بلدیاتی ادارے فعال ہوتے تو اتنی تباہی نہ ہوتی!

ایسا نہیں ہے کہ سیلابی پانی میڈیا سے غائب ہوگیا تو لوگوں کی مشکلات ختم ہوگئیں، لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے، اور اب دوبارہ برسر روز گار ہوگئے ہوں گے۔ ظاہر ہے بات Prioritiesکی ہوتی ہے، میڈیا کے پاس بیچنے کے لیے اور بہت کچھ ہے، اس لیے وہ وہی بیچتا ہے جو لوگ خریدنا چاہتے ہیں، اور لوگ اس وقت پہلے نمبر پر کرکٹ ”خرید“ رہے ہیں، دوسرے نمبر پر عمران خان اور ”بڑوں“ کی لڑائیاں خرید رہے ہیں اور تیسرے نمبر پر سیلاب زدگان کی پریشانیاں خرید رہے ہیں۔ نہیں یقین تو کوئی بھی ٹی وی چینل لگائیں اور آپ کو ہمارے میڈیا کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ بھی ہو جائے گا۔ لیکن دوسری جانب این ڈی ایم اے اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ سیلاب زدگان کے لیے مصیبت تو اب شروع ہوئی ہے۔ کیوں کہ بعض جگہوں سے پانی اترنا شروع ہوگیا ہے اور بعض جگہیں تو ابھی بھی بڑی بڑی جھیلوں اور تالابوں کا منظر پیش کر رہی ہیں، جس میں مچھر، مکھیاں اور دیگر حشرات پیدا ہو رہے ہیں، جن کے درمیان تین کروڑ سے زائد افراد بے سر و سامان لکڑیوں کے ساتھ چادریں لٹکا کر بیٹھے ہیں۔ خطرہ ہے کہ انہیں ابھی کئی قسم کی بیماریوں، بھوک اور بے روزگاری نے آگھیرنا ہے۔ اور تو اور ان تین کروڑ افراد میں سے عورتوں اور بچوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین کو زچگی اور بچے کی پیدائش سے متعلق میڈیکل سروسز کی ضرورت ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں اسی مہینے تہتر ہزار کے قریب عورتیں بچوں کو جنم دینے والی ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ان افراد کی مدد کو پاکستانی نہیں جا رہے بلکہ ابھی بھی شہر شہر عطیات، کپڑے اوراشیائے خوردنی اکٹھی کی جارہی ہیں۔ پک اَپ اور ٹرک امدادی سامان لے کر متاثرہ علاقوں تک پہنچ رہے ہیں۔ بڑی چھوٹی، قومی، علاقائی فلاحی تنظیموں کے خیموں میں بسکٹوں، پانی کی بوتلوں، مختلف کھانے پینے کی چیزوں کے، آٹے کے تھیلوں، دالوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کام حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک بھی بڑی بڑی آفتوں، المیوں سے گزرتے ہیں لیکن وہاں مقامی حکومتیں بہترین کام کرتی ہیں۔ تو کیا اس وقت وطن عزیز میں بلدیاتی اداروں کی ضرورت نہیں تھی؟ کیا ایسے افراد کی ضرورت نہیں تھی جو مقامی طور پر لوگوں کو ریسکیو کرتے؟ اُن کے لیے پیشگی اقدامات کرتے ۔آپ قریبی اضلاع کو چھوڑیں بلکہ اُن علاقوں کے بارے میں سوچیں جہاں ابھی تک زمینی رابطہ نہیں ہو پارہا، جہاں ابھی تک کسی قسم کی امداد نہیں پہنچی۔ چلیں یہ سب کچھ بھی چھوڑیں! فرض کر لیں کہ آپ اور میں سیلاب زدگان میں شامل ہیں، ہمیں آفتوں نے آن گھیرا ہے، گندم ،چاول، جانور اور اشیائے ضروری سب کچھ پانی بہا کر لے گیا ہے، تو ایسے میں آپ اور میں کیا کریں گے؟ آسمان کی طرف دیکھیں گے؟ اپنے بچوں اور بچے کھچے خاندان کے بچاﺅ کی تراکیب لڑائیں گے۔ اپنے علاقے سے پیدل کسی ایسی جگہ نکل پڑیں گے جہاں آپ کو کم از کم پینے کے لیے پانی اور دو وقت کی روٹی میسر آسکے۔ اور پھر کوشش کریں گے کہ آپ کی عورتوں کی عزت اور بچوں کی زندگی محفوظ رہے، وہ کہیں بیمار نہ ہوجائیں۔ اور پھر آپ کے نظروں کے سامنے وہ لوگ بھی آرہے ہوں جن کے جگر کے ٹکڑوں کو پانی کا بے رحم ریلا بہا کر لے گیا۔ وہ باپ بھی دیکھے ہوں گے جن کے بڑھاپے کے سہارے سیلاب کی نذر ہوگئے۔ وہ بہنیں بھی دیکھی ہوں گی جو کھلے آسمان تلے سڑک کنارے اپنے بھائیوں کا انتظار کررہی ہیں۔ الغرض لاکھوں خاندانوں کی بے بسی بھی آپ کی نظروں کے سامنے ہوگی۔تو آپ ایسی صورتحال میں پھوٹ پھوٹ کر نہیں روئیں گے تو اور کیا کریں گے؟ بس یہی حال میرے اُن تباہ حال پاکستانیوں کا بھی ہے جو اس سیلاب سے برباد ہو چکے ہیں۔ خیر میں تو چاہتا ہوں کہ خدا اس ملک کو کبھی امتحان میں نہ ڈالے، کیوں کہ یہ ملک ایسے المیوں سے گزرا ہے کہ یہاں کے عوام کا حکومتوں۔اداروں۔ حکمرانوں سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ نسل در نسل طعن و تشنیع۔ طنز۔ گلے شکوﺅں کا تمدن منتقل ہورہا ہے۔اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ بلدیاتی ادارے ہوتے تو شاید اتنا نقصان بھی نہ ہوتا،سیلاب سے قبل بھی وہ متحرک ہوتے۔ اپنے علاقے کے کمزور بندوں کا انہیں پتہ ہوتا۔ پہلے تو وہ سیلابی یلغار سے اپنی یونین۔ اپنی میونسپل کمیٹی۔ اپنی ڈسٹرکٹ کونسل۔ اپنی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو محفوظ رکھنے کے انتظامات کرتے۔ ان کا آبادی سے بہت نچلی سطح پر رابطہ ہوتا ہے۔ عوام کی ان تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ ایم این اے تو اسلام آباد کے فیڈرل لاجز میں خاندانوں سمیت متمکن ہوتے ہیں۔ ایم پی اے صوبائی دارالحکومت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ جمہوری ڈھانچے کی ایک ناگزیر کڑی ہیں۔ پنجاب حکومت کے بحران کے دنوں میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ عظیم جملہ بار بار سننے میں آیا کہ اتنے بڑے صوبے کو حکمرانی کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔ اسی طرح یہ بھی برحق ہے کہ جب 22 کروڑ آبادی میں نچلی سطح کے اس جمہوری بندوبست کا خلا چھوڑ دیا جائے گا تو پورا معاشرتی ڈھانچہ متاثر ہوگا۔ اور ہورہا ہے۔ بلدیاتی ادارے ہوتے تو موسمیاتی تبدیلیوں کی خبرداری کے بعد ہر یونین کونسل اور کمیٹی کے کونسلر اپنے کمزورمقامات کو مضبوط کرتے۔ بیوروکریسی سے زیادہ فعال ہوتے۔ ہر اسسٹنٹ کمشنر مخلص نہیں ہوتا اور جب انخلا کا وقت آتا تب بھی کونسلر مددگار ہوتے۔خیر اب پچھتائے کیا جب چگ گئیں چڑیاں کھیت لیکن یہ ساری حقیقت ایک طرف مگر آپ اس حوالے سے مزید پشیمان و حیران بھی ہوں کہ ہمارے ایم این اے، ایم پی ایز اور وزراءکبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ ادارے فعال ہوں۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے فنڈز کا نصف سے زائد حصہ نچلی سطح پر منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ سیاستدان اپنے ایک کلو گوشت کے لیے پوری بھینس حلال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں اکثر اپنے کالموں میں سندھ کی مثال ضرور دیتا ہوں کیوں کہ وہاں 14سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، یہ پارٹی جمہوریت کی بڑی دعویدار ہے۔ اٹھارویں ترمیم کا سہرا اپنے سر سجواتی ہے جس کے تحت اختیارات کو وفاق سے چھین کر نچلی سطح تک منتقل کرنے کا دعویٰ کیا گیا مگر کیا مجال کہ پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدار کے دوران کبھی بھی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروائے ہوں۔ جو نام نہاد بلدیاتی ادارے موجود ہیں ان کو اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کے پاس بجٹ نہ وسائل۔ ایسی بد نظمی میں جو کچھ ہونا چاہیے وہی سندھ اور اس کے عوام کے ساتھ ہورہا ہے۔ جبکہ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں جب جب پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت نہیں تھی تب ہی بلدیاتی ادارے بھی فعال تھے اور کام کرتے تھے۔ بہرکیف اس تلخ حقیقت کو پلے باندھنا ہوگا کہ سیلاب اب کبھی کبھار نہیں بلکہ مسلسل آتے رہیں گے بلکہ ہر سال آئیں گے۔ سرما میں ایسی طوفانی برفباری ہوگی لوگ سائبیریا کے برفانی طوفانوں کو بھول جائیں گے۔ گلوبل وارمنگ کی بدولت گلیشیئر پگھلیں گے۔ نئی نئی جھیلیں وجود پائیں گی۔گلیشیئر پگھلنے سے سیلاب آئیں گے۔ دریائے سندھ کے گردونواح میں پائی جانے والی آبادیوں اور شہروں کے انفرسٹرکچر کومسلسل خطرات لاحق ہوں گے۔ گلگت بلتستان اور نیلم ویلی کی بلند وبالا چوٹیوں پر منجمد برف ہیٹ ویو کی وجہ سے طوفان برپاکرے گی۔ گزشتہ چند سالوں میں خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں کئی جھیلیں بنی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر آبادیوں کی آبادیوں کو بہا کرلے جاسکتی ہیں۔ سیلاب کے علاوہ ملک کو جن مسائل کا تسلسل کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا، ان میں کم بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی قحط سالی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوگا۔ علاوہ ازیں سیلاب اور قحط کی وجہ سے دیہاتوں کے دیہات اور شہروں کے شہر نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔ کراچی جیسا عظیم شہر نالائق صوبائی حکومت اور ناکارہ بلدیاتی نظام کی وجہ سے دنیا کے گندے ترین شہروں میں اپنا نام پہلے ہی رقم کراچکا ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ان کرپٹ سیاستدانوں کو صرف قانون سازی کے لیے استعمال کیا جائے اور ترقیاتی کاموں کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے ، یعنی با اختیار بلدیاتی ادارے قائم کیے جائیں۔ایسا کرنے سے ایک تو نئی لیڈر شپ اُبھر کر سامنے آئے گی اور دوسرا عوام بھی اپنے علاقوں کو بہتر بنانے میں دلچسپی دکھائے گی۔کیوں کہ آج میڈیا کے دور میںہمارے عوام اتنے با شعور ہیں کہ ہم اگر انہیں بنیادی سطح پر اختیارات دے دیں تو وہ اپنے شہروں، گاﺅں، قصبوں کو آسانیاں خود فراہم کرسکتے ہیں۔ بلدیاتی نظام بھی جمہوری ڈھانچے کا ناگزیر اور لازمی جزو ہے۔ وفاق اور صوبوں کو بہت سے مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔ اگر وہ بلدیاتی اداروں کے چھینے گئے اختیارات واپس کرکے انہیں مضبوط بنیادوں پر قائم کردیں۔پانی کو ذخیرہ کرنے، پانی کے نکاس اور شہروں کی منصوبہ بندی جیسے معاملات سے بلدیاتی نظام کے حوالے کردیں جس میںصوبائی اور وفاقی حکومتوں کو دخل اندازی کی اجازت نہ ہو۔ یہ برطانوی طرز کا نظام ہوگا جو بہترین بھی ہے اور آسان بھی۔اگر یہ نہیں تو آپ آبادی کے لحاظ سے ملک کے کم از کم 15صوبے بنا دیں۔ اور ہر صوبے کے درمیان مقابلے کی فضاءقائم کردیں۔ ایسا کرنے سے چھوٹے یونٹ کو سنبھالنا ناصرف آسان ہوتا ہے بلکہ فنڈز کی تقسیم میں بھی کرپشن کے کم ہونے کے چانسز ہوتے ہیں۔ لیکن جو بھی کرنا ہے کردیں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا!