عمران خان کے Do or Dieکی صورتحال !

پانچویں صدی عیسوی میں اینگلز اور سیکسن دو قبائل تھے، جنہوں نے ہالینڈ اور سکنڈے نیویا کی طرف سے برطانیہ کے جزائر پر حملہ کیا اور وہاں اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں، نویں صدی میں ان ریاستوں کے اتحاد نے ایک بادشاہت کی صورت اختیار کرلی، جو اینگلو سیکسن (Anglo-Sexon) کے نام سے مدت تک برسر اقتدار رہی۔ برطانیہ کے باشندے زیادہ تر انہی قبائل کی نسل سے ہیں، اس لیے انہیں سیکسن قوم بھی کہا جاتا ہے، جب بادشاہت قائم ہوئی تو وہاں کا نظام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے ملنے کے باعث بہت مشکلات کا شکار تھا، ہر ریاست بادشاہت کرنا چاہتی تھی اس لیے ان کی آپسی لڑائیوں میں ہی کئی سال گزرگئے ،ریاست میں موجود ہر چھوٹی بڑی ریاست کا سربراہ اپنے آپ میں ایک ”ڈان “تھا، وہ نہ تو بادشاہت کے احکامات کو مانتا نہ قوانین کو۔ ہر شخص بادشاہت کے حکم کی دھجیاں بکھیرتااور روندھتا چلا جاتا، پورے برطانیہ میں دو ہزار کے قریب چھوٹے بڑے قبائل آباد تھے، جن میں چوروں، ڈاکوﺅں اور لٹیروں کی تعداد عام لوگوں سے زیادہ تھی۔ اس لیے جو زیادہ طاقتور اور مالدار ہوتا، وہی انصاف پر بھی ہاوی ہوتا، اور وہی نظام عدل و نظام حکومت پر بھی۔ اور جو کمزور ہوتا وہ اُس کے لیے ہزار قسم کی پریشانیاں ہوتیں، بالکل اسی طرح جس طرح آج پاکستان کے نظام کا حال ہے جہاں عام آدمی آج اینگلو سیکسن کے کمزور باشندوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ ”بادشاہت“ لاچار ہے اور چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی ، کیوں کہ یہاں سینکڑوں قسم کے قبائل تو نہیں مگر ہزاروں قسم کے مافیا و ڈان ضرور بیٹھے ہیں جو نہ صرف سسٹم پر حاوی ہیں بلکہ سسٹم کو چلانے والوں سے بھی زیادہ طاقتو ر ہیں۔ تبھی کوئی فرشتہ صفت حکمران بھی آجائے تو یہ نظام کو ٹھیک نہیں ہونے دیں گے، اس کی بڑی مثال موجودہ حکومت ہے، جسے آئے نصف وقت یعنی ڈھائی سال کا عرصہ بیت گیا، اور اتنا ہی باقی ہے۔ عمران خان کی نیت پر کبھی شک نہیں کیا گیا، نہ اُن کے دیانت دار ہونے پر کسی کو شک ہے لیکن اُن کی گڈ گورننس حیران کن طور پر مافیا کے نرغے میں ہے۔ لہٰذامجھے کسی اور کا تو علم نہیں کہ ابھی تک حکومت کے بارے میں کس نے کیا لکھا، مگر اپنا اور اپنے جیسے ”تبدیلی پسندوں“ کا ضرور علم ہے کہ جو ابھی تک کہہ رہے ہیں کہ حوصلہ رکھیں،مورال بلند رکھیں، اُمید کا دامن نہ چھوڑیں، عمران خان پر یقین رکھیں اور گھبرائیں نہیںکہ تحریک انصاف کچھ کرے گی! لیکن بقول شخصے اب ”دفاع“ کرنا قدرے مشکل ہوگیا ہے۔ غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا تمام رات قیامت کا انتظار کیا اگر ماضی کو کرید یں تو گزشتہ حکومتوں کے ریکارڈز کے مطابق ہر حکومت اپنی مدت کے پہلے دوڈھائی سالوں میں ہر چیز مہنگی کرکے پھر عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں ضرور سوچتی رہی ہے، حتیٰ کہ آخری سالوں میں تو کاسمیٹکس ترقیاتی کام کیا، حقیقی ترقیاتی کام بھی دیکھنے کو ملتے تھے، پھر ایم این ایز اور ایم پی ایز پر فنڈز کی بارش کر دی جاتی تھی، ایک ایک حلقے کو ایک ایک ارب روپے تک جاری کرنا تو معمول کی بات تھی، تاکہ اگلے الیکشن میں وہ زیادہ ”جانفشانی“ سے کام کریں اور جیت کر دوبارہ اسمبلی میں نشست سنبھالیں۔ لیکن اب حالات یہ ہیں کہ اربوں روپے کے کرپشن مقدمات میں ملزم پیپلزپارٹی کے رہنما جیلوں سے باہر آچکے ہیں۔ صرف ایک خورشید شاہ ابھی مقید ہیں۔ایسا لگ رہا ہے جیسے پیپلزپارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لائن سیدھی ہونے جا رہی ہے،جبکہ ن لیگ کے رہنماﺅں کا بھی یہی حال ہے۔صرف شہباز شریف یا اکا دکا رہنما جیل میں ہیں جن کی کسی بھی وقت ضمانت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میںوزیراعظم عمران خان کے پاس تین آپشن ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ سمجھوتہ کرلیں اور کرپشن کی بجائے اپنی زیادہ توجہ عوام کے فلاح و بہبود کے اُن کاموں پر مرکوز کرلیں جو وہ کرسکتے ہیں جیسے صنعتی ترقی، زراعت کی بحالی، صحت، تعلیم، ماحولیات کے شعبے۔دوسراراستہ یہ ہے کہ وہ استعفیٰ دیکر پارٹی کے کسی اور شخص کو زیراعظم بنوادیں جو یہ کام کرسکے۔