نتائج میں تاخیر نے الیکشن کو مشکوک بنا دیا!

عوام نے ووٹ ڈال کر اپنا حق ادا کر دیا،،،جیسے نتائج عوام چاہتی تھی ویسے ہی آنا شروع ہوئے مگر الیکشن کمیشن نے رزلٹ میں تاخیر کرکے مشکوک ترین الیکشن بنا دیے،،،تادم تحریر ابھی بھی آدھے سے زائد رزلٹس تاخیر کا شکار ہیں۔اور جو آدھے آئے ہیں اُن میں آزاد اُمیدوار(تحریک انصاف) آگے، ن لیگ دوسرے اور پیپلزپارٹی تیسرے پر ہے۔ لیکن اس کے بعد جو رزلٹ آرہے ہیں وہ یقینا ”ان چاہے “ رزلٹس ہیں۔ الزامات لگ رہے ہیں کہ کئی رزلٹ بدلے گئے، کئی حلقوں کے رزلٹ کو جان بوجھ کر مشکوک بنا دیا اور کئی حلقوں میں اس قدر تاخیری حربے استعمال کیے گئے کہ بلوچستان والے بھی کہہ اُٹھے کہ اتنی تاخیر تو ہمارے یہاں نہیں ہوئی جتنی لاہور، کراچی یا دیگر شہروں کے رزلٹ اناﺅنس کرنے میں ہورہی ہے۔ پھر سب سے اہم بات کہ اس مرتبہ الیکشن میں اُس قسم کی بدمزگی دیکھنے میں نہیں آئی جس میں درجنوں جانیں چلی جاتی تھیں مگر پھر بھی ہر طرف موبائل فون سروس کو اگلے دن صبح تک معطل رکھا گیا۔ بلکہ یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ ن لیگ جسے پہلے سے علم تھا کہ موبائل سروس معطل رہے گی، تبھی انہوں نے اپنے تمام ٹرانسپورٹرز اور دیگر سروسز دینے والوں کو پیشگی اطلاعات دے دیں جس سے اُنہیں الیکشن کے دن مسائل کا سامنانہیں کرنا پڑا۔ جبکہ دیگر جماعتوں کے ووٹرز سمیت سروسز پرووائیڈرز کو خوار ہوتے دیکھا گیا۔ خیر الیکشن ہو چکے ہیں،،، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، صدر شہباز شریف، چیف آرگنائزر مریم نواز، حمزہ شہباز اور احسن اقبال، زرداری، جمشید دستی بھی اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ سعد رفیق اور مرتضی جاوید عباسی ، مولانا فضل الرحمن ،رانا ثناءاللہ، عابدشیر علی، سائرہ افضل تارڑ کو اپنے حلقوں سے شکست ہو گئی ہے۔بہت سے حلقوں میں ابھی سے بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ جیسے سب سے مشکوک ترین نتائج این اے 128 کے قرار دیے جا رہے ہیں جس میں آئی پی پی کے رہنما عون چوہدری نے ایک لاکھ 72ہزار ووٹ جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سلمان اکرم راجہ نے 1لاکھ 59ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ وہ حلقہ ہے جہاں ن لیگ کی آئی پی پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی لاہور کے اس پوش ایریا میں جہاں پڑھی لکھی آبادی کا تناسب زیادہ ہے عون چوہدری کے لیے اتنے زیادہ ووٹ معنی خیز ہیں،، اور پھریہی نہیں بلکہ یہ حلقہ تحریک انصاف کا پکا حلقہ ہے جہاں سے گزشتہ دو مرتبہ تحریک انصاف کے شفقت محمود جیتے ہیں۔ پھر این اے 158سے آزاد اُمیدوار ایاز میر جیت رہے تھے، لیکن پھر بتایا گیا کہ ن لیگی اُمیدوار جیت چکے ہیں۔پھر علی افضل ساہی کے حلقے میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی گئی لیکن مارجن اس قدر زیادہ تھا کہ نتیجہ جاری کرنا پڑا۔ پھر آپ نواز شریف کے حلقہ این اے 130کو دیکھ لیں، صبح تک خبریں تھیں کہ نواز شریف اپنی دونوں سیٹیں ہا رگئے ہیں، مگر لیکن بعد میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو بڑی لیڈ سے شکست ہوگئی۔ پھر دیگر بہت سے حلقے ہیں جہاں بہت کم مارجن سے شکست ہوئی ہے ، پھر پہلے خبریں آئیں کہ ن لیگ کے امیر مقام اپنی دونوں سے سیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگر بعد میں سنا کہ این اے 11 شانگلہ کے 346 پولنگ سٹیشنز کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق امیر مقام کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، انہوں نے 59863 ووٹ حاصل کر کے فتح حاصل کی، یہاں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سید فرین 54311 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔پھر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 71 سیالکوٹ II سے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے سابق نمائندہ خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ ڈار کو شکست دیدی۔حالانکہ یہ نتائج رات گئے تک اُلٹ تھے اور ریحانہ ڈار جیت رہی تھیں۔ لیکن پھر صبح سب نے دیکھا کہ خواجہ محمد آصف 118566 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ آزاد امیدوار ریحانہ امتیاز ڈار 100272 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہیں۔پھر اسلام آباد کے حلقہ این اے 47 سے پاکستان مسلم لیگ ن کے طارق فضل چودھری نے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شعیب شاہین کو شکست دے دی۔حالانکہ یہ سیٹ بھی رات گئے تک پی ٹی آئی کے حصے میں آرہی تھی۔ لیکن صبح نتائج آئے تو معاملہ اُلٹ تھا جس کے مطابقن لیگ کے طارق فضل چودھری 102502 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔اور محمد شعیب شاہین نے 86396 ووٹ حاصل کیے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ بہرحال میں یہ نہیں کہتا کہ کہیں دھاندلی ہوئی ہے،،، ہو سکتا ہے کہ مجھ سمیت بہت سے تجزیہ کار شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہو۔ لیکن انٹرنیٹ سروس میں خلل ڈالنا، موبائل سروس بند کردینا اور کئی کئی گھنٹے تک ای سی پی کو بند کردینا کیا شکوک میں مبتلا نہیں کرتا؟ الغرض عوام کے مینڈیٹ کی کب تک توہین کی جاتی رہے گی؟تاریخ گواہ ہے کہ صرف 1970 کے انتخابات کو نسبتاََ صاف و شفاف سمجھا جاتا ہے اور تمام طرح کی جدیدیت کے باوجود ملک میں اب بھی انتخابات کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پہ دھاندلیوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ پھر محترمہ فاطمہ جناح نے آمر مطلق جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا تو اس الیکشن میں بھی بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی اور اس دھاندلی میں مقتدرہ ملوث تھی۔اس کے بعد بھی جو انتخابات ہوئے سبھی مشکوک ثابت ہوئے اور اب بھی اگر موجودہ انتخابات کی بات کریں تو ماسوائے ایک پارٹی ن لیگ کے سبھی جماعتوں نے تاخیری حربوں کے حوالے سے الزاما ت لگائے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنما¶ں نے ابتدائی طور پر انتخابات کے نتائج کا خیر مقدم کیا لیکن بعد میں یہ بیانات جاری کیے کہ انہیں خدشہ ہے کہ نتائج میں رد و بدل کیا جائے گا۔ تحریک لبیک پاکستان کے قائد سعد رضوی کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو بڑے پیمانے پر لوگوں نے ووٹ دیے ہیں لیکن الیکشن حکام فارم 45 انہیں نہیں دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کو انصاف نہیں دیا گیا تو وہ اپنا حق چھین کے لیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی انتخابات کے نتائج میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی نے اپنی مخالف پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگایا، جب کہ پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کی کامیابی کے دعوے کو غلط قرار دیا۔ چلیں یہ سب کچھ چھوڑ دیں ،،، کہتے ہیں کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے،،، لیکن اس بات کا جواب کون دے گا کہ بلوچستان اور سندھ کے تھرپارکر جیسے علاقوں سے نتائج آ گئے مگر لاہور اور پنجاب کے مرکزی علاقوں کے نتائج آنے میں جو تاخیر ہے وہ کسی بددیانتی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے؟ بلوچستان اور سندھ کے دوردراز علاقوں میں اول تو ٹرن آﺅٹ سات، آٹھ، دس یا حد بیس فیصد رہا، دوم ان پولنگ سٹیشنز کے پریزائڈنگ افسران کو نتائج ریٹرننگ افسران کو جمع کروانے میں اس قدر دقت اور انتظار کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسے لاہور اور پنجاب کے دیگر گنجان آباد حلقوں میں کرنا پڑا۔ تاخیر اور بددیانتی والا عنصر بھی ہو سکتا ہے مگر ناچیز نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے الیکشن کے مجموعی عمل اور پولنگ سٹیشنز کی صورتحال کو آپ کے سامنے رکھا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا عین ممکن ہے کہ گنجان آباد علاقوں میں نتائج برآمد ہونے میں اس قدر تاخیر کیوں کر ہو رہی ہے۔ بہرحال قارئین کی سہولت کے لیے ان حقائق کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان اب قریبا 13 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز کے ساتھ بھارت، امریکہ، انڈونیشیا اور برازیل کے بعد دنیا کی پانچویں بڑی جمہوریت بن چکا ہے۔ اگر ٹرن آﺅٹ صرف 50 فیصد بھی رہے تو لگ بھگ ساڑھے چھے کروڑ ووٹرز بنتے ہیں۔ پھر پنجاب کے گنجان آباد حلقوں میں ٹرن آﺅٹ 60 فیصد تک بھی جاتا ہے اور جگہ جگہ ایک ایک ہزار، دو دو ہزار ووٹرز کے لیے پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں۔ پورے ملک میں 90 ہزار 675 پولنگ سٹیشن بنائے گئے اور قریباً 15 لاکھ انتخابی عملہ مقرر کیا گیا جنھیں محض دو ہفتے پہلے اتنے بڑے انتخابی دنگل کی تیاری کروائی گئی اور سونے پہ سہاگہ ہمارے الیکشن کمیشن کا ہمیشہ عین وقت پر زیادہ لوڈ پڑنے سے بیٹھ جانے والا آر ٹی ایس یا ای سی پی سسٹم جس کے ذریعے فوری نتائج عوام تک پہنچائے جانے ہوتے ہیں۔ پولنگ کے وقت یہ کہہ کر موبائل سگنل بند کیے گئے کہ انتخابی مہم میں کیے گئے 50 سے زائد حملے اور ان سے ہونے والے جانی و مالی نقصان جیسے مزید حادثات سے بچا جا سکے جبکہ نتائج کے وقت اس لیے بند کر دیے گئے کہ عوام الناس میں نتائج کو مرتب کرنے کے دوران شرپسند عناصر بے چینی و پراپیگنڈہ کو ہوا نہ دے سکیں۔ خیر قصہ مختصرکہ یہاں ایک لمبی چوڑی بے ایمانی کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں؟ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے کیا ملک میں استحکام آجائے گا؟ بالکل نہیں آئے گا بلکہ ملک مزید پیچھے جائے گا۔ان الیکشن سے ایک اُمید تو یہ بنی ہے کہ عوام میں شعور آگیا ہے، اور ادارے بھی اگلی دفعہ الیکشن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں گے۔ اب بچہ بچہ جانتا ہے کہ ووٹ کس طرح چرایا جاتا ہے۔ لہٰذااُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ ادارے اس وقت کی غیر یقینی صورتحال سے عوام کو نکالیں گے اور اُن کا مینڈیٹ بحال کرکے اُنہی کو حکومت دیں گے جن کی بنتی ہے!