مسلم لیگ ن سے ”ش “ الگ ہورہی ہے؟

پنجاب ، سندھ اور کے پی اسمبلیوں کے اجلاس ہو چکے، پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں پیپلزپارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتیں بن رہی ہیں جبکہ بلوچستان میں بظاہر پیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل ہے جبکہ مرکز میں آج قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں متوقع طور پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی حکومت بنائیں گی جبکہ تحریک انصاف کے اراکین اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ خیر چوں چوں کے مربع والی یہ اسمبلی کتنی دیر تک چلتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک چیز تو طے ہو چکی کہ یہ اسمبلیاں خاص طور پر قومی اسمبلی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ بلکہ یہ بھی یاد رکھیے گا کہ ان اسمبلیوں سے کسی بھی تعمیری کام کی توقع بھی نہ رکھیے گا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، اس کی بڑی وجہ تو وہی ہے جسے بار بار ڈسکس کیا جاچکا ہے کہ عوام مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا گیا ، اور جس پارٹی کے ساتھ عوام ہیں اُسے جب آپ اپوزیشن میں بٹھا دیں گے تو یہ اسمبلی کتنی دیر تک چل سکتی ہے؟ یا کس قسم کی تعمیری قانون سازی کر سکتی ہے، اس کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتیں ہیں۔ جبکہ اس وقت اسمبلیوں میں شدید بد نظمی کی دوسری بڑی وجہ پاکستان کی دوسری بڑی جماعت ن لیگ کے اندر کی چپقلش ہے۔ جی ہاں! یہ بات میں بڑے دعوے اور تجربے کی بنیاد پر کر رہا ہوں کہ ن لیگ کے اندر بھی اس وقت گروپس بن چکے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ مسلم لیگ ن (مریم نواز +نوازشریف )جبکہ دوسرا گروپ مسلم لیگ ”ش“ گروپ (شہباز شریف +اسلام آباد گروپ) ۔ اور جوچیز ان دنوں محسوس کی گئی ہے، اُس کے مطابق مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ” ش“ الگ ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے اس حوالے سے باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ اندر کی خبریں ہی اکٹھی کی جاسکتی ہیں ، لیکن آنے والے دنوں میں ایسا دونوں گروپوں کی جانب سے اناﺅنس بھی کیا جا سکتا ہے، اور ایک دوسرے پر الزامات کے بعد محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک مریض مر چکا ہوتا ہے، اور ہسپتال والے اُس کا کسی وجہ سے اعلان نہیں کرتے۔ اس وقت مسلم لیگ کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ خیر میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مسلم لیگ ن گروپ میں اکثریت ممبران پنجاب کی ہے جبکہ ”ش “گروپ میں ایم این ایز کی تعداد زیادہ ہے، جن میں اکثریت شہباز شریف کی سپورٹر ہے۔لہٰذایہاں یہ بات بھی نوٹ فرما لیں کہ اس وقت بہت سے اراکین اسمبلی (پنجاب و مرکز) ناراض ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ ہاتھ کیا گیا ہے، اُس میں مسلم لیگ ش کا بڑا ہاتھ ہے۔ کہ اُنہیں پاکستان واپس بلا کر وزارت عظمیٰ نہیں دی جا رہی ۔ یعنی اُنہیں کیوں بلایا گیا؟ اور پھر اُنہیں پاکستان بلا کر اُن کی تذلیل کیوں کی گئی؟ بلکہ اب تو یہ الزام لگ رہے ہیں کہ یہ سارا ڈرامہ مسلم لیگ ش نے کھڑا کیا۔ کہ سب سے پہلے نواز شریف کو پاکستان بلایا گیا، پھراُن سے الیکشن مہم کروائی گئی۔ اور موصوف اقتدار اُنہیں سونپنے کے بجائے خود بیٹھ گئے(حالانکہ اُن کی 16ماہ کی کارکردگی کو کون نہیں جانتا؟۔الغرض کہ یہ بہت بڑی گیم کھیلی گئی ہے، اور نوازشریف سمیت سب پارٹیوں کو اُن کی ”اوقات“ میں رکھا گیا ہے؟ چلیں آپ میری اس بات سے شاید اتفاق نا کریں لیکن کیا میں یہ سوال کرسکتا ہوں کہ ن لیگ کو جو ووٹ ملا کیا وہ نواز شریف کا ووٹ نہیں تھا؟ جی ہاں ! بالکل نواز شریف کا ووٹ تھا۔ لیکن اُنہیں طریقے سے سائیڈ لائن کر دیا گیا۔اور ایسا کرنے والے یقینا اسلام آباد گروپ والے ہی ہوں گے، جو نواز شریف کو اقتدار میں نہیں بلکہ شہباز شریف کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ شہباز صاحب آئی ایم ایف سمیت مقتدرہ کی باتیں من و عن اور بغیر چون و چرا تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔ لہٰذااس وقت مسلم لیگ ن گروپ کو 2بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، ایک آپس کے خاندانی و پارٹی اختلافات جبکہ دوسرا پی ٹی آئی کا چیلنج۔ لہٰذانواز شریف کے لیے تو بقول شاعر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے خیر اب آتے ہیں پنجاب اسمبلی کی طرف کہ وہاں پر پارٹیز کی کیاصورتحال ہے تو میں بذات خود گزشتہ ایک ہفتے سے پنجاب اسمبلی کی کارروائیوں کا بغور جائزہ لیتا رہا۔ اور بسا اوقات اسمبلی میں خود بھی موجود رہا۔ اسے آپ یوں بھی کہہ لیں کہ میں رپورٹنگ کے دنوں میں پنجاب اسمبلی کی بیٹ بھی کرتا رہا ہوں لیکن ایک عرصے بعد دوستوں کے اسرار پر پنجاب اسمبلی پہنچا تو وہاں کے حالات مختلف نظر آئے ، مثلاََ جو چیزیں بظاہر نظر آرہی ہوتی ہیں، حالات اُن سے مختلف نظر آئے۔ اور جوباتیں میں نے آپ سے اوپر کی ہیں اُنہیں میں نے بذات خود پنجاب اسمبلی میں محسوس بھی کیا۔ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کا مورال بہت ڈاﺅن تھا، جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے اراکین کا مورال بہت بلند تھا۔ میں ایک دوست ممبران اسمبلی سے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش بھی کی مگر وہ ٹال مٹول کرتے اور باتوں کو ہنسی میں اُڑاتے نظر آئے۔ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت موجودہ صورتحال میں ن لیگ گروپ، ”ش“ گروپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سخت ڈرتے ہیں، جبکہ ش گروپ ن لیگ گروپ کے بارے میں کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کررہا ہے۔ لیکن اندر کھاتے یہ دونوں گروپس ایک دوسرے پر سخت قسم کا کیچڑ بھی اُچھا رہے ہیں۔ یعنی ش گروپ نے ن لیگ گروپ پر سخت قسم کے الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں مریم نواز کی قریبی اور معتبر ساتھی فرح گوگی پارٹ 2بننے جا رہی ہے۔ اُس پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اُس نے نارووال کی ایک خاتون اُمیدوار سے ٹکٹ کی مد میں 2کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔ اور یہ الزام پی ٹی آئی نہیں بلکہ ن لیگ کا ہی ”ش“ گروپ لگا رہا ہے! لہٰذااگر حالات ایسے رہے اور مریم نواز یا نواز شریف اس پراپیگنڈے کو روک نہ سکے یا اُن اراکین کے خلاف کارروائی نہ کر سکے، جن پر الزامات لگتے ہیں تو ایمانداری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ جلد ہی ن لیگ اور ش گروپ کے راستے جدا ہوجائیں گے اور پھر بادی النظر میں ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم ن گروپ اور عمران خان ایک ہی پلیٹ فارم سے اگلا الیکشن لڑتے نظر آئیں ۔ کیوں کہ ان دونوں گروپوں کا مقصد صاف اور واضح ہوگا۔ خیر یہ بات جلد یا بدیر سامنے آجائے گی یا یوں کہہ لیں کہ نہیں یقین تو آنے والے چند دنوں میں جب کابینہ تشکیل دی جائے گی تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔ کہ جب یہ آپس میں دست و گریباں ہوں گے۔ لیکن یہاں ایک مثبت بات یہ بھی ہے کہ پنجاب سے ملک احمد خان ا سپیکرپنجاب اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں، جبکہ دوسری طرف اپوزیشن لیڈر رانا آفتاب جن کا تعلق پنجاب سے ہے، لگتا ہے کہ پنجاب کے حالات مرکز سے بہتر ہوں گے، کیوں کہ مجھے اُمید ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز، ملک احمد خان اور اُن کی ٹیم بہتر گورنمنٹ چلانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ رہاہوں کہ ملک احمد خان بہت زیادہ تحمل مزاج ہیں، پڑھے لکھے ہیں، اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے سیاستدان ہیں۔ جبکہ دوسری جانب رانا آفتاب خاندانی سیاستدان ہیں، وہ بھی اضافی مسائل پیدا کرنے والی شخصیت نہیں ہیں۔ ہاں ان میں ایک اور بھی شخصیت شامل ہے، اور وہ ہے تحریک انصاف کے عامر ڈوگر، جن کے حوالے پنجاب کے سیاسی اُمور کیے گئے ہیں۔ وہ بھی بہت قابل احترام سمجھے جاتے ہیں، بہت مثبت شخصیت بھی ہیں۔ بلکہ سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی سبطین نے اسمبلی میں یہ بات بتائی تھی کہ عامر ڈوگر، ملک احمد خان اور اُن کی میٹنگ ہوئی ہے، اور انہوں نے پنجاب اسمبلی کو مثبت انداز میں چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پنجاب اسمبلی مرکز سے بہتر پرفارم کر ے گی۔ لہٰذااگر مریم نوازکے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی سیٹ قطعاََ پھولوں کی سیج نہیں ہے، اُنہیں اس بات کا اندازہ یہیں سے لگا لینا چاہیے کہ اُن کی ایک چھوٹی سی غلطی جیسے عظمیٰ کاردار سے گلے ملنے کے حوالے سے جو ویڈیو وائرل ہوئی، اُس میں اُن کا قصورتھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے ، مگر پراپیگنڈہ کرنے والے اُن پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں، اس لیے اگر وہ چاہتی ہیں کہ پنجاب میں بہترین ڈلیور کیا جائے تو یہی اُمید کی جا سکتی ہے، کہ وہ انتقامی سیاست کے بجائے مثبت سیاست کریں۔ نہ کسی سیاستدان پر جھوٹے مقدمات بنائیں اور نہ ہی کسی کے لیے مسائل پیدا کریں ،بلکہ وہ کوشش کرکے مقتدرہ اور سیاستدانوں کے درمیان نیامیثاق جمہوریت دستخط کروائیں۔ کیوںکہ سیاست میں میثاق جمہوریت تو عام سی بات ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے 2006ءمیں نوازشریف اور بے نظیر کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا تھا۔ ایسا کرنے سے اُن کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جو ایم پی ایز ، جیل میں ہیں، اُن کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جائیں، اُنہیں اسمبلیوں میں بلایا جائے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اُنہوں نے خود بھی اتنی تکالیف ، صعوبتیں برداشت کی ہیں؟ انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ جیل کے مسائل کیا ہوتے ہیں ۔ لہذااُن کے ایسا کرنے سے یقینا تعمیری سیاست کو فروغ ملے گا۔ اور پنجاب کے 13کروڑ عوام سکھ کا سانس لیں گے۔