کیا ہم سی پیک سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟

یہ انیسویں صدی کی تیسری دہائی کی بات ہے جب امریکا میں ہر پراجیکٹ ناکام ہو رہا تھا، حتیٰ کہ ریاستوں کو جوڑنے والی متعدد شاہراہیں بھی نامکمل تھیں، ہر حکومت کے اگلے دور کے شروع ہوتے ہی پچھلے ادوار کے تمام پراجیکٹس کو روک کر دوبارہ سے آڈٹ کروایا جاتا، اور بے شمار خامیاں نکال کر یا تو اُس پراجیکٹ کو بند کر دیا جاتا یا اُس پر نئے سرے سے کام شروع ہو جاتا، اس سے اگلی کئی دہائیوں تک پراجیکٹس مکمل نہ ہوتے اور لاگت بھی کئی گنا بڑھ جاتی۔ اُس وقت یعنی 1824ءمیں امریکی صدر جیمز مونروئے کو خیال آیا کہ کیوں نہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے، جو پالیسیوں اور پراجیکٹس کے تسلسل کو یقینی بنائے اور حکومتوں کے آنے جانے سے پراجیکٹس کوئی فرق نہ پڑے۔ اُس وقت دنیا کے پہلے تھنک ٹینک کا قیام امریکہ میں لایا گیا جس کا نام” فرینکلین انسٹیٹیوٹ“ تھا ، اُس کے بعد آہستہ آہستہ چند سالوں میں حکومتوں کو عادت پڑ گئی کہ جو بھی ہو کسی بھی پراجیکٹ کی تکمیل ضرور ہوگی ، اُس پر خواہ کتنی ہی تنقید کر دی جائے۔ یعنی تھنک ٹینک ایک ایسا ریسرچ ادارہ بنا جو پراجیکٹس کے شروع ہونے پر پہلے ریسرچ کرتا، پھر اُس کی مثبت اور منفی پہلوﺅں کا جائزہ لیتا، بجٹ دیکھتا اور اُس پراجیکٹ سے ہونے والے فوائد، ثمرات یا آمدنی کا تخمینہ لگاتا۔ تب پراجیکٹ شروع ہوتا، اور پھر جب پراجیکٹ شروع ہو جاتا تب اُسے کوئی نہیں روک سکتاتھا، اس کے لیے قانون سازی کی گئی، اور ایسی مضبوط قانون سازی کہ اس ادارے کے ثمرات دنیا بھر میں پھیلنے لگے۔ آج دنیا بھر کے 197ممالک میں ”ٹھنک ٹینک“ موجود ہیں ، جن کی کم سے کم تعداد فی ملک ایک سے لے کر زیادہ سے زیادہ 1835 ہے۔ سب سے زیادہ تھنک ٹینکس کے حوالے سے درجہ بندی میں 1835 کی تعداد کے ساتھ امریکا سب سے آگے ہے۔ 435 ایسے اداروں کے ساتھ چین دوسرے اور 288 کی تعداد کے ساتھ برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ عالمی درجہ بندی کے پہلے دس ممالک میں دنیا کے 54 فیصد تھنک ٹینکس کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے 11 فیصد تھنک ٹینکس اسلامی تعاون کونسل ( او آئی سی) کے 57 میں سے 52 ممالک میں کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ 59 فی ملک کی تعداد میں موجود ہیں۔ اپنے 59 تھنک ٹینکس کے ساتھ ایران اسلامی دنیا کا سب سے بڑا اور عالمی سطح کا 19 واں ملک ہے۔ جبکہ نائیجیریا 48 کی تعداد کے ساتھ اسلامی ممالک میں دوسرے اور دنیا میں 27 ویںنمبر پر ہے۔ اسلامی دنیا میںتیسرے نمبر کا اعزاز بنگلہ دیش کے پاس ہے جس کے 35 تھنک ٹینکس اُسے دنیا بھر میں37 ویں پوزیشن پر برا جمان کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں موجود تھنک ٹینکس کی تعداد 20 ہے جن میں سے صرف تین یا چار کارآمد ہیں، اور یہ دنیا میں 63ویں نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 280 کی تعداد کے ساتھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا اور دنیا کا چو تھا بڑا ملک ہے۔ بنگلہ دیش کا خطے میں دوسرا اور عالمی سطح پر 37 واں نمبر ہے۔آپ اس ریسرچ سے خود اندازہ لگا لیں کہ جن ملکوں میں تھنک ٹینک زیادہ ہیںوہ زیادہ ترقی یافتہ یا زیادہ طاقتور ہیں اور جن میں کم ہیں وہ کم ترقی یافتہ ہیں، یا کمزور ممالک ہیں۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد کہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان اداروں کا سخت بحران پایا جاتا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے اکثر سروے باہر کی کمپنیاں بیٹھ کر کراتی ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پاکستان میں عملی طور پر 3 سے 4 ہی مو¿ثر انداز میں تھنک ٹینک کام کررہے ہیں جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں ارباب اختیار کی عدم دلچسپی ہے۔یعنی پاکستان کے دو بڑے تھنک ٹینک جن کا شمار ساو¿تھ ایشیا کے 20 بڑے تھنک ٹینکس میں ہوتا ہے ان میں ایک کراچی میں ہے جس کا نامAffairs International of Institute Pakistan ہے اور ایک Institute Policy Development Sustainable ہے ۔مطلب جب حالات یہ ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ آپ کالاباغ ڈیم، نیلم جہلم پراجیکٹ،رکوڈک، موٹرویز ، گوادر، رنگ روڈز، یا سی پیک جیسے بڑے پراجیکٹس کو خوش اسلوبی سے مکمل کیا جائے۔ اب جبکہ سی پیک کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں کہ سانحہ داسو کے باعث چینیوں نے اپنے تمام پراجیکٹس پر کام روک لیا ہے، یا یہ خبریں آرہی ہیں کہ چینی قیادت پاکستانی قیادت سے مطمئن نہیں، یا ہمارے وزیر خارجہ بار بار چین کا دورہ کر رہے ہیں، یا یہ خبریں پھیل رہی ہیں کہ سابق سربراہ سی پیک پراجیکٹ کو چین کے دباﺅ پر ہٹایا گیا، یا وزیر اعظم اپنے ہم منصب سے بات کرکے یقین دہانیاں کروا رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والا ایک اور بڑا منصوبہ خاکم بدہن مکمل ہو گا بھی یا نہیں !سوال یہ ہے کہ ہم سے چیزیں کیوں Manageنہیں ہورہیں، ہمارے مسائل کیا ہیں، ہم رکوڈک منصوبہ شروع کرنے والے تھے، ہمیں اُلٹا غیر ملکی کمپنیوں نے عالمی عدالتوں کے ذریعے جرمانہ کر دیا۔ اور سابقہ حکومتیں تماشا دیکھتی رہیں۔ پھر نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ کو دیکھ لیں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رن دی ریور ہائیڈروالیکٹرک پاور اسکیم کا حصہ ہے جس کا مقصد دریائے نیلم سے پانی کے رخ کو دریائے جہلم کی طرف موڑنا ہے۔ یہ پاور اسٹیشن مظفرآباد کے جنوب میں 42 کلومیٹر (137,795 فٹ) کے فاصلے پر واقع ہے۔ اور اس کی نصب صلاحیت 969 میگاواٹ ہے۔ جولائی 2007 میں ایک چینی کنسورشیم کو تعمیراتی معاہدہ سے نوازا گیا تھا۔ کئی سال کی تاخیر کے بعد لاگت 300ارب روپے سے 1500ارب روپے تک جا پہنچی مگر یہ پراجیکٹ بھی مطلوبہ نتائج نہ دیے سکا۔ پھر کالاباغ ڈیم کو دیکھ لیں، یہ منصوبہ 1953ءسے ہمارے گلے کی ہڈی بن کر اٹکا ہوا ہے، سندھ جیسے صوبے میں اس پراجیکٹ کا نام لینے والے کو بھی غدار کہا جاتا ہے۔ پھر تازہ تازہ بنی اورنج ٹرین کو دیکھ لیں، سنا ہے، اُس کی آمدنی 5فیصد اور خرچ 95فیصد ہے، لاہور اسلام آباد موٹروے بنائی، اُسے 100کلومیٹر لمبا کر دیا گیا، وجہ صرف یہی تھی کہ اجتماعی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی گئی۔ مطلب کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ہم کہاں غلط ہیں، ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے؟ کیا کبھی اداروں کو اس پر سوچنے کا موقع ملا؟ چلیں یہ چھوڑیں، کیا ہم نے کبھی یہ محاسبہ کیا کہ یہاں غربت کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ میرے خیال میں کوئی بھی مہذب ملک ہوتا تو صرف ایک اطلاع ہی کافی تھی کہ تھر میں ایک بچہ بھوک سے مر گیاہے، لیکن یہاں تو ہر سال ہزاروں بچے بھوک سے مررہے ہیں، لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ حالانکہ پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں روزانہ ایک ارب روپے خیرات ہوتی ہے، لیکن وہیںبھوک سے مرنے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ پھر آپ کورونا ہی کو دیکھ لیں، کورونا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، لیکن یہاں کورونا کو لے کر فیڈرل اور صوبوں کے درمیان لڑائی ہی ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے ہر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگتا ہے، ہمارے ہمسایہ ملک میں تو یہ الزامات دیکھنے کو نہیں ملتے ، وہاں حکومتیں تبدیل بھی ہوں تو فرق نہیں پڑتا، کیوں؟ کیوں کہ وہاں دن رات تھنک ٹینک یہ سوچ رہے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں جو اُنہیں خامیاں نظر آئیں، اُنہیں اگلے الیکشن میں کیسے دور کیا جائے؟ جبکہ ہمارے یہاں یہ بات سوچی جا رہی ہے کہ اگلے الیکشن میں مزید دھاندلی کر کے کیسے مرکز یا صوبے میں حکومت بنانی ہے۔ لہٰذایہ بات تو طے ہے کہ ہم ہر جگہ کنفیوژن کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور رہی بات سی پیک کی تو سی پیک پر یہ بات پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سی پیک کا پہلے دن سے ہی بھارت دشمن ہے، اور بھارتی دشمنی کی وجہ سے مغرب خاص طور پر امریکا بھی نہیں چاہتا کہ خطے میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کریں۔ اور پھر آنے والے وقتوں میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی تکمیل کے بعد آئی ایم ایف ،امریکا اور ورلڈ بینک مزید کمزور ہو جائیں گے، اس لیے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ چین 2029تک اپنے پراجیکٹ مکمل کرے کیوں کہ ایسا کرنے سے سپرپاور کی دوڑسے امریکا باہر نکل جائے گا اور چین کئی ممالک پر اپنی ڈھاک بٹھا چکا ہوگا۔ لہٰذااس تمام تر صورتحال سے واقفیت کے بعد ہمیں سی پیک کو موثر انداز میں کامیاب بنانے کے لیے تھنک ٹینک بنانا ہوں گے، اوریہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ خدانخواستہ پاکستان سی پیک سے پیچھے ہٹ رہا ہے، یا چینی کمپنیوں کے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے، لہٰذااگر ہم سی پیک کو مکمل کر لیتے ہیں تو پاک چین تعلقات مزید مظبوط اور معنی خیز ہوں گے۔ اور مستقبل میں ہمیں یہی ملک دیگر دنیائی طاقتوں سے محفوظ بھی رکھے گا اور بچا کے بھی رکھے گا، ورنہ امریکا ہمیشہ وقتی فائدہ یعنی 2، 4ارب ڈالر کا لالچ دے کر پاکستان کو ٹشو کی طرح استعمال کرے گا اور پھر لاوارث پھینک دے گا، اور پھر ہماری مثال بقول شاعر ایسی ہوگی! نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے #CPEC #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #Leadernews