میزائل: کیا انڈیا کا غلطی تسلیم کرنا کافی ہے!

9مارچ کو بھارت کی جانب سے ”مبینہ غلطی “ کی وجہ سے ایک میزائل داغا گیا، جو پاکستانی حدود میں سوا سو کلومیٹر اندر تک پاکستانی علاقے خانیوال(میاںچنوں) کے قریب ایک گاﺅں کے کولڈ سٹوریج پر آگرا، جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔10مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی اور کہا گیا کہ پاکستان میں بھارتی حدود سے ایک اُڑتی ہوئی چیز پاکستانی حدود میں داخل ہوئی ، جو میاں چنوں کے مقام پر گری۔ یہ ایک سوپر سونک پروجیکٹ تھا جو ممکنہ طور پر میزائل تھا اور غیر مسلح (بغیر بارود کے میزائل ) تھا ، یہ آبجیکٹ بھارت میں سو کلو میٹر اندر تھا، تبھی ہم نے اسے نوٹس کرلیا۔اس کے بعد 11مارچ کو بھارت کی طرف سے تسلیم کیا گیا کہ ”غلطی“ ہوگئی! معمول کی دیکھ بھال کے دوران میزائل فنی خرابی کی وجہ سے غلطی سے داغا گیا جس کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ قارئین! دنیا میں جنگیں جب سے ”ایٹمی جنگ“ میں تبدیل ہوئی ہیں، تب سے دو حریف ممالک خواہ وہ امریکا روس ہوں، امریکا چین ہوں، ایران سعودی عرب ہوں یا پاکستان بھارت نے آپس میں ایٹمی ”ڈیٹرینس“ یعنی توازن قائم رکھا ہوا ہے۔ ایک ملک کے پاس اگر 3ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل موجود ہو تو دوسرا ملک بھی یہی کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی اتنی ہی دور مار کرنے والا میزائل بنائے۔ پھر اگر ایک ملک کے پاس 10ہزار میزائل موجود ہوں تو دوسرا بھی کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی اتنی ہی تعداد میں ہتھیار بنائے۔ ایسا کرنے سے جنگ کرنا مقصد تو نہیں ہوتا مگر خطے کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے 1998ءمیں بھارت نے ایٹمی تجربات کیے تو وہ پاکستان پر گیدڑ ببھکیاں کسنے لگا کہ اب وہ سرحدوں کی تمیز نہیں کرے گا، اور پاکستان پر حملہ کردے گا وغیرہ۔ جس کے چند دن بعد ہی پاکستان نے بھی ایٹمی تجربات کرکے خود کو ساتویں ایٹمی طاقت ڈکلیئر کروا دیا جس کے بعد پاکستان پر عالمی پابندیاں تو لگیں مگر بھارت آوازیں کسنے اور مذموم عزائم سے باز آگیا۔ جس کا فائدہ یہ ہو ا کہ بھارت نے دوبارہ ایٹمی حملہ کرنے کی دھمکی نہیں دی۔ اور پھر یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے ہوئے 24سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔ اس دوران پاکستان پر ناجانے کیا کیا الزام لگائے گئے، کبھی کہا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گرد گروہوں کے قبضے میں آسکتے ہیں، کبھی کہا گیا کہ پاکستان کبھی بھی بھارت پر ان کا غلط استعمال کر سکتا ہے، کبھی سی ٹی بی ٹی معاہدے کے نام پر پاکستان کو ڈرایا گیا تو کبھی عالمی اقتصادی پابندیوں کے نام پر۔ لیکن ”میزائل چلانے کی غلطی سرزد کس سے ہوئی؟ ”ذمہ دار ملک “بھارت سے۔ یہ وہ ملک ہے جس کی کبھی سب میرین پاکستان میں ”غلطی“ سے داخل ہو جاتی ہے، کبھی طیارہ غلطی سے پاکستانی حدود میں آجاتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اب میزائل بھی غلطی سے سرحد پار کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ کسی بھی ملک کی فضائی حدود میں داخل ہونے والی کوئی بھی شے حملہ ہی تصور کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں دفاعی قواعد و ضوابط تو یہی کہتے ہیں کہ میزائل آنے کی صورت میں آپ بھی جوابی حملہ کریں۔ تو پاکستان کی جانب سے ایسا نہ کرنا سمجھداری کے ساتھ ساتھ ایک سلجھا ہوا فیصلہ بھی ہے۔اور اس حوالے سے پاکستانی ماہرین ہی نہیں بلکہ انڈین ماہرین بھی پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس سوال یہ ہے کہ اگریہ میزائل کسی بڑے شہر کی طرف جاتا تو کیا ہوتا؟اور انڈیا کو یہ وضاحت بھی دینا ہو گی کہ یہ میزائل کس راستے پر تھا اور کیسے اچانک اس کا راستہ تبدیل ہوا اور یہ پاکستان میں داخل ہو گیا؟کیا اس میزائل میں خود کو تباہ کرنے کا میکینزم موجود تھا؟کیا معمول کی مشقوں اور دیکھ بھال کے دوران بھی انڈیا میں میزائل داغے جانے کے لیے ہر دم تیار رکھے جاتے ہیں؟انڈیا نے فوری طور پر پاکستان کو آگاہ کیوں نہیں کیا کہ حادثاتی طور پر میزائل فائر ہوا ہے اور اس بات کا انتظار کیوں کیا گیا کہ پاکستان کی جانب سے اس واقعے کا اعلان کیا جائے گا اور وضاحت مانگی جائے گی؟اتنی بڑی نااہلی کو دیکھتے ہوئے انڈیا کو یہ وضاحت کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا اس کے میزائل واقعی اس کی مسلح افواج کے ہاتھ میں ہی ہیں یا پھر کسی اور کے؟ کیوں کہ موجوداطلاعات کے مطابق تو اس کا اختیار صرف اور صرف وزیر اعظم ، صدر یا فوج کے سربراہ کے پاس ہوتا ہے، اگر ایٹمی ہتھیاروں کے پروٹوکول کی بات کی جائے تو امریکا میںان میزائلوں کو چلانے والوں کو ”منٹ مین“ کہا جاتا ہے، منٹ مین اس لیے کہ یہ لوگ حکم ملنے کے بعد ایک منٹ میں ایٹمی میزائل داغ سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہر وقت کمپیوٹر سکرین پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہتے ہیں کہ کسی بھی وقت میزائل داغنے کا حکم آ سکتا ہے۔ اور امریکی نظام میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حکم صرف ایک شخص دے سکتا ہے اور وہ ہے ملک کا صدر۔البتہ وہاں میں میزائل داغنے کا عمل پینٹاگون ”وار روم“ سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کے لیے صدارتی حکم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے امریکی صدر کے ساتھ ہر وقت مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایک بریف کیس ہوتا ہے جسے” نیوکلیئر فٹ بال“ کہتے ہیں۔یہ سیاہ رنگ کا چمڑے کا بریف کیس دیکھنے میں بہت ہی عام سا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر خاص آلات ہیں جن کے ذریعے صدر کسی بھی وقت اپنے سینئر مشیروں اور کچھ دوسرے انتہائی اہم لوگوں سے بات کر سکتے ہیں۔اس بریف کیس میں ایک کارٹون کتاب کی طرح کا صفحہ بھی ہے، جس میں گرافکس کے ذریعے جنگی منصوبے، جوہری میزائل اور ان کے اہداف کی تفصیلات درج ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر حملہ ہوا تو کتنے لوگ مارے جانے کا امکان ہے۔ صدر کو ان باتوں کو پلک جھپکتے ہی سمجھنا ہوتا ہے۔لیکن صدر کا حکم اسی وقت مانا جاتا ہے جب وہ میزائل لانچ آفسر کو اپنی خاص شناخت بتاتے ہیں اور یہ شناخت بسکٹ نما پلاسٹک کارڈ میں ہوتی ہے۔امریکی صدر کو یہ کارڈ ہمیشہ اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے۔ یہ وہ کارڈ ہے جس کی وجہ سے امریکی صدر کو دنیا کا طاقتور ترین شخص کہا جاتا ہے۔ صدر سے منظوری ملنے کے بعد چند منٹوں میں ایٹمی میزائل لانچ کیا جا سکتا ہے۔صدر کا حکم ملنے کے بعد ”منٹ مین“ یعنی زمین پر تعینات ٹیم میزائل سے حملہ کرنے والے یا آبدوز میں نصب میزائل لانچ کوڈ کے ساتھ کھولے جاتے ہیں اور حملے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔اور پھر کسی بھی وقت جوہری میزائل لانچ کرنے کے لیے دو افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنے اپنے کوڈ بتاتے ہیں۔ پھر روس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ روس کے صدر کے پاس بھی ایک جوہری بریف کیس ہوتا ہے جس میں جوہری میزائلوں کے کوڈ ہوتے ہیں۔ یہ بریف کیس ہمیشہ صدر کے آس پاس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سوتے ہیں تو یہ ان کے 10-20میٹر کے دائرے میں رہتا ہے۔ روس پر حملے کی خبر آنے پر بریف کیس میں الارم بجتا ہے اور فلیش لائٹ روشن ہو جاتی ہے جس سے صدر فوری طور پر بریف کیس کے قریب پہنچ کر وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے رابطہ کر سکتے ہیں۔الغرض اگر کوئی صدر اپنی طرف سے ایٹمی میزائل لانچ کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہے۔ ایسے دو بریف کیس روسی وزیر اعظم اور روسی وزیر دفاع کے پاس ہوتے ہیں لیکن ایٹمی حملے کا حکم صرف صدر ہی دے سکتے ہیں۔اور پھر برطانیہ کا نظام بھی کچھ اس طرح کا ہی ہے۔ بہرحال یہ چیزیں بتانے کا مقصد کہ پاکستان اور انڈیا کا میزائل نظام بھی یقینا اتنا ہی محفوظ ہوگا جتنا امریکا یا روس کا ہے تو پھر کیسے ممکن ہوا کہ بھارتی میزائل لانچ ہوا، اُسے چلایا گیا اور پھر یہ پاکستان کے اندر 2، 3سو کلومیٹر تک آبھی گیا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ کیسے بھارت اتنی بڑی غلطی کر سکتا ہے؟ اگر اس میزائل جسے براہموس سپر سانک کہا جاتا ہے جو آواز کی رفتار سے تین گنا زیادہ تیزی سے سفر کرتا ہے، یعنی یہ بھارت کا جدید میزائل ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کی بھارت میں تعداد بھی 12ہزار کے قریب ہے۔ اگر یہ میزائل سسٹم غلطی کر سکتا ہے تو پھر کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اور پھر ہمیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ پچھلے 17 برسوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان چھ بڑے تنازعات چھڑے ہیں جن کو بات چیت اور بین الاقوامی مداخلت کے بعد ختم کیا گیا ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں میزائل کا حادثاتی طور پر لانچ ہونے کے بیانیے کو دونوں ملکوں میں ماہرین تشویش سے دیکھ رہے ہیں ، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری اور ہتھیاروں کے معاہدوں کو شیئر کرنے کے بارے میں بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ 21 فروری 1999 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک حفاظتی یاد داشت پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس ایم او یو میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کسی بھی قسم کے بیلسٹک میزائل کا ٹیسٹ کرنے سے پہلے بتائیں گے۔ دونوں ممالک زمینی یا بحری بیلسٹک میزائل لانچ کرنے سے تین دن پہلے ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے۔ اور آگاہ کرنے کی ذمہ داری دونوں ملکوں کے دفترِ خارجہ اور ہائی کمیشن پر ہو گی۔میری اس حوالے سے ایک پاکستانی ذمہ دار آفیسر سے بھی بات ہوئی ہے وہ بھی اسی تشویش میں مبتلا ہیں کہ یہ بھارت کی اتنی بڑی غلطی ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور بدلے میں اگر پاکستان اُسی وقت Responseکر دیتا تو خطے میں ایٹمی جنگ شروع ہوسکتی تھی۔ لہٰذاپاکستان کی سلامتی کے ذمہ داران کو اس پر غور کرنا چاہیے، میزائل فائر ہونے کے اس واقعے کی تحقیقات محض بھارت پر چھوڑنے کے بجائے عالمی اداروں کو بھی اس میں شریک ہونا چاہیے، اس کے مکمل نتائج پاکستان کے علم میں بھی لائے جانے چاہئیں اوربھارت کو ضروری اقدامات کا پابند کرکے ایسے واقعات کے اعادے کے خدشے کا یقینی سدباب کرنا چاہیے، تاکہ ہم پر دوبارہ ”غلطی“ مسلط نہ کی جائے!