جس کیلئے ڈاکٹر توقیر شاہ نے پریشر ڈالا،با اثر افراد اور ادارے بھی مداخلت کرتے رہے،سابق کمشنر راولپنڈی جو پراجیکٹ ڈائرکٹر تھے ان پر بھی دبائو ڈالا گیا۔ یہاں ایک اور مضحکہ خیز بات یہ کہ پنجاب حکومت کی تشکیل کردہ تین رکنی کمیٹی تھی جس کے سربراہ کمشنر راولپنڈی تھے مگر انہوں نے از خود اختیار کے تحت کمیٹی کے دو ارکان کو الگ رکھتے ہوئے اپنی رپورٹ کی سمری وزیر اعلیٰ کو پیش کر دی، حالانکہ سمری رولز کے تحت وہ سمری پیش کرنے کے مجاز نہیں ۔رپورٹ میں بعض ہائوسنگ سوسائٹیوں کا بھی ذکر ہے،کچھ لوگوں کے سابق کمشنر کے بے نامی دار ہونے کا بھی شک ظاہر کیا گیا ہے،نیسپاک اور میسرز زیرک کے متعلقہ افسروں کے فوائد اٹھانے کا بھی ذکر ہے،ہائوسنگ سوسائٹیز میں بے نامی مفادات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے،توقیر شاہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ماضی میںبے نامی مفادات کیلئے ان کے کمشنر سے تعلقات رہے،مفادات میں ایسا تضاد پیدا کیا گیا جسے نظر انداز نہیں کیاجا سکتا تھا،نیسپاک پر بھی اثر و رسوخ استعمال کیا گیا،معاملہ بہت سیدھا نہیں ہے،یہاں سیاستدانوں،حکمرانوں اور بیوروکریسی کا ٹرائیکا مفادات حاصل کرتے دکھائی دے رہا ہے مگر افسروں کی رپورٹ میں ملزم الگ الگ ہیں،عمران خان حکومت کیلئے یہ ٹیسٹ کیس ہے،ملزموں میں بہت با اثر حکومتی شخصیات کے ملوث ہونے کا بھی امکان ہے مگر کیا چینی سکینڈل کی طرح یہ انکوائری بر وقت ممکن ہو سکے گی یا دانستہ تساہل اور طرز تغافل کی نظر ہو جائے گی۔