بہاولنگر معاملہ !ابھی اور کتنے”اندرونی“ محاذ کھولنے ہیں؟

سوچا تھا عید سکون سے گزرے گی، مگر ہم نے دیکھا ایک نیا محاذ کھل گیا، جی ہاں! بہاولنگر میں دو بڑے ادارے پولیس کے جوان اور پاک فوج کے جوان آپس میں لڑ پڑے ،،، جس کے بعد اس مبینہ لڑائی کا معاملہ سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ دونوں اداروں نے حقائق جاننے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ اس معاملے کا آغاز 8اپریل کو تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او رضوان عباس کی جانب سے ایک فوجی اہلکار محمد خلیل کے گھر پر چھاپے اور اہلِ خانہ کو زدوکوب کرنے سے شروع ہوا۔مقدمے کے مطابق پولیس معمول کے گشت پر تھی کہ ا±نہیں کچھ مشکوک افراد نظر آئے جن کا پیچھے کرنے پر ا±نہوں نے محمد خلیل نامی شخص کے گھر پناہ لی۔ پولیس نے محمد خلیل کے گھر چھاپہ مارا اور مشکوک شخص سے اسلحہ برآمد کیا۔ مگر مبینہ مشکوک شخص اسلحے کا کوئی لائسنس پیش نہیں کر سکا۔ اِسی دوران محمد خلیل کے گھر والوں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔درج کیے گئے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ موقع پر موجود پولیس اے ایس آئی محمد نعیم نے تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او رضوان عباس کو اطلاع دی جس پر رضوان عباس نے اے ایس آئی محمد نعیم اور دیگر اہلکاروں کے ہمراہ چک سرکاری میں محمد انور جٹ کے گھر رفاقت کی گرفتاری کے لیے ریڈ کیا۔ اس پر اہلِ خانہ نے مزاحمت کی اور پولیس اہلکاروں کو دیگر اہلِ محلہ کی مدد سے ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کو کمرے میں بند کر کے یرغمال بنا لیا اور ایس ایچ او رضوان عباس کی ویڈیوز بھی بنائی۔بعدازاں رضوان عباس نے بذریعہ وائرلیس پولیس کی مزید نفری منگوا لی جس میں ایلیٹ فورس کے اہلکار بھی شامل تھے۔ ایلیٹ فورس نے ایس ایچ او رضوان عباس اور دیگر پولیس اہلکاروں کو آزاد کرا لیا اور گھر میں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کر لیا۔پولیس اہلکاروں نے محمد انور جٹ، اس کے بیٹے آرمی ملازم محمد خلیل، دوسرے بیٹے اینٹی نارکوٹکس ملازم محمد ادریس اور دیگر کو گرفتار کر کے 23 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ کارروائی کے بعد فوجی ملازم محمد خلیل نے واقعے کی تمام تفصیلات سے اپنے ادارے کو آگاہ کیا جس پر سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے مبینہ طور پر پہلے تھانہ مدرسہ اور پھر تھانہ سٹی پر دھاوا بول دیا اور پولیس اہلکاروں کو زدوکوب کیا جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔اعلیٰ پولیس حکام کے نوٹس میں آنے کے بعد پولیس نے ریڈ کرنے والے ایس ایچ او رضوان عباس، اے ایس آئی محمد نعیم اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُنہیں حراست میں لے لیا اور محکمہ جاتی کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔ خیر اس پورے واقعہ کے بعد ملک میںایسے لگا جیسے ایک نیا اور نہ ختم ہونے والا محاذ شروع ہوچکا ہے۔ اور پھر یہ بھی لگا کہ خدانخواستہ ہم کہیں خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں، ویسے ہمارے بڑے اداروں کو سلام ہے کہ وہ اپنے ملک میں کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ بلکہ ملک ہی نہیں بلکہ بھارت، افغانستان، ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ صف آراءہیں۔ لیکن یہاں یہ بتاتا چلوں کہ بیک وقت افغانستان اور عراق میں جنگ لڑنا دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کیلئے مشکل ہو گیا تھا۔ جرمنی کو دو محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی تو شکست سے دوچار ہوا۔ مگر ہماری کیا بات ہے کہ مختلف محاذوں پر لڑے جا ر ہے ہیں اور کوئی پروا نہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آئے روز حملے ہو رہے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہے اور بلوچستان میں بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے۔ لیکن ہماری حکمت عملیوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ تنظیموں سے زیادہ خطرہ ہمیں اپنے اداروں سے ہے،،، کبھی ہم الیکشن کمیشن کے خلاف صف بندیاں کرتے ہیں، کبھی عدلیہ کہ خلاف تو کبھی اپنی ہی پولیس کے خلاف۔ اور پھر کبھی چوہدری پرویز الٰہی‘ صنم جاوید اور عالیہ حمزہ سے ہے۔ قانون کا پورا زور لگتا ہے ان جیسوں کو دبانے پر۔ عدالتی نظام کی تمام توانائیاں ان پر صرف ہو رہی ہیں۔ ایک اور خطرناک ”مجرم“ کا نام ذہن سے اُتر گیا، شاہ محمود قریشی۔ مخدوم بھی سوچتے ہوں گے ا±ن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔اور پھر کچے کے ڈاکوﺅں کے خلاف جو محاذ کھلنے چاہیے تھے، ہم اُس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے! میں مذاق نہیں کر رہا‘ یہ سنجیدہ باتیں ہیں۔ معیشت کو چھوڑیے‘ اُس کا ذکر کیا کرنا۔ ذ کر کرکر کے پوری قوم تھک چکی ہے لیکن معیشت ہے کہ سنورنے کا نام نہیں لے رہی۔ لیکن یہ جو تقریباً باقاعدہ جنگیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری ہیں‘ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ ان سے پیدا ہونے والے خطرات پاکستان کو لاحق ہیں۔ لیکن یہاں تو لگتا ہے ترجیحات ہی اور ہیں۔ اندر رکھو فلاں کو‘ مقدمات قائم کرو خاص قماش کے لوگوں پر اور پھر یہ اہتمام کرو کہ مقدمات کتنے ہی بوگس ہوں‘ اس قماش کے لوگوں کو ضمانت پر باہر نہیں آنے دینا۔ عدالتی نظام اور قانون کی کتابیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ جج صاحبان دھمکیوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش یہ سب بڑے چیلنجزہیں لیکن ہم اپنی ڈگر پر مست ہیں۔ یہ جو خواتین جن پر مقدمات ہیں‘ ان پر الزامات یہ ہیں کہ پچھلی مئی کی فلاں تاریخ کو بیک وقت لاہور کے مختلف مقامات اور ایک کہیں میانوالی میں یہ سرکاری تنصیبات پر حملہ آور ہوئیں۔ یعنی سپرمین کیا ہوا، ان کے اُڑنے کی صلاحیتیں سپرمین سے بڑھ کر ہوئیں کہ لاہور میں بھی حملہ کرتی ہیں اور پھر اڑان بھر کر میانوالی میں بھی حملہ کر دیتی ہیں۔ مذاق کا بھی کوئی ڈھنگ ہونا چاہیے‘ یہاں تو بس کارروائیاں ڈالنی ہوتی ہیں‘ چاہے وہ کتنی بھونڈی قسم کی ہوں۔ہمارے جو حضور ہیں یا سرکار ہیں یا ا±نہیں اور کوئی لقب ہم دیں‘ ا±نہیں کیسے بتایا جائے کہ جناب مملکت سنگین خطرات کی زد میں ہے اور پورا دھیان ان پر دینا چاہیے۔ حکمت عملی ان خطرات کے بارے میں بنانی چاہیے اور تمام توانائیاں ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے صرف ہونی چاہئیں۔ لیکن تماشے لگے ہوئے ہیں‘ یہ جو تماشا الیکشن کے نام پر لگا تھا‘ اس سے کوئی مذاق زیادہ ہو سکتا ہے؟ واردات اور وہ بھی پوری قوم کیا پوری دنیا کے سامنے لیکن کوئی پروا نہیں‘ ہم نے ا±سی ایجنڈے پر چلنا ہے جو زرخیز ذہنوں نے مرتب کیا۔ اور جو انگلی اٹھائے یا جو کہیں کہ حضور آپ کی ترجیحات تھوڑی غلط ہیں‘ وہ بھاڑ میں جائیں۔ پھر ایک اور چیز چونکا دینے والی ہونی چاہیے لیکن یہاں کسی کو کوئی پروا نہیں۔ اب تو یہ خبریں عام ہو چکی ہیں کہ ہندوستان کی جاسوس ایجنسی ”را“ نے پاکستان میں مختلف اشخاص کو ٹارگٹ کیا ہے۔ چند مہینوں کی بات ہے کہ کوئی خالصتانی پیروکار جو لاہور کے جوہر ٹاﺅن میں مقیم تھا اور ہماری حفاظت میں تھا‘ کو مار دیا گیا۔ سردار جی نزدیک کسی پارک میں صبح کو سیر کیلئے جاتے تھے اور وہیں اُن پر حملہ ہوا۔ ایک وڈیو بھی سامنے آئی کہ ایک آدمی پارک کی طرف جا رہا ہے اور پھر سڑک کے انہی کیمروں کے سامنے واردات کے بعد واپس آ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ”را“ نے اس خالصتانی کی کھوج لگائی ہو گی، پوری پلاننگ کی ہو گی اور پھر واردات کی ہو گی۔ اگر لاہور کے جوہر ٹاﺅن میں ایسا واقعہ ہو سکتا ہے تو بتائیے کون سی جگہ یہاں محفوظ رہ جاتی ہے؟ ایک تنظیم کے سربراہ کے گھر کے باہر بھی چند ماہ پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا۔ میرے جیسوں نے سمجھا ہو گا کہ یہ کوئی ڈرامہ رچایا جا رہا ہے لیکن ”را“ کی حرکتوں کے تناظر میں یہ ڈرامہ نہیں کوئی اصلی واقعہ ہی لگتا ہے۔ پچھلے مہینوں میں ایسی سابقہ تنظیموں سے جڑے ہوئے چند اور لوگوں پر پراسرار قسم کے حملے ہوئے جن میں ا±ن کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک تو شاید راولا کوٹ میں واقعہ ہوا تھا کہ صبح سویرے فجر کی نماز کے وقت مسجد میں کسی پر پستول کے فائر ہو گئے اور فائر کرنے والا موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ اب تک تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کی اپنی سکیورٹی بڑی مضبوط ہے اور ٹارگٹ کرنا تو دور کی بات‘ ان تک پہنچ بھی کون سکتا ہے۔ لیکن یہ تمام کڑیاں ملائی جائیں تو بڑی خطرناک صورتحال نمودار ہوتی ہے۔ ہمیں تو ان واقعات پر توجہ دینی چاہیے کہ ”را“ کی مداخلت کس نوعیت کی ہو گئی ہے۔ کلبھوشن یادو تو بلوچستان میں پکڑا گیا تھا‘اُن دور دراز علاقوں کے بارے میں تو شاید یہ کہا جا سکے کہ یہاں تو ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں اور بارڈر اس قسم کے ہیں کہ ان میں سے گھس آنا کوئی اتنی بڑی حیرانی کی بات نہیں لیکن لاہور اور دیگر ایسے مقامات میں اس قسم کے پ±راسرار حملوں کا ہونا ایک تو خطرات کی طرف نشاندہی کرتا ہے اور دوسرا سکیورٹی کی کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں محاذ اور قسم کے کھلے ہوئے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ بہترین صلاحتیں انہی پر صرف ہو رہی ہیں۔ ہمیں تھوڑے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں‘ خطرات کیا درپیش ہیں اور ہم کہاں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ سلجھاﺅ کا راستہ نکلنا چاہیے‘ یہ جو اندرونی محاذ آرائی ہم نے کی ہوئی ہے‘ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ باجوہ اور فیض حمید کی باتوں سے اب نکلنا چاہیے‘ ان کو دہراتے رہنے سے جو سرحدوں پر اور اندرونی طور پر خطرات منڈلا رہے ہیں وہ غائب نہیں ہونے۔ سیاسی انجینئرنگ یہاں پر کی گئی‘ اس کا سب کو معلوم ہے لیکن اب آگے کی طرف جانا چاہیے۔ ملک کا خاصانقصان ہو رہا ہے اور ہم ان چھوٹے چھوٹے تماشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جن کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے ان کی حیثیت کیا ہے کہ وہ کچھ کر سکیں؟ اب تو رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف جیسے اپنوں کا ہی مذاق ا±ڑا رہے ہیں‘ طرح طرح کے تبرے کَس رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکمرانی کی اصلیت کیا ہے‘ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اورکھانے کے اور۔ ایسے میں جس قسم کی فیصلہ کن حکمرانی کی ضرورت مملکت کو ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ اکابرینِ ملت (اورنام انہیں کیا دیں؟) کو بیٹھنا چاہیے اور کچھ سوچنا چاہیے کہ تماشوں سے پاکستان کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ لہٰذاکوشش کر نی چاہیے کہ ہمیں آپسی محاذوں پر لڑنے کے بجائے اصل دشمن کی طرف دیکھنا چاہیے تاکہ ملک کو بحرانوں سے نکالا جائے۔ ورنہ مزید خانہ خراب ہوگا اور ہمارا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا!