او آئی سی کانفرنس خوش آئند مگر تنظیم فعال نہیں تو کچھ حاصل نہیں!

آج پاکستان اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے 48ویں وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔یہ خوش آئند بات ہے کہ یہ اجلاس 75ویں یوم پاکستان کے موقع پر منعقد ہو رہا ہے۔جس میں او آئی سی کے رکن اور مبصر ممالک کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ شخصیات اوآئی سی وزرائے خارجہ کی کونسل اجلاس کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ وہ بطور مہمان اعزاز 23 مارچ 2022 کو یوم پاکستان پریڈ کا بھی مشاہدہ کریں گے۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی صدارت کریں گے۔اس اجلاس میں سیاسی، سکیورٹی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں مسلم دنیا کے سامنے مواقع اور چیلنجوں کو ڈسکس کیا جائے گا۔جیسے فلسطین اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دیرینہ یکجہتی اور حمایت کی توثیق کی جائے گی۔بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ اور ایس ڈی جیز کے حوالے سے پیش رفت میں موسمیاتی تبدیلی، ویکسین کی عدم مساوات اور کٹاو¿ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال ہوگا۔الغرض اس اجلاس میں امن و سلامتی سمیت وسیع تر مسائل پر 100 سے زائد قراردادوں پر غور اور منظور کرے گا۔ جن میں اقتصادی ترقی، ثقافتی اور سائنسی تعاون، اور انسانی، قانونی، انتظامی اور مالی معاملات شامل ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اجلاس ایک عرصے بعد پاکستان میں ہو رہا ہے ، حالانکہ گزشتہ اجلاس بھی پاکستان میں منعقد ہوا تھا مگر اُس میں کورونا کی وجہ سے متعدد شرکاءنے آن لائن ہی شرکت کی تھی۔ لیکن اس مرتبہ سبھی وزرائے خارجہ اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے پاکستان میں موجود ہوں گے۔ جبکہ اس کے برعکس افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان دنوں اسلام آباد کی سیاسی فضا بہت کشیدہ ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔اپوزیشن کو خوب معلوم تھا کہ ان دنوں اوآئی سی کا اجلاس ہوناہے۔یوم پاکستان کی پریڈ اور تقریبات ہوں گی۔ حکومت نے حزب اختلاف کی لیڈرشپ سے درخواست بھی کی تھی کہ وہ اپنا احتجاج مارچ کے آخری ہفتے تک موخر کرلیں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والی حکومت مخالف لیڈرشپ نے پاکستان کی جگ ہنسائی کا خوب انتظام کیا، اور او آئی سی کے اس بڑے اجلاس میں خوب رخنہ ڈالنے کی کوشش کی۔ حالانکہ مہمانوں کو عزت دینے کی روایت دنیا کے آغاز ہی سے ہے، لیکن نہ جانے یہ کس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کہ اُنہیں عزت و ذلت سے کوئی سرو کار ہی نہیںرہا!حالانکہ پرانے وقتوں میں جب کبھی کسی قبیلے میں دوسرے قبیلے کے لوگوں کو دعوت دی جاتی تو ہر کوئی اپنے اندرونی لڑائی جھگڑے چھوڑ کر مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے میں مصروف ہو جاتا، اور پھر مہمانوں کے جانے کے بعد ہر کوئی اپنی اپنی لڑائی میں دوبارہ ”مصروف“ ہو جاتا ۔ پھر اس حوالے سے قوانین بننا شروع ہوئے کہ مہمانوں کے ہوتے ہوئے اگر کسی نے شر انگیزی پھیلانے کی کوشش کی تو اُس کا سر قلم کر دیا جائے گا ، اس بات کا واضع ثبوت ہم چار ہزار سال پرانے حمورابی کے قانون میں دیکھ سکتے ہیں۔ حمو رابی لکھتا ہے کہ ”جب کسی دوسری جگہ(قبیلے) سے مہمان آئے گا تو اُس کے لیے ہر گھر کا کم از کم ایک فرد استقبال کے لیے نکلے گا، ورنہ 40کوڑے سزا ہوگی“ اُس کے یہ قانون لکھنے کا مقصد تاریخ دان بیان کرتے ہیں کہ اس سے قبیلے میں خوشحالی آئے گی اور مہمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ لیکن آج ہم اپنی روایات کو بھول گئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ سیاسی کارکن اپنی جگہ مگر سیاسی رہنماءبھی اس حوالے سے اشتعال انگیزی پھیلانے سے پیچھے نہیں ہیں جیسے بلاول زرداری کا کہنا تھا” دیکھتے ہیں او آئی سی کانفرنس کیسے ہوتی ہے“اس بیان کے بعد پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی ہر فورم پر خاصی لے دے ہوئی جس پر ”متحدہ اپوزیشن“ نے عوامی دباﺅ کے پیش نظر ہنگامی اجلاس طلب کیا اور مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ ہم آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور مزید کہا کہ مہمانوں کے چلے جانے کے بعد وہ دوبارہ اسمبلی میں اور ہر جگہ پر احتجاج کی حکمت عملی بنائیں گے! خیراگر عوامی دباﺅ نہ آتا تو ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کے ”بڑے“ بھی بلاول ہی کی تائید کرتے ورنہ تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ وزرائے خارجہ اجلاس ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جو معاشی طور پر کمزور ہے۔ دنیا کا کاروبار اور وسائل کے لیے اس پر انحصار نہیں۔ اس طرح کے ملک میں دنیا کے امیر اور طاقت ور ممالک کے وزرائے خارجہ کا جمع ہونا ایک اعزار کی بات ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن حکومت کے ساتھ کھڑی ہونی چاہیے تھی۔ وزیراعظم یا صدر کی طرف سے دیئے جانے والی استقبالی تقریبات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا۔اس طرح دنیا میں اتحاد اور اتفاق کا پیغام جاتا۔اسلام آباد میں قائم اسلامی ممالک کے سفارت خانے لمحے بہ لمحے اپنی حکومتوں کو پاکستان کے بحران کے بارے میں آگاہ کررہے ہوں گے۔ بے یقینی کی موجودہ کیفیت میں اوآئی سی وزرائے خارجہ بھی سوچتے ہوں کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ او آئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوتو جائے گا لیکن وزیراعظم عمران خان سمیت کوئی بھی پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اس میں شرکت کرسکے گا اور نہ ہی ا سے پاکستان کے لیے مفید بنایاجاسکے گا۔ کاش! پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام حالات کی نزاکت کا کچھ خیال کرتیں اور چند دن اور انتظار کرلیتیں۔تاکہ ہم اوآئی سی کانفرنس کے ثمرات سمیٹ سکتے۔خیر بقول شاعر اپنے اپنے ظرف کی بات ہے ۔ اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے رات ہے لیکن مرے لب پر سحر کی بات ہے آشیاں کے ساتھ پوری زندگی بدلی گئی کم نظر سمجھے کہ مشت بال و پر کی بات ہے بہرکیف اُمید ہے کہ اس کانفرنس میں معقول فیصلے کیے جائیں گے جس کے بعد مسلم اُمہ کی گرتی ہوئی ساکھ سنبھل سکے گی، کیوں کہ اس سے پہلے اس تنظیم کی جانب سے جتنے بھی فیصلے کیے گئے اُن کا معیار یہ تھا کہ اُس میں سے99فیصد آج بھی زیر التوا ہیں۔ اور پھر یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے مسائل کو اُجاگر کرنے، اُنہیں حل کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم کے بڑے بڑے ممالک خود مختار ہونے کے بجائے مغربی قوتوں کی چھتر چھایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، ترکی، ملایشیا ، پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ جیسے امیر اور اسلحہ سے مالا مال ممالک بھی مغربی ممالک کی مرہون منت ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ تنظیم اسلام کے نام پر بنی لیکن اس میں موجود تمام اسلامی ممالک کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مفادات جڑے ہیں اور یہ ممالک انہی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے اس تنظیم کی کارکردگی اُتنی اچھی نہیں ہے جتنی دنیا کی دیگر ذیلی تنظیموں کی ہے جیسے آپ یورپی یونین کو دیکھ لیں۔اس تنظیم میں یورپ کے 29ممالک جڑے ہیں لیکن یہ دنیا کی سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک کو بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کرنے سے روک سکتی ہے۔ اسی لیے یہ دنیا میں حکم چلانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی جیسے گزشتہ سال یورپی یونین نے قرار داد منظور کی کہ جب تک پاکستان اپنی شرائط پوری نہیں کرتا پاکستان کا جس ایس پلس کا درجہ ختم کر دیاجائے،پاکستان متحرک ہوا اور فوری طور پر یورپی یونین کو منانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دیں۔ یورپی یونین ہی نے چین کے کئی عہدیداروں پر صوبہ سنکیانگ کے ویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کا اعلان کیا ، چینی حکام نے فوری طور پر یورپی یونین کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور پابندیوں پر نرمی اختیار کرنے کے لیے کہا۔ یورپی یونین ہی نے بھارت میں ہونے والے امتیازی رویوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بھارتی حکومت کو انتباہ کیا، جس کے بعد نمایاں طور پر پرتشدد واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی۔ مطلب یورپی یونین کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ امریکا بھی اس تنظیم کی ناراضگی مول لینے سے ڈرتا ہے۔ پھر ”دولت مشترکہ“ تنظیم کی بات کر لیں، جی 20ممالک کے گروپ کی بات کرلیں یا جی 8ممالک کی سبھی کا اپنا اثررو رسوخ ضرور ہے، لیکن اگر کسی تنظیم کا اثرورسوخ برائے نام ہے تو وہ ہے او آئی سی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم میں موجود ہر ملک اپنے ذاتی مفادات کی تلاش میں اجتماعی مفادات کی اہمیت کو کھو بیٹھا ہے۔ بہت پہلے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ایک بہت مو¿ثر اور طاقتور پلیٹ فارم ہوا کرتی تھی، جس کا اجلاس ہوتا تو دنیا کے طاقتور ممالک کو کسی بڑے ردعمل کی فکر ہو جاتی۔ تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی اور مغرب اپنی معاندانہ سوچ ، اپنی اوچھی حرکتوں اورخاص طور پر اسرائیل کی حمایت سے کسی حد تک ہاتھ کھینچ لیتا تھا، مگر پھر رفتہ رفتہ سب نے دیکھا کہ او آئی سی ایک بے جان تنظیم بن کر رہ گئی۔ اس کا ثبوت اس کے حالیہ اجلاسوں سے بھی مل جاتاہے۔ جن میں کشمیر، فلسطین جیسے دیگر متنازعہ علاقوں کے بارے میں صرف رسمی بات چیت کی گئی۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ او آئی سی یہ اعلامیہ جاری کرے کہ اسرائیل سے پوری مسلم اُمہ اُس وقت تک بائیکاٹ کرے گی جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا، پھر بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی اسی قسم کا فیصلہ کرے، اور پھر افغانستان کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ تمام اسلامی ممالک افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے مل کر کام کریں گے ، اور جو ملک ان فیصلوں سے پیچھے ہٹے اُس کے ساتھ تجارت ختم کردی جائے اور اُسے تنظیم سے نکال دیا جائے ۔ لیکن افسوس ایسے فیصلے محض خام خیالی ہیں، اس کی فی الوقت توقع بھی نہیں کی جاسکتی !