چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، آئین اور سیاست کی کھچڑی!

ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ جب ہم کسی دور سے گزر رہے ہوتے ہیں تو وہ ہم پر قیامت گزر رہا ہوتا ہے، لیکن جب اگلا دور اُس سے بھی برا آتا ہے تو ہم پچھلے دور کو رحمت اور اگلے دور کو زحمت قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے مشرف حکومت کا دور ہمیں برا لگتا تھا لیکن اُس کے بعد پیپلزپارٹی کا دور آیا تو ہمیں مشرف دور Blessingلگنے لگا۔ لیکن پھر اُس کے بعد ن لیگ کی حکومت آئی اور نت نئے ٹیکسز لگے تو ہمیں زرداری صاحب اچھے لگنے لگے۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت آئی اور مہنگائی 25فیصد کراس ہونے لگی تو ہمیں نواز دور اچھا لگنے لگا۔ لیکن پھر انصافی دور کا جیسے ہی خاتمہ کیا گیا اور شہباز حکومت آگئی تو تحریک انصاف کی حکومت ہمیں فرشتہ صفت لگنے لگی۔ یہی حال ہمارے ہاں فوجی حکومتوں کا رہا کہ آپ فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کی مثال لے لیں۔ان کے دور میںملک دولخت ہوگیا۔آغا مدہوش کے طرزحکمرانی اور ذاتی مشاغل کے پیش نظر مورخین کی یہ متفقہ رائے تھی کہ جتنی ذلت و رسوائی جنرل یحییٰ خان کے حصے میں آئی ،کوئی اورحکمران یا سپہ سالار اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔جنرل ضیاالحق تشریف لائے تو اس رائے پر نظر ثانی کرنا پڑی اور مورخ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ جنرل یحییٰ خان جو بھی تھا ،کم ازکم منافق نہیں تھا۔ کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے عنان اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کے پیشرو فوجی حکمران بھلے مانس محسوس ہونے لگے۔ لیکن سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 6سالہ دور میں جوکچھ ہوا ،اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔آپ عدلیہ ہی کی مثال لے لیں، عدلیہ میں بھی کم وبیش اسی طرح کی صورتحال کا سامنا رہا۔مولوی تمیز الدین کے مقدمہ میں جسٹس منیر نے وہ بدنامی سمیٹی کہ نظریہ ضرورت گالی بن گیا۔ہر دور میںاعلیٰ عدلیہ اس نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کا دعویٰ کرتی رہی لیکن یہ گڑا مردہ پھر باہر آجایا کرتا ہے۔تاریخ کے طالب علم سمجھتے تھے کہ جسٹس منیر کوچہ عدل سے جس طرح بے آبرو ہوکر نکلے ،اس طرح کی انگشت نمائی شاید کسی اور قاضی القضا کے حصے میں نہ آئے۔لیکن جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس افتخار چوہدری نے یہ مغالطہ دور کردیا۔لہٰذاہمیں ہر دور ہی نامناسب ملا اور اسی وجہ سے ملک پیچھے کی جانب چلا گیا۔ اب اگر آپ آج رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی بات کریں تو وہ سپریم کورٹ کے 28ویں چیف جسٹس تھے، انہوں نے گزشتہ حکومت کے بے شمار غلط فیصلوں کے آگے بند باندھے رکھے۔ یہ وہی بند تھے جن کا ذکر انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنی پہلی تقریر میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”میاں صاحب (جسٹس ثاقب نثار) نے ایک موقع پر علی الاعلان کہا تھا کہ ان کی زندگی کے دو ہی مقصد ہیں، ڈیم بنانا اور ملکی قرضے اتارنا۔ میں بھی چند ڈیم بنانا چاہوں گا۔ مقدمات کے غیر ضروری التوا کو روکنے کیلئے ڈیم، غیر سنجیدہ مقدمات دائر کرنے کیخلاف ڈیم، جعلی گواہوں اور غلط شہادتوں کیخلاف ڈیم۔ اور میں بھی قرض اتارنے کی کوشش کرونگا، زیر التوا مقدمات کا قرض جنہیں پہلی فرصت میں نمٹایا جانا چاہئے“۔انہوں نے آڈیو لیکس جیسے مقدمات میںدباﺅ کا سامنا کیا، انہوں نے 9مئی جیسے واقعات پر عدالتی دباﺅ کا سامنا کیا، انہوں نے نیب ترامیم کے خلاف کھل کر فیصلے دیے۔ جیسے تادم تحریر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی کئی شقیں کالعدم قرار دے دیں۔انہوں نے نیب کی تمام ختم انکوائریز اور کیسز بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے۔انہوںنے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 شقیں اڑا دیں، 1 برقرار رکھی ہے۔اور تمام کیسز نیب عدالتوں اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قراردے دیے ہیں۔اس فیصلے کے بعد یقینا نوازشریف، شہباز شریف ، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شوکت عزیز سمیت سابقہ ایک صدر اور 6وزرائے اعظم کے مقدمات کھلیں گے۔ یہ فیصلہ یقینا خوش آئند ہے، جرا¿ت مندانہ ہے اور بے باک ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس ”محفوظ فیصلے“ کو چیف جسٹس اگر کچھ دن پہلے سنا دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن دیر آئید درست آئید کے مصداق اب اس فیصلے کے بعد سیاست کا رُخ تبدیل ہو جائے گا۔ ملک میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگا۔ اور الیکشن الیکشن کرنے والی پارٹیاں الیکشن سے دور بھاگیں گی۔ جبکہ مقتدرہ کو بھی نئے سرے سے تمام حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ایک شکوہ ضرور رہے گا کہ اُن کے دور میں سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر یکم جنوری 2022کو سپریم کورٹ میں 41102مقدمات زیر التوا تھے، 15جنوری تک چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 1362مقدمات نمٹا دیئے گئے، یوں زیر التوا مقدمات کی تعداد 39742رہ گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو 38750مقدمات زیر التوا تھے۔ مگر جب وہ رخصت ہوئے تو لگ بھگ 50ہزار مقدمات جمع ہوچکے تھے۔اب جسٹس عمر عطا بندیال جارہے ہیں تو سپریم کورٹ میں تقریباً55ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ اور رہی بات نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تو وہ یقینا بے حد مشکلات کے بعد چیف جسٹس بنے ہیں، اُن کی چیف جسٹس بننے کے راہ میں رکاوٹوں کا اگر ذکر کروں تو قاضی صاحب 2014ءمیں سپریم کورٹ کے جج بنے ۔ انہوں نے نومبر2017کے فیض آباد دھرنا کیس میں دیئے گئے فیصلے پر پنجاب بار کونسل (پی بی بی سی) نے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف مظاہرے شروع کردیے تھے اور مطالبہ کیا تھا کہ عدالتی فیصلے میں مسلح افواج اور ملک کی سب سے بڑی سیکیورٹی ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے خلاف تنقید پر انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔یہ وہی کیس تھا جس کے بارے میں قارئین کو یاد ہو گا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں ہنگامہ کرنے والے گروہ اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا اور اس تحریری معاہدے کے ضامن میجر جنرل فیض حمید تھے۔قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ حکومت ایسے فوجی افسران کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیکر اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔اس فیصلے کے خلاف تحریک انصاف نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی تھی اور بعد میں جنر ل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنا کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔ پھر اسی اثناءمیں اُن کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا گیا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی سے رابطہ کر کے شکوہ کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔جوڈیشل کونسل ملک کا واحد اعلیٰ آئینی فورم ہے جہاں ججز کے خلاف دائر ریفرنسز کی سنوائی ہوتی ہے جبکہ یہی ادارہ ان جج کو ہٹانے کی تجویز پیش کرنے کا مجاز بھی ہے، لیکن یہاں اُن کے خلاف ریفرنس ضائع ہوگیا اور مخالفین کو منہ کی کھانا پڑی لہٰذااگر آپ کی نیت ٹھیک ہے، اور آپ ٹھیک چل رہے ہیں تو پھر قسمت بھی آپ کے ساتھ ہوتی ہے اور غیبی مدد بھی آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ جس کی بدولت وہ اب چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ بے شک وہ (اللہ) جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے(مفہوم آیت مبارکہ) بہرکیف میں اکثر اُن کے بار ے میں کہتا ہوں کہ ن لیگ یہ مت سوچے کہ وہ نواز شریف کی واپسی کے لیے کوئی راہ ہموار کریں گے یا اُنہیں کسی قسم کی معاونت فراہم کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہر دور میں ہر سیاسی جماعت کو ناراض کر چکے ہیں۔ مثلاََبطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر میموگیٹ انکوائری رپورٹ لکھی تو 2012ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت ان سے ناراض ہوگئی۔ 2016ءمیں کوئٹہ میں ایک بم دھماکے میں 75 افراد شہید ہوگئے اس دھماکے کی انکوائری رپورٹ پر مسلم لیگ ن کی حکومت ناراض ہو گئی اور اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پریس کانفرنس میں انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کی۔ 2019ءمیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھا تو تحریک انصاف کی حکومت ناراض ہوگئی اور پھر صدر عارف علوی کے ذریعہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کیا گیا۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مشرف کی 3نومبر والی ایمرجنسی کے بھی انکاری تھے اور پی سی او کے تحت اُنہوں نے حلف نہیں اُٹھایا تھا ۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر 2007 کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیئے جانے کے بعد بلوچستان کے تمام ججز مستعفی ہوگئے تھے اور قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مقرر کردیا گیا تھا۔ لہٰذاقاضی صاحب کے بارے میں بہت اچھی شہرت ہے کہ وہ بہت بولڈ ہیں، اصول پسند ہیں، ڈھکی چھپی بات نہیں کرتے، ضرورت پڑے تو اداروں کو بھی احکامات جاری کرنے سے گریز نہیں کرتے، لیکن اس وقت اُن کے اوپر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں ہیں، وہ یقینا آئین کی پاسداری میں سب سے آگے ہوں گے، وہ یقینا 9مئی کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کریں گے اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کے خلاف کسی کو آلہ کار نہیں بننے دیں گے۔ اور سب سے اہم عدلیہ کے لیے ایسا سسٹم مرتب کریں گے کہ زیر التواءکیسز میں کمی آسکے۔ بادی النظر میں اگر اُن کے ہوتے ہوئے عدلیہ کے زیر التوا کیسز کی تعداد نسبتاََ کم ہوئی تو یہ اُن کی بڑی کامیابی ہوگی۔ ورنہ ایک سال ڈیڑھ ماہ بعد ہم دوبارہ اُنہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوں گے اور ملک مزید پیچھے جا چکا ہوگا!