جماعت سازی کا کھیل جاری و ساری !

نہ کوئی وژن، نہ کوئی مشن، نہ کوئی منشوراور نہ کوئی نظریہ.... بس یوں آئے اور نئی پارٹی کا اعلان کیا اور پھر دوسری جماعتوں کے بندے توڑنا شروع کر دیے۔ یہ ہے آج کل کے پاکستان کی سیاست کا احوال ،جہاں 9مئی کے واقعات کے بعد نئی پارٹیز کے بننے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پہلے تحریک انصاف سے قائدین نے علیحدگی کا اعلان کیا، پھر جہانگیر ترین اور علیم خان کے توسط سے تحریک استحکام پارٹی وجود میں آئی اور اب گزشتہ روز تحریک انصاف کے سینئر رہنما پرویز خٹک نے بھی نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کی بنیاد رکھ دی۔ سنا ہے مذکورہ پارٹی میں 50سے زائد سابق صوبائی اسمبلیوں کے وہی لوگ آنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، جنہوں نے 2017،2018میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لیکن سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ پاکستان میں الیکشن سے پہلے نئی سیاسی پارٹیوں کا بننا ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اور یہ سلسلہ آج سے نہیں گزشتہ 75سالوں سے جاری ہے۔ اور عمومی طور پر انتخابات سے قبل کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی توڑ پھوڑ سے نیا سیاسی اتحاد قائم ہوا یا نئی پارٹی کی بنیاد پڑتی رہی ہے۔ آپ دور نہ جائیں، 2018 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔بلوچستان میں، ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ کی بنیاد پڑی تو جنوبی پنجاب میں ’صوبہ محاذ اتحاد‘ بنا جو بعدازاں پی ٹی آئی میں ضم ہوا۔ بظاہر 2018کے الیکشن سے قبل سیاسی سطح پر جس طرح کی ا±تھل پتھل ہوئی، ویسا ہی کچھ عمل موجودہ لمحات میں جاری ہے۔جہانگیر خان ترین،جن کی اہمیت 2018کے الیکشن کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سازی کے لیے بڑی نمایاں رہی تھی اس وقت پھرسیاسی منظر نامے میں اہم حیثیت اختیار کر گئی ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ جہانگیر خان ترین نے 9 مئی کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں سیاسی روابط کا سلسلہ تیز کیا تھا جس کا نتیجہ آج ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کی صورت میں نکلا۔ اور اب پرویز خٹک جنہیں تحریک انصاف کے چیئرمین نے پارٹی میں اعلیٰ عہدوں سے نوازا لیکن وہ بھی نئی پارٹی بناکر دیگر رہنماﺅں کو اُس میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان جیسا تجربہ کار سیاست دان یہ نہیں جانتا کہ سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے؟سیاسی جماعت درحقیقت مفاد عامہ کی انجمن ہوتی ہے جو شہریوں کی درخواستوں کی نمائندگی اور ترسیل کرتی ہیں اور جمہوری سرگرمی میں ان کی شرکت کو فروغ دیتی ہیں۔ کسی ملک کی سیاسی سرگرمی میں حصہ ڈالنے اور اس کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو مدد اور توجہ دینے کے لئے سیاسی جماعتیں تشکیل دی جاتی ہیں تاکہ ان کی ضروریات یا درخواستوں کو اسی عوامی اداروں کو بھیج دیا جائے۔لیکن یہاں سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے، یہ نئی نویلی سیاسی جماعتیں عوام میں جانے کے قابل ہی نہیں ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تحریک استحکام پاکستان پارٹی کو بنے ہوئے ڈیڑھ ماہ ہوگیا مگر اس جماعت کی کسی جگہ کوئی کارنر میٹنگ بھی نہیں ہوئی۔حالانکہ مہذب ملکوں میں سیاسی جماعت شروع کرنے سے پہلے اُس کے رہنما کی سیاسی جدو جہد دیکھی جاتی ہے، سیاسی جماعت کے آئین کو دیکھا جاتا ہے، پالیسی کو دیکھا جاتا ہے،انتخابی منشور کو دیکھا جاتا ہے، لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ سیاسی جماعت کا قیام کھیل تماشا نہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نئی جماعت کی ضرورت کیا ہے؟ کیا آپ کسی نئے سیاسی نظریے کے علم بردار ہیں‘ سیاست میں جس کی نمائندگی نہیں ہے؟ کیا سیاست میں کوئی ایسا خلا ہے جسے آپ پر کرنا چاہتے ہیں؟ ہمارا ملک تو پہلے ہی دنیا بھر میں سب سے زیادہ سیاسی جماعتیں رکھنے والا ملک ہے۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان 167 جمہوری ممالک میں 105 نمبر پر ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کے لحاظ سے پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس 130 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔جبکہ غیر رجسٹرڈ پارٹیوں کی تعداد 500سے زیادہ ہے۔ ان پارٹیوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً قومی پارٹیاں، علاقائی پارٹیاں، مذہبی پارٹیاں، لسانی پارٹیاں، نسلی پارٹیاں، لبرل، کمیونسٹ پارٹیاں، وغیرہ وغیرہ۔ بہت ساری پارٹیاں ملتے جلتے ناموں پر ہے۔ مثلاً عام لوگ پارٹی ، عام عوام پارٹی ، عام آدمی تحریک ، عام لوگ اتحاد ، عام لوگ اتحاد پارٹی ، عام لوگ اتحاد تحریک ، عوام لیگ ، عوام جسٹس پارٹی ، عوامی جسٹس پارٹی، عوامی مسلم لیگ ، عوامی نیشنل ، عوامی پارٹی پاکستان ، عوامی تحریک اور عوامی ورکرز پارٹی ان تمام سیاسی جماعتوں میں لفظ عوام اور عوامی کا ذکر ملتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عوامی جماعتوں کے دفاتر پوش ایریوں ڈی ایچ اے، بحریہ، ماڈل ٹاو¿ن، ایف سکس، گلبرگ وغیرہ میں قائم ہیں۔ سب سے زیادہ دھڑے پاکستان کے بانی جماعت مسلم لیگ کے ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ ، آل پاکستان مسلم لیگ جناح ، عوامی مسلم لیگ ، پاک مسلم لیگ ، پاکستان مسلم لیگ ، پاکستان مسلم الائنس ، مسلم لیگ ج ، مسلم لیگ ف ، مسلم لیگ ز ، مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ شیر بنگال ، مسلم لیگ کونسل ، مسلم لیگ آرگنائزیشن ، پاکستان نیشنل مسلم لیگ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ان جماعتوں کے دھڑے بنانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ ”اپنے“ ہی ہیں، 1980ءکی دہائی میں ایم کیو ایم قائم ہوئی۔ جس وجہ سے بنی، وہ غلط تھی لیکن وجہ تو تھی۔ مہاجر برادری کو یہ خیال ہوا کہ سیاست میں ان کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ سندھ کی شہری آبادی قیادت سے محروم اور استحصال کا شکار ہے۔ اس نعرے کو مقبولیت ملی اور مہاجر عصبیت نے ایک سیاسی جماعت کو جنم دیا۔ لیکن اس نے بعد میں پاکستان میں خرابیاں پیدا کیں، خیر یہ الگ بات ہے کہ تیسری قوت ہمیشہ ایک سراب ثابت ہوئی۔ سیاست میں کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کرنا۔ جیسے ہی ایک سیاسی جماعت یہ مطابقت پیدا کرتی ہے‘ وہ روایت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس پر اقتدار کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ الغرض ہمارا سیاسی کلچر بھی عجیب ہے۔ ایک طرف یہ دعویٰ کہ سیاسی شعور گھر گھر پھیل چکا۔ دوسری طرف سیاسی شعور سے دوری کا یہ عالم کہ وہی فرسودہ ہتھکنڈے اور وہی آزمودہ حربے جو سیاست کو یرغما ل بنانے کے لیے برسوں سے جاری ہیں۔ یا تو یہ دعویٰ مشکوک ہے یا سیاسی جماعتیں بنوانے والوں کو اس شعور کے پھیلنے کی خبر نہیں مل سکی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ کل جو سیاسی شعور پھیلانے کے دعوے دارتھے، آج وہی نئی سیاسی جماعت بھی بنا رہے ہیں۔ جو کل کیا جا رہا تھا، یا تو وہ ایک ڈرامہ تھا یا جو آج کیا جا رہا ہے یہ ایک کھیل ہے؟جس کا جواب یہ ہے کہ 75سالوں میں پاکستان میں کچھ نہیں بدلا۔ سب سیاسی پہلے جیسے ہیں اور انقلابی بھی۔ ریاست بھی اور عوام بھی۔ سیاسی شعور کے نام پر جس ہیجان کو فروغ دیا گیا‘ اس کی کوکھ سے نئی سیاسی جماعتیں جنم لے رہی ہیں۔ کل ہیجان نے اسی روایتی سیاست سے جنم لیا تھا۔ ماضی میں جو لوگوں کو روایتی سیاسی جماعتوں کے بینر تلے جمع کرتے تھے‘ انہوں نے غیرروایتی سیاست کے عنوان سے انہی کو ایک نئے فورم پر جمع کر دیا۔ اب وہ پھر روایتی سیاست کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ بہرکیف میرے نزدیک پاکستان کا سیاسی نظام تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک سیاسی جماعتیں اپنا قبلہ درست نہیں کرتیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے نزدیک یہ ایک نان ایشو ہے جبکہ سیاسی نظام کے ریاستی ریگولیٹر الیکشن کمیشن آف پاکستان، اس جانب ضروری توجہ دینے سے قاصر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن کر رہ گئی ہیں۔میرے خیا ل میں الیکشن کمیشن اگر سیاسی جماعتوں کے آئین، آئین کے مطابق انکی ورکنگ، آزادانہ اور شفاف جماعتی انتخابات، عوامی عہدوں کیلئے امیدواروں کے انتخاب کے طریقہ کار، فیصلہ سازی کے عمل اور انضباطی کاروائی جیسے معاملات پر نظر رکھے تو سیاسی جماعتیں ادارہ بن سکتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن اس بابت ہمیشہ بے پرواہ رہا ہے۔سب سے پہلے الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے جمع کروائے گئے آئین کا جائزہ لے، ہر جماعت کا آئین الیکشن ایکٹ 2017 کے ضابطے اور آئین پاکستان میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق ہونا تو قانونی تقاضا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ جمہوری اقدار اور روح کے مطابق بھی ہے یا نہیں ہے۔ اس اطمینان کے بعد اس آئین کی پابندی کروانے کیلئے کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ بادی النظر میں اس وقت الیکشن کمیشن کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر الیکشن کمیشن مضبوط ہے تو وہ یقینا نئی بننے والی سیاسی جماعتوں پر بھرپور نظر رکھے گا، نئی سیاسی جماعت بنانے کا سخت لائحہ عمل ہوگا تو کوئی ایرا غیرا اُٹھ کر کبھی سیاسی جماعت نہیں بنا سکے گا۔ بلکہ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے بھی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کہ جنرل الیکشن سے کم و بیش ایک سال پہلے کوئی نئی سیاسی جماعت وجود میں نہیں آسکتی۔ ایسا کرنے سے یقینا لوٹا ازم کو فروغ نہیں ملے گا اور نہ ہی سیاسی جماعتیں اپنے وفاداروں سے محروم ہوں گی!