آئی ایم ایف اور پاکستان : نئے قرضے نئی پابندیاں!

پاکستان بننے کے چند سال بعد سے لے کر آج تک پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، اور1958ءسے لے کر آج تک تقریباََ ہر دور حکومت میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پیسوں کے لین دن کے حوالے سے ”کامیاب“ مذاکرات ہوئے ہیں۔ جن میں ہمیشہ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط منوائیں اور اب جبکہ گزشتہ مہینے اکتوبر میں نئے قرضوں کے لیے دوبارہ پورا مہینہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین مذاکرات ہوئے ہیں تو پاکستان کو روپے کی قدر میں مزید کمی سمیت مختلف اشیاءپر ٹیکسوں کی چھوٹ اور اسٹیٹ بنک کی خود مختاری جیسی سخت شرائط کا پاکستان کو سامنا ہے،جس کے بعد بجلی، پٹرول، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اور اب حالات یہاں تک آ پہنچے ہیں کہ پاکستان کی معیشت پاکستان خود چلانے کے بجائے آئی ایم ایف چلا رہا ہے تاکہ اُس کی اپنی ماہانہ اور سالانہ اقساط بھی نکلتی رہیں اور عوام کو کسی قسم کا ریلیف بھی نہ مل سکے۔ خیر اگر ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلے پاکستان نے 1958ءمیں آئی ایم ایف سے رجوع کیا، اور دسمبر 1958ءمیں پاکستان نے 25ہزار ڈالر قرضہ لیا۔ اس کے بعد قرضہ لینے کی ایسی عادت پڑی کہ پھر چھوٹ نہ سکی۔یعنی 1965ءمیں پاکستان نے 37ہزار 5سو ڈالر قرضہ لیا۔ 1968ءمیں 75ہزار ڈالر، 1971ءمیں 84ہزار ڈالر، 1973ءاور 1974 میں 75ہزار ڈالر، 1977ءمیں 80ہزار ڈالر۔ الغرض1980ءتک پاکستان پر آئی ایم ایف کا قرضہ ساڑھے تین لاکھ ڈالر سے زائد ہوگیا۔ جس کے بعد پاکستان 80 کی دہائی میں امریکا کے ہمراہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کا حصہ بنا۔ اور پاکستان کو یکمشت 7لاکھ 30ہزار ڈالر قرضہ مل گیا۔ بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت شروع ہوا تو قرضے لینے کا سلسلہ نہ تھم سکا اور محترمہ کے دور حکومت میں پاکستان نے ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا ۔ جبکہ محترمہ کے دوسرے دور میں 7لاکھ ڈالر کا قرض لیا گیا۔ 1997ءمیں نواز شریف کا دوسرا دور حکومت شروع ہوا تو پاکستان نے 4لاکھ ڈالر قرضہ لیا۔ مشرف دور حکومت کا آغاز ہوا تو بات لاکھوں ڈالر سے نکل کر کروڑوں ڈالر تک جا پہنچی ۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے دوسرے دور حکومت نے تو رہی سہی کسر ہی نکال دی اور2008ءمیں ریکارڈ 7.6ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ اور پاکستان کا کل قرض 60ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ اس کے بعد ن لیگ کا دور حکومت آیا تو بھی آئی ایم ایف سے کئی بیل آﺅٹ پیکجز لیے گئے جن میں کم و بیش 11ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے ۔ جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی یہ سلسلہ نہ تھم سکا اور آج ایک بار پھر پاکستان آئی ایم ایف کے در پر بیٹھا ہے، اور مزید6سے ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے اس وقت ہماری پوری معاشی ٹیم نیویارک میں موجود ہے۔ خیر مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ کسی سے قرضہ لیتے ہیں تو پھر کسی نہ کسی صورت آپ کو نہ صرف اُس کی شرائط ماننا پڑتی ہیں بلکہ اُس کے لوگوں سے ”ٹریٹمنٹ“ بھی کروانا پڑتی ہے، یہی حال پاکستان کا رہا ہے۔ جس کا نہ تو اپنی معیشت پر کوئی اختیار ہے اور نہ ہی اپنے مرکزی بنک پر۔ اسی لیے ہر دور میں آئی ایم ایف نے اپنے بندوں کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو سنبھالے رکھا جیسے 1993میں نواز شریف حکومت کا خاتمہ ہو گیا اوراس کے بعد معین قریشی کو عبوری وزیر اعظم بنایا گیا جو کہ1981 ئ سے لے کر 1991ءتک کم و بیش دس سال ورلڈ بینک میں سینئر نائب صدر سمیت مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ اس عبوری حکومت نے ایساف کے لیے پالیسی پیپر تیار کیا جس کی توثیق بینظیر نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد کی۔ پھر 1999ءمیں جب مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تومشرف نے شوکت عزیز کو وزیر خزانہ مقرر کیا جو کہ مسلسل تین دہائیوں سے امریکہ کے سٹی بینک میں صدر سمیت مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اور یہ بات بھی محض اتفاق نہ تھی کہ مشرف نے ڈاکٹر عشرت حسین کو سٹیٹ بینک کا صدر مقرر کیا جو وسط ایشیائی ممالک میں ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر رہ چکے تھے۔ پس مشرف نے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو نافذکرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مشرف دور میں تو یہ پالیسیاں انتہائی واضح ہو چکی تھیں۔ اور اس کے بعد سے آج کی تاریخ تک نئی آنے والی ہر حکومت نے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر بھاری قرضے حاصل کیے ہیں۔ اس کے بعد حفیظ شیخ صاحب کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ آئی ایم ایف کے پے رول پر کام کرتے رہے ہیں، جنہوں نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں خاصے تیر چلائے تھے۔ اُس کے بعد موجودہ حکومت میں بھی کئی ایک نام سامنے آئے ہیں جنہیں آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بھیجا ہے۔ جن میں سٹیٹ بنک کے گورنر رضا باقر نمایاں ہیں، موصوف پچھلے دنوں خاصے خبروں میں چھائے رہے جب اُن کا ایک اور بیان سوشل میڈیا کی مہربانی سے اخبارات کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس میں انہوں نے فرمایا کہ روپے کی قیمت گرنے سے بیرونِ ملک رہنے والے ان پاکستانیوں کو جو پاکستان ڈالروں میں پیسہ بھجواتے ہیں بڑا فائدہ ہوگااور ان کی بھیجی ہوئی ڈالروں والی رقم کو جب روپوں میں تبدیل کیا جائے گا تو روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے یہاں مقابلتاً زیادہ روپے ملیں گے۔ بقول رضا باقر‘ اگر اس سال بیرونِ ملک سے تیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ آئے تو روپے کی قیمت میں حالیہ گراوٹ کے باعث پاکستان میں پانچ سو ارب روپے زیادہ آئیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے موجودہ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے آئی ایم ایف کی نوکری کے دوران مصر کی معیشت کو بھلے نقصان پہنچایا ہو مگر انہوں نے کم از کم ایسے بیان کبھی نہیں دیے ہوں گے جس قسم کے بیانات وہ بطور گورنر سٹیٹ بینک پاکستان دے رہے ہیں۔ چلیں بندہ یہ بات تو مان سکتا ہے کہ حکمران‘ وزیر اور عام تام معاونِ خصوصی وغیرہ نالائق اور جاہل ہو سکتے ہیں لیکن اتنے ذمہ دار عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص سے اس قسم کی گفتگو کی امید بہر حال نہیں کی جا سکتی لیکن اب صرف ہماری امید سے کیا ہوتا ہے؟ گورنر صاحب نے جو فرمایا ہے وہ کل عالم نے سنا ہے۔میرا خیال ہے گورنر سٹیٹ بینک کا بھی شاید کوئی قصور نہیں۔ ان کو گزشتہ سترہ ماہ کی صحبت نے اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ہمسایے کا روپ تو نہیں آتا، لیکن اس کی ”مت“ ضرور آ جاتی ہے۔ معاف کیجیے میں نے پنجابی کے لفظ ”مت“ کا مناسب اردو متبادل نہ ہونے کی وجہ سے پنجابی میں ہی لکھ دیا۔ مَت ایک کثیرالمعانی لفظ ہے۔ اس سے عقل‘ سوجھ بوجھ‘ بھلائی کی بات اور اسی قسم کے کئی دیگر مطالب نکلتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ہمسائے کی صحبت آپ کی شکل پر تو اثر نہیں کرتی مگر آپ کی عقل پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔ اپنے رضا باقر صاحب گزشتہ سترہ ماہ سے جس قسم کی صحبت میں بیٹھے تھے اور جس قسم کی کمپنی سے ان کا پالا پڑا ہوا تھا اس کے بعد ان سے ایسے ہی بیانات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بندہ آخر کتنی دیر تک اردگرد سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے؟ ان کی اس منطق پر میں اتنا ہی کہوں گا کہ ایک مشاعرے میں منتظمین نے ایک بزرگ شاعر سے، جس کے گھٹنے میری طرح جواب دے چکے تھے، پوچھا کہ کیا وہ سٹیج کے فرش پر بیٹھ جائیں گے؟ شاعر نے مسکراتے ہوئے منتظمین کو کہا کہ بھائی بیٹھ تو جائیں گے‘ لیکن پھر اٹھ نہیں پائیں گے۔ ہمارے لیے بیٹھنا نہیں، اٹھنا مسئلہ ہے۔ یہی حال ہمارے روپے کا ہے۔ بیٹھ تو گیا ہے اب اٹھنا اس کے بس میں نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟اور پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو چیز ایک بار پیچھے چلی جائے وہ آگے نہیں آ سکی۔ اور جو چیز آگے چلی جائے اُس کا واپس آنا ناممکنات میں سے ایک ہے۔ بہرکیف حالات تو یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے لوگوں کو نہ تو پاکستان سے کوئی سروکار رہا ہے اور نہ ہی یہاں کی عوام سے۔اس لیے اُس کے لوگ اپنی ”جاب“ کرتے ہیں، اور رہی بات موجودہ حکومت میں رضا باقر یا شوکت ترین صاحب کی تو وہ سٹیٹ بینک یا مشیری چھوڑیں گے اور واپس آئی ایم ایف میں رپورٹ کر دیں گے کہ بندہ ڈیوٹی پر واپس حاضر ہے اور جوائننگ دینا چاہتاہے، ہم بھی عجب بد قسمت لوگ ہیں کہ ہمارے ہاں ٹیکنو کریٹ حضرات نالائق حکمرانوں کو کچھ سمجھانے یا سکھانے کے بجائے خود ان کے نقش قدم پر چلنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس میں تعجب کیسا؟ ادھار اور مستعار پر لائے گئے ماہرین ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ماہرین معیشت کو سدھارنے کے حوالے سے کبھی آپ کو لائق مشورے عطا نہیں کریں گے، بلکہ بجٹ بنائیں گے، اپنا پیسہ یا قرضوں کی قسطیں نکالیں گے اور چلتے بنیں گے۔ جبکہ ہمارے لیے یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ نہ تو ہم اپنی معیشت کو خود سے بہتر کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوشش کرتے ہیں کہ درآمدات کو کم سے کم کیا جائے۔ اور پھر اس سے زیادہ شرم کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم، چینی درآمد کر رہے ہیں، حالانکہ زراعت ہمیشہ سے پاکستان کی معیشت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں، پارلیمنٹ کے ارکان نے زراعت کو اولین ترجیح نہیں دی ہے۔ پاکستان میں انگریز کا قائم کردہ آبپاشی کا بہترین نظام موجود ہے۔ ہماری غفلت سے وہ کم اثر ہورہا ہے۔ بے ش±مار چیلنج ہیں۔ جن سے پیداوار متاثر ہورہی ہے۔لیکن ہم ان کرائے کے لوگوں پر اکتفاءکر رہے ہیں، جبکہ اپنے معاشی ماہرین سے ہم نہ تو استفادہ حاصل کر رہے ہیں اور نہ اُنہیں ترجیح دے رہے ہیں بلکہ اُنہیں ہم نے کسی اور کاموں میں لگایا ہوا ہے جیسے اسد عمر کو ہم نے کورونا سے نمٹنے کے لیے لگایا ہوا ہے یہ ایسے ہی جیسے ”نائی کے ہاتھ میں بڑھئی کا سامان اور بڑھئی کے ہاتھ میں اُسترا آجائے! “ پھر اللہ اللہ خیری صلہ #IMF #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan