عوام کو کیسے بےو قوف بنایا جاتا ہے!

آپ کو یقینا یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان تقریر کر رہے تھے تو قاسم خان سوری نے خان صاحب کے کان میں ”سرگوشی“ کے انداز میں کہا تھا ”تھوڑا سلامی ٹچ دے دیں“ ساتھ ہی عمران خان نے اپنی تقریر میں آپ اورصحابہؓ کرام کی نسبت سے بات شروع کر دی۔ اور ان کی اگلی لائن کچھ یوں تھی ’میں عاشق رسول ہوں۔۔۔‘اس انداز سے شاید یوں لگا تھا کہ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں نے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں یہ بات سیکھ لی تھی کہ یہاں کے عوام کو وہی سنائیں جو وہ سننا چاہتے ہیں، یا جس کے عادی ہیں۔ ورنہ بھرے جلسے میں سوری صاحب اونچی آواز میں مائیک کے سامنے ”سرگوشی“ کرتے پکڑے نہ جاتے! شاید اُن کے ساتھ ”پہلی چوری تے پہلا پھاہ“ والا حساب ہوگیاہو۔ ورنہ تو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہمیں کبھی جہادی ٹچ دیا گیا، کبھی اسلامی ٹچ، کبھی لبرل ازم کا ٹچ، کبھی سچی جھوٹی ہمدردی کا ٹچ تو کبھی حب الوطنی یا غداری کا ٹچ دیا گیا۔ خیر ماضی کو تو بعد میں کھنگالتے ہیں مگر تازہ تازہ ہمیں جو ”ٹچ“ دیا گیا ہے وہ ہے ”جھوٹی ہمدردی“ کا ٹچ۔ یعنی 15اگست کی رات کو جیسے ہی پٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو عوام جو ایسی خبروں کے پہلے ہی عادی ہو چکے ہیں نے صبر شکر کا کلمہ پڑھ لیا، لیکن زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے مریم نواز صاحبہ کا ٹویٹ نظر سے گزرا جس میں انہوں نے فرمایاکہ نواز شریف تیل کی قیمت بڑھانے کے خلاف تھے اور احتجاجاً اجلاس سے آن لائن واک آﺅٹ کرگئے۔ اس ٹویٹ سے مریم نواز نے چند باتیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، ایک تو وہی پراناکھیل،جو ہمارے سیاستدان بڑے اچھے طریقے سے کھیلتے آئے ہیں۔ اس ٹویٹ سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی نئی پیڑی کو بھی پاکستانی لوگوں کی ذہنیت اور انٹلیکچول اپروچ پر شک ہے کہ یہ سب بیوقوف لوگ ہیں، وہ اس بات پر فوراً یقین کر لیں گے کہ واقعی مریم نواز اور نواز شریف ان کیلئے اس اجلاس میں لڑے کہ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں مت بڑھائیں،لیکن کیا کریں کہ چھوٹے بھائی اور چچا نے ان کی بات مسترد کر دی اور بے چارے باپ بیٹی ان کا منہ تکتے رہ گئے۔ لندن سے اجلاس میں شریک بے بس نواز شریف اور تو کچھ کر نہ سکے، احتجاجاً اس ظلمِ عظیم کے خلاف واک آﺅٹ کر گئے اور ساتھ ہی مریم نواز کو بھی کہہ گئے کہ بیٹا تم ٹویٹ کردینا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے اس گناہ میں ہم باپ بیٹی شریک نہیں۔ مطلب ہماری سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے! مطلب ایسا کرنے سے شاید یہ دکھایا جارہا ہے کہ اگر ن لیگ کا ایک ”حصہ“ ٹھیک کام نہیں کر رہا تو دوسرا حصہ عوام کا مسیحا بننے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بقول شاعر کہتے ہیں تجھ کو لوگ مسیحا مگر یہاں اک شخص مرگیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد پھر اس سے شاید نوازشریف صاحب کی واپسی کی گراﺅنڈ بھی تیار کی جا رہی ہے (واللہ علم)کہ آپ کو بحرانوں سے صرف ایک ہی شخص نکال سکتا ہے!اس بارے میں بھی کیا کہیں، بس افسوس ہی کیا جاسکتا ہے مگر ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، مثلاََپاکستان کی جدید سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پاکستان کا موجودہ آئین تخلیق کیا گیا، جسے 1973 کے آئین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بھٹو اسلامی سوشلزم کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد سوال یہ تھا کہ وہ کیسا آئین بنائیں گے۔