جدید دنیا: نسلی تعصب ابھی موجود ہے!

برطانیہ کے شہر ویمبلے کے تاریخی گراو¿نڈ پر اتوار کو یوروکپ فائنل 2020ءکھیلا گیا، یہ ٹورنامنٹ کورونا کی وجہ سے ایک سال تاخیر کا شکار ہوا۔ ویسے تو میں نے پورے یورو کپ کے ایک دو میچز کے علاوہ کوئی میچ پورا نہیں دیکھا، لیکن فائنل انگلینڈ اور اٹلی جیسی روایتی حریف ٹیموں کے درمیان تھا اور انگلینڈ نے55سال بعد فاتح بننا تھا اس لیے مجھے بھی میچ کا شدت سے انتظار تھا،میچ شروع ہوا، ڈھائی تین گھنٹے کے سنسنسی خیز میچ نے واقعتا چینل تبدیل نہیں کرنے دیا۔ میچ دونوں ہاف سمیت اضافی وقت میں بھی برابر رہا، جس کے بعد فیصلہ پینلٹی ککس پر ہوا۔ اور اٹلی نے انگلینڈ کو پینلٹی شوٹ آو¿ٹ پر تین کے مقابلے میں دو گول سے ہرا کر یورپی فٹبال چیمپیئن شپ جیت لی۔یہ میچ درحقیقت پنلٹی ککس کے مس ہو جانے کی وجہ سے انگلینڈ نے ہارا تھا، انگلینڈ کی جانب سے تین پینلٹیز پر سکور کرنے میں ناکام ہونے والے کھلاڑیوں میں مارکس ریشفورڈ، جیڈون سانچو اور بوکایو ساکا شامل تھے اور تینوں سیاہ فام ہیں۔ لہٰذا کھیل کو کھیل سمجھنے کے بجائے ”جدید دنیا“ میں ان سیاہ فام کھلاڑیوں کے خلاف ایسا طوفان بدتمیزی شروع ہوا کہ ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ان فٹبالرز کے خلاف ایسے ایسے جملے کہے گئے جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ خیر میچ تو ختم ہوگیا، مگر یہ میچ ذہن میں کئی سوال چھوڑ گیا کہ تماشائیوں کی جانب سے اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کی جانب سے جس طرح کا سیاہ فام افراد کا مذاق بنایا گیا کیا جدید دنیا میں یہ سب کچھ جائز ہے؟ اور کیا پڑھی لکھی اقوام کے دلوں سے بھی کالوں کے خلاف نفرت کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ پھر ذہن میں آیا کہ آخر کیوں لاکھ کوششوں کے باوجود مغربی دنیا نسل پرستی کا خاتمہ نہیں کر سکی۔ یعنی یہ اقوام اپنے اندر یہ احساس ہی پیدا نہیں کر سکیں کہ اس دائرے سے اُنہوں نے کیسے نکلنا ہے؟ کیوں کہ یہ جدید دنیا آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں ہزار سال پہلے کھڑی تھی۔ مثلاََ 1940 ءمیں ڈاکٹر کینتھ نے بچوں پر ایک تجربہ کیا جس میں سیاہ فام بچوں کو سیاہ اور سفید گڑیاو¿ں میں سے انتخاب کرنا تھا۔ زیادہ بچوں نے سفید گڑیا کو پسند کیا۔ پھر 75سال بعد 2015 ءمیں یہی تجربہ دونوں نسل کے بچوں پر دہرایا گیا اور نتائج وہی رہے۔ گویا 75 سالوں میں لا شعوری نسل پرستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔اور پھر کھیلوں میں تو یہ بات عام سی ہوگئی ہے، کہ معروف ٹینس سٹار سیرینا ولیم پرکھیل کے دوران تماشائیوں کی جانب سے جب نسلی حملے جاری تھے تو انہوں نے غصے سے ریفری کو چور کہہ دیا جس پر اس کو باقاعدہ تحریری سرزنش کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سفید فام جان مکینرو جو مونہہ پھٹ مشہور تھے، کھیل کے دوران اس سے بڑی بڑی بدتمیزیاں کر جاتے تھے مگر ان کو کبھی کچھ نہ کہا گیا۔ اس بات کا اعتراف خود مکینرو نے بھی میڈیا کے سامنے کیا۔ پھر سب کو یاد ہو گا کہ امریکا میں گزشتہ سال جارج فلائیڈ کو ”بلیک“ ہونے کی وجہ سے مار دیا گیا، جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل سے کم از کم وقتی طور پر سہی، یہ تا ثر مضبوط ہوا ہے کہ امریکی آئین کی لاکھ گارنٹیوں اور امریکہ کلر بلائینڈ جیسے دلربانعروں کے باوجودغیر سفید فام افرادبالخصوص کالوں کی نہ تو زندگی اور آزادی کی کوئی عملی ضمانت ہے نہ ہی خوشی کا حصول ان کے لیے اتنا سہل ہے جتنا کسی سفید فام کے لیے ہو سکتا ہے۔ البتہ امریکی معاشرے میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد امریکا میں کالوں کے حقوق کے حوالے سے کچھ بہتری نظر آئی ہے لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لہٰذایہ کیوں نہیں ذہنوں سے نکل پا رہی اور کیوں تمام اقوام برابری کی بات نہیں کرتیں؟ اس بحث میں جانے سے پہلے ہم ”نسل پرستی“ کی تعریف و تفصیل میں جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہر ”ڈکشنری“ نے اپنے اپنے انداز میں تعریف کر رکھی ہے، جیسے نسل پرستی، ایک نظریہ ہے جس میں سمجھا جاتا ہے کہ کوئی انسانی نسل جینیاتی یا موروثی طور پر ممتاز یا کمتر ہے۔ نسل پرستی کسی ایک انسانی نسل کی کسی دوسری نسل یا انسانی گروہ پر فوقیت یا احساس برتری کو کہا جاتا ہے۔ نسل پرستی نسلی امتیار کو پیدا کرتی ہے۔ نسل پرستی چند افراد کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر کسی سماج یا ملک میں بھی ہو سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر نسل پرستی ہو تو کسی ایک نسلی گروہ یا آبادی کا دوسری نسل انسانی کے گروہ پر نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے۔ ماضی میں اس کی مثال امریکا اور جنوبی افریقہ ہیں۔ وہاں سیاہ فاموں کو کم تر سمجھا جاتا تھا۔ ان کے لیے علیحدہ عبادت گاہیں اور سکول وغیرہ تھے۔ امریکا میں دوران سفر اگر کوئی سفید فام بس میں سوار ہوتا تو سیاہ فام کے لیے لازم تھا کہ وہ اس کے لیے نشست خالی کرے۔ اور پھر یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نسل پرستی کی 7قسم کی اقسام موجود ہیں جیسے ادارہ جاتی نسل پرستی، ثقافتی نسل پرستی، حیاتیاتی نسل پرستی، جلد کے رنگ پر مبنی نسل پرستی، رنگینیت، زینوفوبیا اور دقیانوسی نسل پرستی۔ لہٰذااگر اتنی تعداد اور اقسام نسل پرستی کی موجود ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ آپ اسے معاشرے میں ختم کر سکیں۔ اور پھر امریکا و یورپ جیسے ملکوں میں تو پہلے ہی سیاہ فام افراد کو بطور غلام لایا جاتا رہا ہے۔ یعنی نسلی امتیاز کی وجہ سے جنوبی افریقہ اور امریکا میں سیاہ فام آبادی سے غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ نسل پرستی کی بنیاد پر ہونے والا امتیاز انسانی حقوق کی نفی ہے۔ نسل پرستی اور گروہی امتیاز دونوں مجموعی طور پر معاشرتی مسائل ہیں اور ان کی نوعیت ایک جیسی ہے۔انسان جینیاتی لحاظ سے مختلف نسلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مثلاً سیاہ فام اور منگول نسل۔ ان کی ظاہری شکل و صورت اور جسمانی ساخت میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر سیاہ فاموں کے بال گھنگریالے جبکہ منگولوں کے سیدھے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں اسی ظاہری فرق کو ہی امتیاز اور نفرت کی بنیاد بنا لیا جاتا تھا۔ لیکن اس امتیاز سے مفادات بھی وابستہ رہے۔ امریکا میں جب سیاہ فام غلاموں کو افریقہ سے پکڑ کر لایا جاتا تو ان سے کم و بیش جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا۔ کھیتوں میں ان سے بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ ایسے سلوک کے جواز کے لیے کسی ”نظریے“ کی ضرورت تھی اور یہ ”نظریہ“ نسل پرستی سے اخذ ہوتا تھا۔ سفید فام یہ سمجھتے تھے کہ وہ اعلیٰ اور افضل ہیں جبکہ سیاہ فام پوری طرح انسان نہیں اس لیے انہیں آقا بننے کا پورا حق حاصل ہے۔ بس یہی تعصب آج بھی پبلک مقامات پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ کرکٹ، ٹینس، فٹ بال اور اولمپک جیسی گیموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی عموماََ کی جا تی ہے کہ 90فیصد سٹریٹ کرائم سیاہ فام حضرات ہی کرتے ہیں، تعلیم میں بھی ان کی دلچسپی برائے نام ہے، مثلاََ امریکا کی جامعات میں 100میں سے 6افراد سیاہ فام ہوتے ہیں ، بڑی بڑی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھنے والے افراد کی تعداد میں سیاہ فام افراد کی تعداد 5فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ الغرض جب یہ صورتحال ہو تو جدید دنیا میں سیاہ فام کو پیچھے رکھنا ، اُنہیں آج بھی ذہنوں میں غلام بنائے رکھنا اور اُن کے ساتھ اس طرح کا غیرہ مناسب رویہ رکھنا یقینا جدید دنیا کے شایان شان نہیں ہے بقول شاعر اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے بہرکیف اگر ہم اسی تناظر میں اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم نفرت اور تعصبات کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں۔ امریکہ و یورپ میں تو انسان گورے اور کالے میں ہی تقسیم ہیں جبکہ ہمارے یہاں تو یہ تقسیم کثیرالجہتی ہے۔کہیں امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم تو کہیں مذہب اور فرقوں کا بٹوارہ، کہیں برادریوں کی اونچ نیچ او رکہیں اقلیتوں کے ساتھ ہمارا حسن سلوک سب ہمارے ہی معاشرے کا نا قابل تردید حصہ ہیں۔ امیر غریب کی تقسیم تو یقینا ًمغرب میں بھی پائی جاتی ہے لیکن فلاحی ریاستیں اپنے غریب کو لاوارث نہیں چھوڑتیں اور مشکل پڑنے پر مثلاً بیمار ی کی صورت میں غریب کو بھی ویسا ہی علاج اور دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں جیسی امیر کو۔ ذات برادری کی بنیاد پر تعصب بھی ہمارا ہی طرہءامتیاز ہے کہ راجپوت، جٹ اور گجر ہونا تو پیدائشی عزت و وقار کا حقدارجبکہ دیگر برادریاں، خاص کرہاتھ سے کام کرنے والی برادریاں، کمتر، بے وقار اور کمی کمین!۔تعصب کا یہ کھیل برادریوں تک ہی محدود نہیں، ہماری اقلیتیں بھی مستقل ہماری نفرت کا شکار چلی آ تی ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہمارا ہی گند صاف کرنے والوں کو ”چوڑا“ کہنا چہ معنی دارد۔ کیا یہ نسلی تعصب کی بدترین مثال نہیں ہے؟کیا ہمارا قانون اقلیتوں کو اس حوالے سے کوئی تحفظ فراہم کرتا ہے؟ جب ہمارا مذہب انسانوں کے درمیان تفریق رکھنے کا روا دار نہیں تو قانون میں یہ سقم کیوں؟ اور تو اور ہم تو کالی رنگت والی لڑکی کو اپنی بہو بنانا پسند نہیں کرتے۔ یہ نسلی تعصب نہیں تو کیا ہے؟ ہلکی سی جنبش پر پورا یورپ و امریکہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اپنے زندہ اور باضمیر ہونے کا اعلان کرتا ہے جبکہ یہاں پوری جوزف کالونی کو خاکستر کرنے اور کوٹ رادھا کشن میں لاشوں کے گلے میں رسیاں ڈال کر گھسیٹنے پر بھی ہمارے ضمیر کو خراش تک نہیں آتی اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے خلاف ایک آواز سنائی نہیں دیتی۔جب بڑے سے بڑے جرم سے نپٹنے کے لیے قانون موجود ہے تو یہ وحشت کس بات کی غماض ہے؟۔ کیا ہمارے پاس اپنے اس غیر منصفانہ رویے اور دہرے معیارکا کوئی منطقی اور اخلاقی جواز ہے؟ کیا ہم اپنے آپ کو ایک ز ندہ قوم کہلانے میں حق بجانب ہیں؟نہیں ناں! تو ہم بھی جدید دنیا کے نسلی تعصب میں کسی سے پیچھے نہیں! #nasal parasti #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #leader tv hd