پی ٹی آئی الیکشن سے باہر: سیاسی انجینئرنگ کا پھر استعمال !

اور پھر جو چاہا گیا، حسب منشاءویسا ہی ہوا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے الیکشن 2024ءسے آﺅٹ کر دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے بعد پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرکے تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان بلّا واپس لے لیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت انتخابی عمل سے باہر ہوگئی۔ تحریک انصاف کے 14 ارکان نے پارٹی انتخابات کے بارے شکایات الیکشن کمیشن کو بھجوائی تھیں جبکہ الیکشن کمیشن جون 2021ءسے تحریک انصاف کو پارٹی انتخابات کا نوٹس بھجوا رہا تھا۔ تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لیے جانے سے اس کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینا ہو گا‘ اوروہ 227 مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ آئندہ سینیٹ الیکشن جو اسی سال مارچ میں متوقع ہیں، کی 52 نشستوں پر بھی الیکشن لڑنے سے پاکستان تحریک انصاف محروم ہو جائے گی کیونکہ سینیٹ کے الیکشن میں جماعتی طور پر ہی حصہ لیا جاتا ہے۔خیر ہمارے ہاں تو انٹرا پارٹی الیکشن کو کوئی پارٹی سنجیدہ نہیں لیتی، ماسوائے جماعت اسلامی کے۔ لیکن ایک جماعت سے الیکشن سے چند روز قبل ایسا سلوک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، واقعی یہ سیاسی انجینئرنگ کی ایک بدترین مثال ہے۔ اور پھر ایسا پہلی بار ایسا ہوا کہ ہم نے الیکشن سے ایک پوری پارٹی کو ہی نکال باہر کیا ہے، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف کو الیکشن 2024ءسے آﺅٹ کر دیا گیاہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اب یہ روایت بن جائے گی۔ اور پھر ہر دفعہ ہی ایسا ہوا کرے گا۔ بلکہ نظریہ ضرورت کو جس طرح ہم آج تک دفن نہیں کرسکے۔ بالکل اسی طرح ہم پھر اس روایت کو بھی دفن نہیں کر سکیں گے، اور پھر یہ بھی حیران کن ہے، اس بار بہت سی چیزیں نئی ہوئی ہیں، جو پہلے نہیں ہوئیں تھیں، میں شروع سے ہی اپنے کالموں میں کہتا رہا ہوں کہ ایک تھنک ٹینک ایسا ہونا چاہیے جو ملک کو ترقی کی پٹڑی پر ڈال دے، مگر میں حیران ہوں کہ اس کا مطلب ہی اُلٹ لے لیا گیا۔ کیوں کہ ایک ایسا تھنک ٹینک اس وقت پراجیکٹ کیا گیا ہے کہ جو ملک کی سیاست کو سنبھالے گا۔ اور سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ایسے راستے نکالے گا کہ مجھ جیسے صحافی تو درکنار کٹر سیاسی مبصرین کو بھی حیران کر دے گا۔ اور پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ ایسی بہت سی چیزیں ہوئی ہیں جو نہیں ہونی چاہیے تھیں،،، یا جس سے ہم خوش ہوں ۔ جیسے 9مئی کا واقعہ ہوا، کہ اس طرح کا واقعہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا، اُس کی آج تک کوئی آزادانہ انکوائری نہیں ہوسکی۔ کوئی پولیس اہلکار معطل نہیں ہوا۔ کیوں کہ سب کو آگے جانے دیا گیا، یہ بھی ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ پھر پولیس کو گھروں میں گھس کر چھاپے مارنے کا جو اختیار ان چند مہینوں میں حاصل ہوا، وہ آج تک ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بلکہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھی چادر اور چار دیواری کا خیال رکھا جاتا تھا، اُس دور میں میرے اپنے گھر بھی سیاسی پناہ دینے کے الزام میں چھاپے پڑتے رہے ہیں، اُس وقت خواتین کو کہا جاتا تھا ، کہ آپ الگ ہوجائیں،،، وہ تلاشی لیتے تھے،،، اور اگر اُنہیں کوئی شخص، کارکن یا پارٹی عہدیدار مطلوب ہوتا تھا، تو وہ اُسے ساتھ لے کر چلے جاتے تھے۔ لیکن کسی قسم کی بدتمیزی یا ڈکیتی جیسا ماحول دیکھنے میں نہیں آتاتھا۔اور اب جبکہ جمہوری دور ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب پولیس بھی بے لگام ہو چکی ہے۔ پھریہ بھی دیکھیں کہ اتنا Biasedالیکشن کمیشن بھی ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ جو ایک جماعت کے پیچھے ہی پڑ جائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کبھی دوسری جماعتوں کی سپورٹ الیکشن کمیشن کو حاصل نہیں رہی۔ یہاں ہر بار الیکشن کمیشن پر بے شمار الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے ،، مگر اس بار تو کانوں کو ہاتھ لگانے پر ہم مجبور ہو چکے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اس وقت جو حسینہ واجد کے خلاف دنیا بھر میں باتیں ہورہی ہیں کہ انہوں نے الیکشن دھاندلی کی اخیر کر دی ہے،،، بالکل اسی طرح پاکستان کے بارے میں بھی بے شمار قسم کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ پھر ابھی نئی چیزیں یہ بھی ہیں کہ جس طرح عدالتیں سیاستدانوں کو ریلیف دیتی رہی ہیں، لیکن عدالتوں سے نکلنے کے بعد جس طرح انتظامیہ گرفتار کرتی رہی ہے، اُس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ آپ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی مثال لے لیں۔ ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی لیول کے افسران سے کہا کہ پرویز الٰہی کو گھر چھوڑ کر آئیں،،، مگر اُن سے بھی راستے میں ”کسی“ نے پرویز الٰہی کو چھین لیا۔ پھر گزشتہ روز ہی بیرسٹر گوہر کے گھر دوران سماعت مبینہ طور پر پولیس کا چھاپا مارا گیا ہے، جس میں اُن کے خاندان کے افراد کو ہراساں کیا گیا اور پھر اُنہیں اطلاعات ملنے پر وہ دوران سماعت ہی گھر چلے گئے۔ کیا ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے؟ پھر سب سے نئی چیز یہ ہے کہ ایک جماعت کو ہی سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے الیکشن سے آﺅٹ کر دیا گیا ہو۔ چلیں یہ بات مان لی جائے کہ تحریک انصاف نے انٹراپارٹی الیکشن نہیں کروائے،،، تو کیا کوئی بتاسکتا ہے؟ کہ کس پارٹی نے منظم انٹرا پارٹی الیکشن کروائے ہیں؟ حالانکہ سپریم کورٹ میں بھی اس بات کو بار بار ردہرایا گیا لیکن ایک ہی پارٹی کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ الغرض ہم آگے جانے کے بجائے بطور قوم پیچھے جا رہے ہیں، ،، لیکن جب انسان بے حس ہوجائے تو اُسے ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہرحال اس تمام صورتحال میں اس وقت ووٹر بھی ہنس رہے ہیں، الیکشن کروانے والے ادارے بھی ہنس رہے ہیں اور ساتھ دنیا میں الیکشن مانیٹر کرنے والی تنظیمیں بھی ہنس رہی ہیں۔ لیکن یہاں کسی نے اپنے چھوٹے سے وقتی فائدے کے لیے آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔ اور ساتھ ہی سبھی اداروں نے بھی قانون کا احترام ختم کردیا ہے، آنکھیں موند لی ہیں ، اس لیے افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر تحریک انصاف پر اس الزام کے بعد اگر پابندی لگ سکتی ہے، تو اے این پی کا بھی اسی طرح کا ”جرم“ تھا مگر اُسے محض 20ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ دوسرا جب یہ آزاد اُمیدوار جیت بھی جائیں گے تو پھر اُس کے بعد جو ان منتخب اراکین کی منڈی لگنی ہے، کیا اُس کے بار ے میں کوئی آگہی ہے؟ ان اراکین کو کروڑوں کے بھاﺅ خریدا جائے گا، ان سے پریس کانفرنسز کروائی جائیں گی۔ کیا اُس بارے میں کسی نے سوچا ہے؟ بہرکیف ہم ملک کو مہذب بنانے کے بجائے، ایک افریقین تباہ شدہ ملک بنانے کی طرف گامزن ہیں، جس پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، یقین مانیں یہ سب چیزیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، یہ سب چیزیں دیکھ کر اس لیے افسوس نہیں ہوتا کہ ہمارا تعلق کسی پارٹی سے ہے،،، بلکہ میں نے تو کبھی بنی گالہ کا رخ بھی نہیں کیا، نہ ہی کبھی عمران خان سے ملا ہوں،،، اور شاید کبھی کسی تقریب میں بھی اُن سے ہاتھ ملایا ہو۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ میرا تو کوئی قریبی عزیز بھی تحریک انصاف کا اہم عہدیدار نہیں رہا۔اس کے علاوہ نہ ہی کبھی جاتی امرہ کا وزٹ کیا ہے اور نہ ہی کبھی بلاول ہاﺅس میں ماتھا ٹیکا ہے،،،بلکہ بات تو صرف اصولوں کی ہے۔ ہم نے تو تحریک انصاف پر بھی اُس کے دور میں جب تعلیم کا بجٹ کم کیا گیا، ہم نے اُس پر بھی شور کیا۔ انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے دیے، ہم نے اُس پر بھی تنقید کی۔ جب اُنہوں نے پنجاب اسمبلی توڑی تو اُس وقت بھی ہم نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ انہوں نے پنجاب کا وزیرا علیٰ عثمان بزدار کو بنایا ہم نے کہا کہ نہیں آپ پرویز الٰہی سے استفادہ حاصل کریں۔ لہٰذاہمارا تعلق صرف اس سسٹم سے ہے، کہ اگر ہم سسٹم کو بہتر بنا لیں گے،،، اور سیاست کو سیاسی لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں گے تو یقینا بہترین عمل ہوگا۔ ورنہ آنے والے دنوں میں مزید تباہی کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔رہی بات تحریک انصاف کی تو عمران خان اس وقت اپنی سیاسی لائف کے اہم ترین موڑ پر کھڑے ہیں۔ ان کے خلاف توشہ خانہ‘ عدت کے دوران نکاح‘ سائفر کیس جیسے کیس بنائے گئے ہیں اور ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کے بعد نااہلی جیسے پہاڑ کھڑے ہیں۔ان حالات میں عمران خان شاید 2028ءتک کسی بھی طرح الیکشن لڑنے کیلئے اہل نہ ہو سکیں اور اس دوران انہیں جیل میں ہی وقت گزارنا پڑے۔ عمران خان کی پارٹی پر وکلا براجمان ہو چکے ہیں۔۔۔ اب اگر وکلا قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ عملی طور پر پارٹی کو یرغمال بنا کر پارٹی میں ازسرِنو انٹرا پارٹی الیکشن کروا کر عمران خان کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر سکتے ہیں اور سردار لطیف کھوسہ اپنی سیاسی حکمت عملی اور گروپ کے تعاون سے پارٹی کے سربراہ بن کر دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر کے حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔یہ سیاسی انجینئرنگ نہیں تو اور کیا ہے؟ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو مزید پیچھے لے کر نہ جایا جائے۔ سیاسی عمل کو سیاسی لوگوں پر چھوڑ دینا چاہیے، ایسا کرنے سے تھوڑی بہت ہل جل ہو گی مگر کچھ دیر بعد استحکام آجائے گا اور سیاسی ادارہ میچور ہو جائے گا۔