وہ اقتدار میں آئے تو ان پر بڑا دباو¿ تھا۔ ان کے بعض طاقت ور ساتھی چاہتے تھے کہ نیا آئین سوشلزم اور سیکولرازم کی بنیاد پر بنایا جائے لیکن انھوں نے اس سب کو نظر انداز کرتے ہوئے آئین کو ایسی بنیادیں فراہم کر دیں جن کی مدد سے قانون سازی میں قرآن و سنت سے انحراف ممکن نہ رہا۔“ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں مذہبی معاملات کو تین حصوں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا آئین سازی میں اسلامی تعلیمات کی کلیدی حیثیت۔ اس کے بعد دوسری آئینی ترمیم۔ اس ترمیم کے ذریعے ایک عوامی تحریک کے مطالبے پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا جبکہ تیسرے کا تعلق اس زمانے سے ہے جب انھوں نے 1977 میں اپنے خلاف چلنے والی تند و تیز عوامی تحریک کو بے اثر بنانے کے لیے شراب اور جوئے پر پابندی کے علاوہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کے دن کرنے کا اعلان کیا تھا۔اُنہوں نے یہ اقدامات خالصتاََ اپنی ذہنی اصطراحت کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں بلکہ عوام کو بے وقوف بنانے یا اپنے اوپر سے دباﺅ ختم کرنے کے لیے کیے تھے۔ جس کے بعد میں نتائج کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ پھر اسی طرح لندن میں 2007ءمیں بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں میثاقِ جمہوریت سائن ہو چکا تھا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کیمپ کے لیڈر یا خود وہ دونوں اداروں یا پرویز مشرف سے خفیہ ملاقاتیں نہیں کریں گے اور اگر پاکستان لوٹ کر ان میں سے کسی کی حکومت آگئی تو وہ خفیہ ملاقاتوں میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر کے حکومتیں نہیں گرائیں گے۔ لیکن اُنہی دنوں بینظیر بھٹو دبئی میں پرویز مشرف اور لندن میں جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کررہی تھیں اور ان سب ملاقاتوں کا علم نواز شریف اور شہباز شریف کو تھا۔ ان دونوں کو ان خفیہ ملاقاتوں میں اپنا فائدہ نظر آرہا تھا کہ بینظیر این آر او لے کر پاکستان جائیں گی تو ان کا راستہ بھی کھلے گا۔ وہ اس وقت ”اچھے“بنے ہوئے تھے کہ ہم مشرف کے خلاف ہیں۔ کوئی این آر او نہیں لیں گے۔ ساری بدنامی پی پی پی کے کھاتے میں جارہی تھی۔ نواز شریف نے کبھی بینظیر بھٹو اور پی پی پی سے احتجاج نہ کیا کہ آپ ہم سے معاہدے پر دستخط کر کے کیوں خفیہ ملاقاتیں کررہی ہیں، کیونکہ شریفوں کو پتا تھا کہ ان کی اپنی جمہوری گڈ وِل بن رہی تھی کہ دیکھا! وہ آمر کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں لیکن بینظیر ڈیل کررہی ہیں۔وہی ہوا جس کی کیلکولیشن شریف برادرز نے کی تھی۔ بینظیر بھٹو واپس آئیں جس پر انہوں نے سعودیوں کے ذریعے مشرف پر دباﺅ ڈلوایا اور نواز شریف بھی سعودیوں کے جہاز پر لاہور پہنچائے گئے اور ساتھ میں کروڑوں کی بلٹ پروف لگژری گاڑی بھی سعودیوں نے تحفے میں دی۔ بدنامی پی پی پی کے حصے میں آئی جبکہ لوٹ کر شہباز شریف دس سال کیلئے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے اور نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم۔ بینظیر بھٹو ماری گئیں، جو یہ ڈیل سب کے لیے کررہی تھیں۔ مشرف اور بینظیر تاریخ میں گم ہوگئے جبکہ شریف خاندان آج بھی حکمرانی کررہا ہے۔پھر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میاں محمد نواز شریف کو دو دو ادوار ملے۔بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک خاص وضع قطع اختیار کی۔ انھوں نے بالکل مشرقی انداز میں سر ڈھانپنا شروع کیا۔ اسی زمانے میں تسبیح بھی ان کے ہاتھ آ گئی۔لیکن بعد میں اُن کے ہاتھ سے یہ سب کچھ چھوٹ بھی گیا! مطلب! ان ساری گیموں کی جب تک سمجھ آتی ہے ان کی جیب کٹ چکی ہوتی ہے اور سیاسی جیب کترے نئی واردات ڈالنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔لہٰذااس وقت عوام کو باشعور ہونا ہوگا، بالکل اسی طرح جس طرح عوام نے مریم نواز کے واک آﺅٹ والے بیان کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا بالکل اسی طرح اگر عوام نے انقلاب لانا ہے تو اُنہیں پہلے باشعور ہونا پڑے گا۔ ورنہ اصل تبدیلی آنے کے بعد بھی کچھ ہاتھ میں نہیں آئے گا، یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے سری لنکا میں ”انقلاب“ آیا ہے۔ سری لنکا کے بحران سے جن لوگوں نے انقلاب کی امید باندھ لی تھی، ان کو مایوسی ہوئی۔ تاریخی اعتبار سے بحران وقتاً فوقتاً انقلاب کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہوئے ہیں مگر صرف بحران سے انقلاب نہیں آ سکتا۔ بحران محض ایک عنصر ہوتا ہے، انقلاب کے لیے منظم انقلابی پارٹی اور شعور کے ہتھیاروں سے لیس عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔ پارٹی عوام کی انقلاب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اس سال موسم گرما میں سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں حکومت کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ملک کے صدر کو جلاوطن ہونا پڑا۔ یہ بغاوت مہینوں چلتی رہی۔ اس دوران عوام کی رہنمائی کرنے والوں نے صدارتی محل پر قبضہ کیا۔ سوئمنگ پول میں تیراکی سے لطف اٹھایا۔ سرکاری باورچی خانے میں کھانا کھایا۔ حکمران اشرافیہ کے پر تعیش بستر اور خواب گاہیں دیکھیں۔ ان میں سے کوئی حرکت بھی انقلابیوں والی نہیں تھی اور ان حرکات سے انقلاب کی امید عبث تھی۔ نہ عوام کو اس طرح منظم کیا گیا اور نہ ہی کوئی ایسی منظم سیاسی قوت ابھر کر سامنے آ سکی جو بحران کی اس کیفیت میں عوام کی درست رہنمائی کر سکتی۔ نئے لوگ اقتدار پر براجمان ہو گئے مگر انہوں نے نہ تو کوئی نیا پروگرام دیا اور نہ ہی کوئی ایسا کام کیا جس سے لگتا کہ وہ پچھلے حکمرانوں سے مختلف ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ سری لنکا کے ان انوکھے انقلابیوں نے پورے جنوبی ایشیا میں حکمران طبقات کے لیے خوف ضرور پیدا کر دیا۔ اس خطے کی حکمران اشرافیہ نے کولمبو میں ہونے والی افراتفری کو دیکھا اور خوف سے سوچا کہ کیا ان کو بھی اس سے ملتے جلتے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ مگر بد قسمتی سے اس خوف کے باوجود حکمران اشرافیہ نے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پورے جنوبی ایشیا میں عوام کا طرزِفکر‘ طرزِ زندگی اور طرزِ حکمرانی ویسے کا ویسے ہی رہا۔ کسی نے اپنے پر تعیش طرزِ زندگی میں کٹوتی کرنے‘ سادگی اختیار کرنے اور عوام کے وسائل میں بچت کے لیے کسی نئی پالیسی کا عندیہ نہیں دیا۔ لہٰذاعوام اب بے وقوف بننے کے بجائے باشعور ہو، اُس کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے، تعلیم آپ کو لاشعور ی سے باشعوری تک کا سفر فراہم کرتی ہے، اوراگر ایسا نہ ہوسکا تو عوام یوں ہی بے وقوف بھی بنتے رہیں گے اور سیاستدان ہمیں یوں ہی اپنے ذاتی مقاصد اور اپنے اقتدار کے لیے استعمال کرتے رہیں گے!