افغان مہاجرین اور اسلامی بھائی چارہ !

غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں (خاص طور پر افغانیوں )کا وطن عزیز سے اپنے ملکوں کا سفر جاری ہے، ڈیڈ لائن ختم ہونے پر ملکی اداروں نے بھی سختی کر دی ہے، اور پکڑ دھکڑ کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ اور جن غیرقانونی افغانیوں کو پکڑا جا رہا ہے،اُنہیں جیلوں میں نہیں بلکہ ”ہولڈنگ سنٹرز“ میں رکھا جا رہا ہے جہاں انہیں حکومت کی طرف سے چند سہولتیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس سوشل میڈیا اور انٹر نیشنل میڈیا پر اس حوالے سے کچھ منفی خبریں چلائی جا رہی ہیں ، جن میں کسی حد تک سچائی بھی ہے اور نہیں بھی۔ خیر ابھی تک کی رپورٹس کے مطابق طورخم اور وزیرستان کے انگور اڈہ سرحدی مقامات کے ذریعے چھ اکتوبر سے یکم نومبر تک ایک لاکھ 30ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے واپس جا چکے ہیں، اورگزشتہ روز تک یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اگر مجموعی طور پر بات کی جائے تو وزارتِ داخلہ حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم تارکینِ وطن میں سب سے زیادہ افغان شہری ہیں جن کی تعداد تقریباً 44 لاکھ ہے‘ ان میں سے 14 لاکھ کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت موجود ہے‘ ساڑھے آٹھ لاکھ افراد کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے‘ جبکہ 17 لاکھ غیر رجسٹرڈ شدہ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ افغان شہری پچھلی تین سے چار دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں تو پھر اچانک انہیں ملک سے بے دخل کرنے کا خیال کیوں آیا؟ خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہی مگر اس سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ اس وقت دنیا بھر سے افغان مہاجرین کے لیے ہمدردیاں دکھائی جا رہی ہیں اور ایسی ایسی ویڈیوز اور تصاویر نشر کی جا رہی ہیں جس سے تاثر یہ جا رہا ہے کہ پاکستان ان مہاجرین کے ساتھ سختی سے پیش آرہا ہے۔ اور پھر افغانستان کے عبوری وزیراعظم نے بھی حکومتی سطح پر پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان باشندوں کو واپسی کے لیے مزید وقت دیا جائے تاکہ وہ تحمل کے ساتھ اپنے ملک واپس آ سکیں۔ اسی لیے ماہرین کے مطابق اگر اس حوالے سے پاکستان نے لچک کا مظاہرہ نہ کیا تو ڈر ہے کہ کہیں نیا افغان محاذ نہ کھل کر سامنے آجائے۔ اور پھر چونکہ ہم پہلے ہی انڈیا کے ساتھ محاذ کھول کر بہت سا نقصان کر بیٹھے ہیں، یہ نقصان اربوں روپے کی تجارت کی شکل میں بھی ہے اور دنیا بھر میں رسوائی کی صورت میں بھی۔ بہرحال یہ بات درست ہے کہ افغانیوں کو اپنے ملک میں حالات بہتر ہونے کے بعد رضاکارانہ طور پر چلے جانا چاہیے مگر اتنے سال بلکہ اتنی دہائیاں انتظار کرنے کے بعد فوری طور پر اتنی سختی کرنا اور افراتفری سے کام لینا کسی صورت بھی ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔ یعنی بادی النظر میں کیسے ممکن ہے کہ جن لوگوں کو 40سال سے ہم نے پناہ دی ہوئی ہے، اُنہیں ایک مہینے میں نکال دیں۔ اور پھر ہم دنیا بھر میں مسلمان بھائی چارے کا جو پیغام دے رہے ہیں، اُس سے کیا تاثر جا رہا ہے؟ کیا ہمارا اسلامی بھائی چارہ صرف دور دور سے ہے؟ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر جبکہ دوسری جانب ہم نے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر دورس نتائج کو ذہن میں رکھے ہمارے ادارے سختی سے کام لے رہے ہیں۔ اورپھر یہی نہیں بلکہ اُنہیں اس وقت بے دردی سے ملک سے بے دخل کیا جا رہا ہے، جس سے ان کے اندر نفرت کا لاوا پیدا ہوگا اور وہ یقینا ”جہادی“ بن کر پاکستان پر حملہ کرنے کو ثواب کا کام سمجھ سکتے ہیں۔ اور پھرحد تو یہ ہے کہ پولیس اور نادرا کی اس وقت چاندی ہوچکی ہے، نادرا میں لاکھوں روپے دے کر جعلی کارڈز بن رہے ہیں جن کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی کہیں رجسٹریشن۔ لہٰذامیرے خیال میں ہمارے اداروں کو اس حوالے سے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے، انہیں تھوڑا وقت دینا چاہیے، انہیں بھائیوں کی طرح رخصت کرنا چاہیے۔ میں ایسا اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میرے اندر دہشت گرد افغانیوں کے لیے کوئی رحم موجود ہے، بلکہ ان افغان مہاجرین کو بھی ہمیں دیکھنا چاہیے جن کی چوتھی نسل یہاں جوان ہو رہی ہے۔ ان افغانیوں کی باتیں سنیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ زمین تنگ کردی گئی ہے، اب وہاں افغانستان میں لوگوں کا کوئی سائبان نہیں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، خواتین ہیں، معذور ہیں اس وقت وہاں برفباری کا موسم ہے۔پاکستان اگر دو تین مہینے کا وقت دے دیتا تو ہم عزت سے اپنے مکانات تعمیر کرتے اور وہاں چلے جاتے۔ آپ یقین مانیں اس حوالے سے میری چند ایک افغان خاندانوں سے بات ہوئی تو اُن کا رویہ پاکستان کے حوالے سے خاصا سخت تھا ۔ اور کوئی تبصرہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ مطلب اندر ہی اندر سے اُن کو ایک ہی بات کھائے جا رہی تھی کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس نے ہمیں 40سال تک اپنی آغوش میں رکھا اور اب وہ بے دردی سے ہمیں نکال رہا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ بارڈرز تک لے جانے والی گاڑیاں تک سرکار نے مہیا نہیں کیں اور لاکھوں روپے کرایہ لگا کر افغان خاندان بارڈر تک جارہے ہیں۔ حالانکہ حکومت پاکستان کے فیصلے کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے لاجسٹکس کی مد میں آنے والے اخراجات صوبائی حکومتیں ادا کریں گی اور سندھ حکومت نے اس مد میں ساڑھے چار ارب روپے مختص کیے ہیں۔لیکن یہ پیسے کہاں لگ رہے ہیں اس حوالے سے کوئی نہیں جانتا۔ جبکہ اس کے برعکس دنیا بھر میں قوانین بنے ہوئے ہیں کہ وہ تارکین وطن کو اُن کے آبائی وطن تک بھیجنے کے تمام اخراجات وہی ملک برداشت کریں گے جہاں سے اُن باشندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ نہیں یقین تو آپ چند سال پہلے شامی مہاجرین کے ساتھ ہونے والے یورپی سلوک کو دیکھ لیں۔ کئی یورپی ممالک ابھی تک اُن مہاجرین کو ہزاروں ڈالر ماہانہ دے رہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ہم اُن کے خلاف کریک ڈاﺅن کر رہے ہیں، پولیس ہر گھر میں جا رہی ہے، دہشت پھیلا رہی ہے، بدتمیزیاں کر رہی ہے، اور کئی جگہوں پر تو چادر اور چاردیواری کا خیال بھی نہیں رکھا جا رہا۔ بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اس حوالے سے پولیس کی چاندی ہو گئی ہے۔ لہٰذاہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اس مسئلہ کو پیار اور حکمت عملی سے ہینڈل کرناچا ہیے!ورنہ ہمارے بعد آنے والوں کو معافی مانگنا پڑ سکتی ہے!