پی آئی اے ،،، بستر مرگ پر کیوں آئی؟

کیا آپ کو علم ہے کہ پی آئی اے کا آپریشن بحال کرنے کے لیے وزارت مذہبی امور نے 50کروڑ روپے قومی ائیر لائن کو دیے ہیں۔جس سے فیول خریدا جائے گا اور تب جہاز اُڑیں گے۔ یہ حالات ہیں ہماری قومی ائیر لائن کے جو ان دنوں بستر مرگ پر اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اسکا عروج ایسا تھا کہ ائیر مارشل نور خان کی قیادت میں پی آئی اے نے 1960ءمیں جیٹ طیارہ بوئنگ 707خریدا اور یہ جیٹ طیارہ استعمال کرنیوالی ایشیا کی پہلی ایئرلائن قرار پائی۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن پہلی ایشیائی فضائی کمپنی تھی جس نے لندن اور یورپ کے بعد امریکہ کیلئے بھی پروازیں براہ راست شروع کیں۔1964ءمیں چین کیلئے پہلا فضائی رابطہ قائم کرنیوالی پہلی غیر کمیونسٹ ایئر لائن پی آئی اے تھی۔ پی آئی اے کے عروج کے دنوں میں ایئر مارشل اصغر خان بھی اسکے سربراہ رہے جنہوں نے محض تین سال کے اندر اسکی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ایئر مارشل اصغر خان نے فضائی میزبانوں کا نیا یونیفارم ایک فرانسیسی ڈیزائنر سے تیار کروایا جسکے چرچے دنیا بھر میں تھے۔ تب پی آئی اے اپنے تمام شعبہ جات میں خود کفیل تھی۔ انجینئرنگ، ٹیکنیکل گراﺅنڈ سپورٹ، پیسنجر ہینڈلنگ، مارکیٹنگ، سیلز، فلائٹ آپریشن اور دیگر شعبہ جات کے علاوہ پروازوں میں کھانا فراہم کرنے کیلئے اپنا کچن رکھتی تھی۔ اسکے عروج کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی بڑی ایئر لائنز کے پائلٹس کراچی میں پی آئی اے کی تربیت گاہ میں تربیت حاصل کرتے تھے۔ ایمریٹس ایئرلائن، سنگاپور ایئرلائن، جارڈینین ایئر لائن، اور مالٹا ایئر کے پائلٹس کو پی آئی اے نے تربیت دی،1965ءکی جنگ میں پی آئی اے نے دفاع وطن میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور چین سے اہم دفاعی آلات پاکستان منتقل کیے۔1985 ءمیں ایمریٹس ایئر لائن کھڑی کرنے میں پی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا۔25اکتوبر 1985 ءکو ایمرٹس ایئر لائن نے جو پہلی اڑان بھری وہ دبئی سے کراچی کی طرف تھی اور اس کے دونوں پائلٹ فضل غنی، فرسٹ آفیسر اعجاز الحق اور فضائی میزبان پاکستانی تھے۔ دوران پرواز مہمانوں کو پاکستانی کھانا فراہم کیا گیا۔یہاں تک کہ اس کا کوڈ نیم EK رکھا گیا۔E سے مراد امارات جبکہ K سے مراد کراچی تھا۔ عروج کے زمانے میں پی آئی اے اپنے طیارے غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو لیز پر دیا کرتی تھی۔اس کے علاوہ اتحاد ائیرلائنز کو بھی خاصی سپورٹ فراہم کی تھی۔ عروج کا یہ دور 1990ءتک جاری رہا، تاہم اس دہائی سے پی آئی اے کا زوال بھی شروع ہو گیا۔ سیاسی تقرریوں،من پسند چیئرمینوں کا تقرر،مہنگے ترین جہاز لیز پر لینے،اور منافع بخش روٹس نجی فضائی کمپنیوں کو بیچے جانے جیسے اقدامات نے اس عالمی فضائی کمپنی کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نجی ایئر لائنوں کے مالکان کو پی آئی اے کا چیئرمین بنایا گیا۔سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے نااہل اور نالائق افراد نے پی آئی اے میں دھڑے بازی اور یونین سازی کو فروغ دیا۔ان یونین کے کرتا دھرتا افراد اور پی آئی اے کے افسران نے غیر ملکی کمپنیوں سے مبینہ طور پر پیسے لے کر سب سے پہلے براہ راست روٹس بند کیے۔جان بوجھ کر رشوت لے کر پی آئی اے کا کاروبار خراب کیا تاکہ اُن کمپنیوں کا کاروبار بڑھے ، اور یہ رشوت جو جو بھی سربراہان آئے،خواہ وہ سول تھا یا غیر سول انہوں نے پیسے کھائے، پیسے بنائے اور ذاتی تعلقات استوار کیے۔ جیسے امریکا کی براہ راست فلائیٹ کو بند کر دیا گیا، حالانکہ وہ فل پیک فلائیٹ تھی، اور ایسی فلائیٹس کیسے گھاٹے میں ہو سکتی ہیں؟ اسی طرح یورپ سمیت ہر ملک میں پی آئی اے کی براہ راست فلائیٹس تھیں، لیکن وہ تمام روٹس بند کردیے گئے، یا کروا دیے گئے۔ ظاہر ہے اگر براہ راست فلائیٹ ہوگی تو کوئی مسافر کیوں کسی اور فلائیٹ سے جائے گا، اور آٹھ دس گھنٹے درمیان میں انتظار میں گزارے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ریلوے کا نظام سوچی سمجھی سازش کے تحت فلاپ کیا گیا۔ مثال کے طور پر فیصل آباد، گوجرانوالہ،گجرات، قصوروغیرہ سے لاہور کے لیے روزانہ 6بجے گاڑیاں نکلتی تھیں، اور آفس ٹائم سے پہلے لاہور پہنچ جاتی تھیں، لیکن انتظامیہ نے لوکل ٹرانسپورٹر حضرات سے پیسے لے کر گاڑیاں لیٹ کرنا شروع کیں، اور پھر آہستہ آہستہ بہت زیادہ لیٹ ہونا شروع ہوئیں۔تاکہ لوگ وقت پر آفس نہ پہنچ سکیں، جس سے ٹرانسپورٹ مافیا کی چاندی ہوگئی، یعنی سواریاں ٹرین سے نکل کر لوکل ٹرانسپورٹ میں آگئیں۔ اور مذکورہ روٹس کو گھاٹے میں دکھا کر بند کر دیا گیا۔ اسی طرح یہ سب کچھ پی آئی اے میں ہوا۔ وہاں بھی 90فیصد سے زائد بین الاقوامی روٹس کو صرف اس لیے بند کیا گیا ہے کہ ان فلائٹس سے ائیر لائن کو نقصان ہو رہا ہے۔ بندہ پوچھے کہ جو فلائیٹ پیک ہے، وہ گھاٹے میں کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر براہ راست فلائیٹس نہ ہوں تو بچے اور بوڑھے اس قدر پریشانی کا شکارہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ خیر اس میں کسی اور کا قصور بھی نہیں ہے، بلکہ ہماری قومی تربیت ہی کچھ اس قسم کی ہے ، کہ ہم کبھی اپنے ملک کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اور نہ ہی کبھی ایک قوم بن سکے ہیں۔ بلکہ کبھی آپ ان ملکوں کی تاریخ کو پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو کہ یہ کس طرح سے اپنے ملک کا دفاع کرتے ہیں۔ مثلاََ ایک دفعہ چینی کمپنی نے سڑک کی تعمیر کے لئے ایک دیو ہیکل بلڈوزر منگوایا۔ اسے ایک گاﺅں سے آگے لے جانا تھا۔ اور راستے میں ایک ندی تھی جس پر ایک نازک سا پل تھا جو اس بلڈوزر کا وزن برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ چینی انجینئر نے حل یہ نکالا کہ بلڈوزر ندی کی کھائی میں خود اتر کر راستہ بنائے گا اور دوسری طرف راستہ بناتے ہوئے نکل جائے گا، اس کے لیے اُس نے اپنے افسران سے اجازت طلب کی اور اُنہوں نے اجازت بھی دے دی۔اس تجویز پر جب عمل ہوا تو بلڈوزر جب نیچے اتر رہا تھا تو ایک بڑی چٹان آگئی اور بلڈوزر پھسل کر ندی میں گرنا شروع ہوگیا۔ اس دوران چینی انجینئر نے بے چینی میں ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا۔جب بلڈوزر کا گرنا لگ بھگ طے ہوگیا تو اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ لوگوں نے جب اس سے اس قدر رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ ” میں کیسے نہ روﺅں یہ میرے ملک کا نقصان ہورہاہے۔“کچھ دیر بعد چینی انجینئر کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے ہمت نہ ہاری اور قریب ہی دوسرے پراجیکٹ سے مدد طلب کی اور اس طرح بلڈوزر کو بچالیا گیا۔ لہٰذا چینیوں کی تربیت اور نصاب میں قومی نقصان کو ذاتی نقصان کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ آپ ملایشیا چلیں جائیں، ملائشیا جب ترقی کے زینے طے کر رہا تھا تو وہاں کا سرکاری بینک سنٹرل بنک آف ملائشیابے تحاشہ قرضوں میں ڈوبنے لگا، ایک وقت ایسا آیا کہ بنک دیوالیہ ہوگیا، اور بنک کی بولی لگنے کے لیے تاریخ طے ہوگئی۔ ملایشین لوگوں کے لیے یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے اُن کی کسی ذاتی چیز کو فروخت کیا جا رہا ہے،بولی والے دن لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ملک کے ہر شہرمیں احتجاج شروع ہوگئے، جس کے باعث بنک کی فروخت کے لیے ایک ہفتے بعد کی ڈیڈ لائن دے دی گئی۔ اس ایک ہفتے میں تمام پرائیویٹ بنکوں اور بڑی بڑی کاروباری شخصیات نے عوامی غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے سنٹرل بنک آف ملائشیا کو سہارا دیا، عوام نے بے تحاشہ اکاﺅنٹ کھلوائے اور اس طرح سرکاری یعنی عوامی املاک کو فروخت ہونے سے بچالیا گیا۔ اور آج یہی مذکورہ بنک ملایشیا کی اکانومی کا اہم ترین حصہ ہے۔ ایک اور مثال لے لیجیے 2008میں گاڑیاں بنانے والی امریکی کمپنی ”جنرل موٹرز“ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی، حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ کمپنی نے عدالتی نگرانی میں کام کرنے کی درخواست دے دی تاکہ مزید مسائل سے بچا جا سکے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اگرجنرل موٹرز دیوالیہ ہوگئی تو یہ امریکی تاریخ میں دیوالیہ ہونے والی سب سے بڑی کمپنی ہوگی۔عین اسی وقت امریکی حکومت نے جنرل موٹرز کو بحران سے نکالنے کے لیے 20ارب ڈالر کا سرمایہ لگایا، جب کمپنی پھر بھی نہ سنبھل سکی تو اگلے سال امریکی حکومت نے مزید 30ارب ڈالر کا سرمایہ لگا کر کمپنی کو بچالیا، آج یہی جنرل موٹرزسالانہ 20ارب ڈالر منافع کما کر 5سے 7ارب ڈالر امریکی حکومت کو ادا کر رہی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ یہ چند ایک مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ جب حکومتی اداروں یا بڑے ملکی اداروں(خواہ وہ نجی ادارے ہی کیوں نہ ہوں) پر برا وقت آتا ہے تو انہیں کسی کی زبانی کلامی ہمدردیوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ترقی یافتہ قومیں اپنے ایک ادارے کو بچانے کے لیے سب کچھ داﺅ پر لگانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں حالات یکسر مختلف ہیں،ہماری تربیت میں ہی یہ چیز شامل نہیں کہ ہم سرکاری املاک کو عوامی املاک سمجھیں، اگر یہاں ایک ادارہ ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہو تو حکومت سمیت تمام نجی ادارے منجدھار کے باہر بیٹھ کر تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ یہ ادارہ جتنا برا کام کرے گا اُن کی کمپنیاں اتنی ہی ترقی کریں گی ۔ بقول شاعر میں بھی عجیب شخص ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں بہرکیف پی آئی اے، ریلوے، پاکستان سٹیل مل، واپڈا، پی ٹی وی، ایس ایم ای بینک، صنعتی ترقیاتی بنک، ماڑی پٹرولیم ، سندھ کے کئی ہیلتھ ادارے، پنجاب کے کئی ادارے، سیف سٹی پراجیکٹ وغیرہ جیسے ادارے اس ملک کے لیے سفید ہاتھی بن گئے ہیں اور سفید ہاتھی انہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ بادشاہتوں کے زمانے میں ہاتھیوں کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔ ہاتھی رکھنا شان وشوکت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ انہی دنوں سفید ہاتھی کی اصطلاح نے جنم لیا۔ سفید ہاتھی سے مراد کوئی ایسی چیز لی جاتی ہے جس کی دیکھ بھال پر اچھا خاصا خرچ آتا ہو لیکن عملی طور پر ا س چیز کی کوئی افادیت نہ ہو۔ بلکہ اب تو کرکٹ بورڈ بھی تباہ ہو رہا ہے، اسی طرح ہاکی بورڈ تباہ ہوا ہے، اور اسی طرح سپورٹس بورڈ کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی پاکستان میں ایسا نہیں جو ایمانداری سے کام کر رہا ہو۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ان قومی اداروں کو اگر بچانا ہے تو دل و جان سے محنت کرکے مشکل فیصلے کرکے بچایا جائے، لیکن اگر نجکاری کرنا ہی مقصود ہے تو اس میں دیر نہ کی جائے اور ایسی بین الاقوامی کمپنیوں کے حوالے کیے جائیں جو حقیقت میں اچھی شہرت رکھتے ہوں ورنہ ان کمپنیوں کے آڑ میں ہمارے افسران بھی پیسے اینٹھتے رہیں گے اور مزید نقصان ہوتا رہے گا!