تیسرا انتہا پسندانہ راستہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی توڑ دیں تاکہ قوم نئے انتخابات کے ذریعے جسے چاہے منتخب کرلے۔میرے خیال میں پہلا راستہ اُن کے لیے بہتر ہے، کیوں کہ تحریک انصاف مابعد از عمران خان کچھ بھی نہیں۔ اس لیے انہیں اگلے ڈھائی سالوں میں ملائشین، چائنہ ، سنگاپور یا ناروے ماڈل کو سامنے رکھنا ہوگا۔ کہ یہ ممالک مسائل سے کیسے نکلے؟ مہاتیر محمد نے ملائشیا کو کرپشن سے کیسے آزاد کروایا؟ سنگا پور جو چین سے پہلے ترقی کر چکا تھا اُس نے کیسے ترقی کی؟ سنگاپور کے عظیم لیڈر لیکوان اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب میں تحریرکرتے ہیں کہ چین کے لیڈر ڈینگ زیاﺅ پنگ نے سنگاپور کی ترقی سے متاثر ہو کر ان سے ملاقات کی اور سنگاپور کی شاندار ترقی کا راز پوچھا گریٹ لیکوان نے کہا آئین اور قانون کی حکمرانی، میرٹ ،کڑی سزائیں سنگاپور کی ترقی کا راز ہیں لیکوان نے چین کے لیڈر کو مشورہ دیا کہ چین کے دروازے بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کھول دیں۔ زیاﺅ پنگ نے سنگاپور کے ریاستی اور معاشی ماڈل کی مطابق چین کے نظام میں جوہری تبدیلیاں کیں۔ آج جب کہ دنیا کو غربت کے چیلنج کا سامنا ہے، ان حالات میں چین کے لیڈروں نے معجزہ کر دکھایا ہے۔اس بے مثال معجزے کی انسانی تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔چین نے گزشتہ 40 سال کے دوران 700 ملین یعنی 70 کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران ہر سال دس ملین یعنی ایک کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا گیا ہے۔چین کے عظیم صدر شی جن پنگ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے یہ معجزہ کیسے کر دکھایا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چالیس سال تک کاﺅنٹی میونسپلٹی صوبائی اور مرکزی حیثیت میں کام کرتارہا، اس دوران میرا یہ زندگی کا خواب اور مشن رہا کہ میں چین کے عوام کی غربت کو دور کر سکوں۔یہی کہانی ملائشیا کی ہے، جہاں 80کی دہائی میں کرپشن جڑ پکڑ چکی تھی، لیکن مہاتیر محمد نے یہ سب کر دکھایا، لیکن شرط یہ ہے کہ اُن کے طویل اقتدار کے شروع کے سالوں میں انہوں نے ایسے انقلابی اقدامات اُٹھائے ، جس نے وہاں کے عوام کو خاصا متاثر کیا تبھی وہ اگلی 2دہائیاں اقتدار میں رہے، ملائیشیا کے عظیم لیڈر مہاتیر محمّد سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے ملائیشیا کو ایشیا کا ٹائیگر کیسے بنایا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب میں پہلی بار وزیراعظم بنا تو میں نے سوچا یا تو میں اپنے خاندان کو معاشی طور پر مضبوط بنا سکتا ہوں یا ملائیشیا کو معاشی استحکام دے سکتا ہوں میں نے ملائیشیا کے حق میں فیصلہ کیا۔ لہٰذاتحریک انصاف اور عمران خان اپنا پچاس فیصد سے زیادہ وقت ضائع کر چکے ہیں۔ ان کے پاس بڑے فیصلے کرنے کے لئے اب انرجی بچی ہے اور نہ ہی اتنی مہلت کہ وہ نئے منصوبوں پر عملدرآمد کر سکیں۔ اب تو وہ صرف یہی کر سکتے ہیں کہ جو نقصان ہوگیا، اسے کنٹرول کرنے کی اپنی سی کوشش کریں۔ بہترین حکمت عملی اور سیاست سے پارلیمنٹ سے ایسے قانون پاس کروائیں جو ملک کے لیے دیرپا کارگر ثابت ہوں، ضلعی سطح پر ترقیاتی کام کروائیں ، اس کے لیے ایم این ایز کو فنڈز کی بھرمار کرنے کے بجائے ایسا سسٹم تشکیل دیں کہ واقعی اگلے ڈھائی سالوں میں عوام کو ریلیف ملے، کیوں کہ گزشتہ مہینوں میں آپ نے اربوں روپے کے فنڈز جو کراچی کے ایم این ایز کو دیے وہ کہاں لگے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے؟ نہیں ناں! اس لیے یہ وہی پرانے ایم این ایز یا ایم پی ایز ہی ہیں جن کے منہ کو کرپشن کا خون لگا ہے، انہیں براہ راست پیسہ دینے سے پرہیز ہی کیا جانا چاہیے، اس کے علاوہ مہنگائی کو کنٹرول کریں اور جو طے شدہ قیمت ہے، اگر کوئی اُس سے زیادہ میں فروخت کرتا ہے تو اُسے حوالات میں ڈالیں، جو افسر اپنے فرائض میں کوتاہی برتے اُسے سخت سزا دیں۔ اور اگر جہانگیر ترین کے خلاف محاذ کھولا ہے تو اسے آخر تک پہنچایا جائے اور چینی مافیا کو سزا ملتی نظر آنی چاہیے اس سے دوسرے مافیاز کو بھی سبق ملے گا اور ہم اینگلو سیکسن دور سے باہر نکل آئیں گے!