ہمسایوں کے درمیان تجارت ناگزیر کیوں؟

پاکستانی حکومت خواہ جتنا بھی کہے کہ اُس کی معاشی ترقی کی نمو 5فیصد سے زائد ہے مگر ادارہ شماریات کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں تجارتی خسارہ 20 ارب 59کروڑ ڈالر ہوگیاہے اور 2014ءسے 2020ءکے دوران سمگلنگ میں تین سے چار گنا اضافہ ہوا اور غیر قانونی تجارت 3.8فیصد سے بڑھ کر 11.2فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد 2021ءمیں حکومت کو سمگلنگ کی وجہ سے 500ارب روپے کا ریونیو خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔اور یہ سمگلنگ کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک ایران ، افغانستان، بھارت اور چین کے ساتھ ہورہی ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے تجارت کرے بھی تو کس نہج پر کرے کیوں کہ پاک بھارت تجارت مسئلہ کشمیر اور دونوں ملکوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ ایران کے ساتھ ہماری تجارت امریکی دباﺅ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے حالانکہ ایران بھارت اور چائنہ کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کر رہا ہے لیکن ہماری کمزور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ایران تجارت پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ جبکہ پاک افغان تجارت کی بات کریں تو پاک افغان تجارت تو آسانی سے ہو رہی ہے مگر افغانستان کے پاس پاکستان کو ادائیگی کے لیے مناسب رقم نہیں ہے یعنی طالبان حکومت کے آنے کے بعد وہاں ڈالر کی ریل پیل رک گئی ہے ۔ اور رہی بات چین کی تو چین پاکستان کی تجارت جاری و ساری ہے مگر اُس کا فائدہ براہ راست چین کو ہو رہا ہے۔ کیوں کہ ہم چین کو محض 10فیصد اشیاءفروخت کر پاتے ہیں جبکہ چین ہمیں 90فیصد اشیاءفروخت کرکے اُلٹا ہماری مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا تجارتی خسارہ ہر گزرتے دن بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ اگر دنیا میں ہم تجارت کے کامیاب ماڈلز کا جائزہ لیں تو ہمیں علاقائی تجارت یعنی ریجنل ٹریڈ سب سے کامیاب ماڈل نظر آتا ہے۔ ”نافٹا“جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کا ریجنل بلاک ہے، میں باہمی تجارت 68فیصد ہے۔ یورپی یونین ،جو یورپ کے 27ممالک کا بلاک ہے، کی باہمی تجارت 53فیصد ہے۔ آسیان ممالک (فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ ) کی باہمی تجارت 26فیصد ہے جبکہ ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک کے ریجنل بلاک سارک کی باہمی تجارت صرف 5 فیصد ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا ءخاص طور پر پاک بھارت کی باہمی تجارت شروع سے ہی ایسی تھی ۔ اگر ہم اس حوالے سے تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاک بھارت آزاد ہونے کے بعد تجارت بہترین انداز میں چل رہی تھی، حالانکہ ہماری پہلی جنگ 1948ءمیں ہو ئی ، لیکن ہماری تجارت نہ رکی اور 1948-49میں ہماری 56فیصد ایکسپورٹ انڈیا ہی کو ہوتی تھی ۔ پھر اگلے کئی سال تک پاکستان اور بھارت تجارت کے حوالے سے بڑے پارٹنر کے طور پر جانے جاتے تھے، اور ان 17سالوں(1948-1965) میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 14تجارتی معاہدے ہوئے ۔ اس دوران انڈیا کے بینکوں کی 6برانچیں پاکستان میں کھل چکی تھیں۔ پھر 1965ءمیں ہماری دوبارہ جنگ ہوگئی جس کے بعد 10جنوری 1966ءکو ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان تاشقند (ازبکستان) میں جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا،مذاکرات ہوئے۔ طے پایا کہ دونوں اطراف کی فوجیں اگست سے پہلے والی پوزیشن پر چلی جائیں گی اور سفارتی، تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا، اور دوبارہ تجارت بحال ہوگئی، اُس وقت تجارت کا یہ حجم 6کروڑ روپے تک پہنچا ہی تھا، کہ عوامی سطح پر احتجاج اور 1971ءکی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت محدود ہوگئی اور انڈین بینکوں نے اپنی برانچیں بند کر دیں۔ پھر بھٹو نے پاک بھارت تجارت کا آغا ز کرنا چاہا لیکن وہ مذہبی جماعتوں کے دباﺅ میں آگئے اور ایسا نہ کر سکے، پھر جنرل ضیاءالحق کا دور شروع ہوتا ہے۔ 1980ءکی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع تھا، اس دوران بھی جنرل ضیاءالحق نے 1983ءمیں بھارت کے ساتھ تجارت کھولی ، تب تجارت کا حجم 50کروڑ تک جا پہنچا تھا، لیکن 1989ءمیں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر ایک بار پھر بند کر دی گئی ۔پھر دسمبر 1995ءمیں سارک ممالک، جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، نے جنوبی ایشیائی ترجیحی تجارتی معاہدے (SAPTA) پر دستخط کئے جسکے تحت سارک ممالک کے مابین سینکڑوں مصنوعات کی ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی لیکن جنوبی ایشیاکے دو بڑے ممبر ممالک پاکستان اور بھارت میں کشیدہ سفارتی اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے ایشیائی ریجنل بلاک دیگر ریجنل بلاکس کی طرح باہمی تجارت کو فروغ نہ دے سکا۔ پھر مشرف دور شروع ہوا، تعلقات میں بہتری آئی اور 2003ءمیں تاریخ کی بہترین تجارت دونوں ممالک کے درمیان دیکھنے میں آئی جس کا حجم 35ارب روپے دیکھا گیا اور پھر اگلے 15سال تک پاک بھارت تجارت میں اتار چڑھاﺅ رہا لیکن نواز شریف کے سابقہ دور میں یہ تجارت مثالی ہوگئی ۔ اُن کے دور میں پاکستان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق پاکستان بھارت کو 383 ملین ڈالر کی اشیا برآمد کرتا تھا جس میں کھجور کی برآمد 92 ملین ڈالر، سیمنٹ کی 63 ملین ڈالر اور چمڑے کی بنی اشیا 13.7 ملین ڈالر ہے، جبکہ دوسری جانب پاکستان بھارت سے 1.9 بلین ڈالر کی اشیاءدرآمد کرتا تھا، جس میں پاکستان، بھارت سے 344 ملین ڈالر کی کاٹن درآمد کرتا تھا جو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔لیکن سابق وزیر اعظم پر الزامات لگے کہ انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے لوگوں کو اپنی ملوں میںکام کرنے کیاجازت دے رکھی ہے اور دوسری طرف سنجن جندال کی خفیہ ملاقاتوں اور موصوف کے بھارت میں ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کی خبروں نے پاک بھارت تجارت کو کافی نقصان پہنچایا۔ لہٰذااگست2019ءمیں پلوامہ حملے کے بعد اب تک یہ تجارت مکمل طور پر معطل ہو گئی ، لیکن سنا ہے کہ آج بھی 800/900اشیاءبھارت سے سمگل ہو کر پاکستان پہنچ رہی ہیں، جس سے پاکستان کو شاید کوئی فائدہ نہ ہو مگر مافیا اس سے فائدہ ضرور اُٹھا رہا ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھٹو نے طیش میں آکر شراب پرپابندی لگا دی ، جس کا نقصان یہ ہوا کہ آج ہر گلی محلے میں شراب فروخت ہو رہی ہے مگر حکومت سے چھپ چھپا کر اور اربوں روپے کا فائدہ سمگلنگ کرنے والے اور غیر قانونی فروخت کرنے والوں کو ہو رہا ہے۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ آپ کے حالات جس مرضی نہج پر پہنچ جائیں، تجارت نہیں رکنی چاہیے ۔ حالانکہ اسی خطے کے دو بڑے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کے حالات کس قدر بھی کشید ہ ہوں مگر وہاں تجارت نہیں رکتی۔ بلکہ گزشتہ سال انڈیا اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 100 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے لیکن دونوں طرف سے اس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے، مشرقی لداخ میں سرحدی کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔حالانکہ یہ دوطرفہ تجارت جو 2001 میں 1.83 ارب امریکی ڈالرز تھی وہ گزشتہ سال کے 11 ماہ میں بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے کاروبار کے لیے ایک بڑا موقع ہے کیونکہ دونوں ممالک نے اپنی تجارت کے لیے تعلقات کو بہتر کیا ہے۔پھر چین اور امریکہ عالمی سیاست کے میدان میں کھلے حریف ہیں امریکہ چین کے عالمی افق کی طرف اٹھتے قدموں کو روکنا چاہتا ہے اس کی عالمی برتری کی راہیں کھوٹی کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے اسکا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے بڑی بڑی امریکی کمپنیاں چین میں قائم ہیں امریکہ نے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے چین نے کھربوں ڈالر بطور قرض امریکہ کو دے رکھے ہیں مفادات بھی چل رہے ہیں اور دشمنی بھی نبھائی جا رہی ہے ۔ پھر امریکا میکسیکو کے تعلقات بھی کبھی نارمل نہیں رہے لیکن اُن کے درمیان تجارت کبھی معطل نہیں ہوئی، پھر جرمنی اور فرانس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے، اور یہ نوک جھونک 200سال پرانی ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں کبھی کسی نے نہیں سنا کہ ان دونوں ممالک کی تجارت کبھی معطل ہوئی ہو۔ الغرض سوسو سال تک آپس میں جنگیں لڑنے والے گوروں کو عقل آ گئی تو کیا اس خطہ کے لوگ اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ صدیوں ساتھ رہنے کے باوجود اپنے تنازعات مکالمہ سے طے کرکے ترقی پر فوکس نہ کر سکیں۔دونوں طرف غربت، جہالت، بیروزگاری عروج پر ہے تو کیا ان کروڑہا بدقسمت انسانوں کے نصیب میں یہی کچھ لکھا ہے ؟جدید دنیا کی کوئی جنگ ایسی نہیں جو میدان و آسمان سے نکل کر مذاکرات کی میز اور مکالمہ تک نہ آئی ہو اور یوں بھی محاورتاً نہیں حقیقتاً دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کسی کے بھی وارے میں نہیں اس لئے اس طرح کے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔کتنی احمقانہ بات ہے کہ واہگہ بارڈر کےساتھ پیدا ہونے والی اشیاءوہاں سے ممبئی جائیں،ممبئی سے یو اے ای پہنچیں تو قیمت میں اس خاطر خواہ اضافہ کے بعد ہم انہیں یو اے ای سے امپورٹ کریں۔ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم بھارتی اشیاءامپورٹ کر رہے ہیں، لیکن وہ براستہ دبئی ہمارے پاس آرہی ہیں۔ جس کی قیمت ہم دوگنا ، تین گناادا کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس وقت حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرے ، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ٹیبل پر بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے جو مسائل حل ہوسکتے ہیں، وہ 20سا لہ جنگ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتے جسکی مثال افغانستان ہے۔ آنیوالے وقت میں درپیش چیلنجز کو دیکھتے ہوئے میری وزیراعظم عمران خان ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور تمام اپوزیشن جماعتوں کے لیڈرز سے درخواست ہے کہ وہ قومی مفاد میں پاک بھارت تجارت پر عائد پابندیاں ختم کرائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں دیگر ریجنل بلاکس کی طرح اپنے علاقائی پوٹینشل سے فائدہ اٹھاکر غربت اور بیروزگاری میں کمی لاسکیں۔ #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan