اسٹیٹ بنک ترمیمی بل: عوام کب تک بے وقوف بنے گی!

کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دو آدمی پیدل سفر پر نکلے دونوں کے ہاتھ میں تھیلے تھے جس میں ضرورت کی اشیاءاور کھانے پینے کا سامان رکھا ہوا تھا، ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب، دونوں کا ٹاکرا کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوگیا۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دوپہر ہوگئی دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ توشہ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ ہر ایک شخص اس انتظار میں تھا کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دسترخوان بچھائے تو اس میں شریک ہوجاو¿ں۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔ بڑی دیر کے بعد بادل ناخواستہ ایک نے تالاب کے قریب نل سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی اور جلدی سے پانی میں ڈبو کر روٹی کا ٹکڑا توشہ دان میں رکھ لیا۔ البتہ پانی غٹا غٹ پی گیااور پھر سو گیا۔ اب دوسرے مائی کے لال کی باری تھی۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، روٹی نکالی اور اس انداز سے روٹی برتن کے اوپر پکڑی کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی سے پڑے۔ پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر اس شخص نے پانی پی لیا۔ اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کردی۔ دونوں ایک دوسرے کا رویہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہمارے خیالات میں اتنی یکسانیت موجود ہے۔ جتنی دو بخیلوں کے خیالات میں ہوسکتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے تھیلے پکڑ کر ایک دوسرے کے مزید قریب آئے اور آپس میں تعارف ہوا، پھر سفر کا مقصد یہ نکل آیا کہ دونوں رشتہ کے تلاش میں نکلے ہیں، ایک اپنے بیٹے کے لئے اور دوسرا اپنی بیٹی کی خاطر۔ دونوں نے خودبخود فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ہم دونوں کے درمیان رشتہ بڑا مثالی رہے گا۔ چنانچہ ان میں سے ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک مکھی چوس کی بیٹی سے ہوگئی۔ اور یہاں سے کہاوت چلی کہ ”ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے“ یعنی ایک ہی طبیعت و نیچر کے افراد کا گروہ۔ اب آپ مذکورہ بالا مثال کو اپنے سیاسی منظرنامے میں فٹ کرنے کی کوشش کریں تو آپ پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ہمارے تمام سیاستدانوں کے خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں میں ہم آہنگی ایک جیسی ہے۔ مطلب سب کی ”طبیعت “یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف بنایا جائے۔ماضی کو چھوڑیں تازہ مثال حاضر خدمت ہے جس میں سینیٹ میں پاس ہونے والے”اسٹیٹ بنک ترمیمی “بل کی ڈرامائی انداز میں منظوری سر فہرست ہے،یہ بل سینیٹ سے اپوزیشن کی اکثریت کے ہوتے ہوئے حکومت نے جس ڈرامائی انداز میں پاس کروایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ تو بالکل کسی فلم کا سین لگا کہ کس طرح اپوزیشن کے اراکین کو چند لمحوں کے لیے ”غائب“ کردیا گیا اور پھر مطلب پورا ہونے پر سب واپس آگئے۔ اور ویسے بھی ماضی گواہ ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی خوبی یہ ہے کہ ایسے مواقع پر تعاون کرنے والے بآسانی میسر آ جاتے ہیں۔ چیئر مین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہو، ایف اے ٹی ایف کا بل ہو یا سٹیٹ بینک ترمیمی بل، پیپلز پارٹی نے ہر موقع پرحکومت کا ساتھ دیا، جبکہ اسمبلی میں اس بل کی سب سے زیادہ مخالفت بھی پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کرتی رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ساتھ اپوزیشن کے آٹھ ارکان اجلاس میں موجود نہیں تھے ، ایک رکن کا عین ووٹنگ کے وقت ایوان سے باہر چلے جانا یقیناً ان کے رویے کو مشتبہ بناتا ہے جبکہ سب سے زیادہ حیرت انگیز معاملہ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی کی غیرحاضری کا ہے۔ انہوں نے اجلاس کی اطلاع تاخیر سے ملنے کا جو عذر پیش کیا ہے اسے خود ان کی پارٹی کے رہنما قمر زماں کائرہ نے بھی قبول نہیں کیا اور کہا ہے کہ گیلانی کو سینیٹ میںموجود ہونا چاہیے تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک اور عرفان صدیقی نے سینیٹ میں اپوزیشن کی شکست کا اصل سبب یوسف رضا گیلانی کی اجلاس میں عدم موجودگی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اس عمل کے نتیجے میں ملک آئی ایم ایف کا غلام بن گیا ہے۔بقول شاعر اب غلاموں کے بھی غلام ہوئے صاحب اقتدار تھے ہم تو خیر اگر مذکورہ بل کی اہمیت کو دیکھا جائے تو یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ بل کو منظور نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ یہ ریاست کے مفاد میں نہیں تھا، پھر اس بل کے مطابق پاکستان کا ریاستی مرکزی بنک یعنی اسٹیٹ بنک خود مختار بنک میں تبدیل ہو جائے گا، چونکہ کسی بھی ریاست کا ایک مرکزی بنک ہوتا ہے، جس کا مکمل کنٹرول حکومت کے پاس ہوتا ہے، حکومت کے تمام اکاﺅنٹس براہ راست یا کسی واسطے سے اسی بنک میں رکھے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب حکومت کو قرض لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ اسی بنک سے رجوع کرتا ہے۔ اور اسے بآسانی آسان شرائط اور کم شرح سود پر قرضہ مل جاتا ہے۔ 1948ءمیں قائم ہونے والا اسٹیٹ بنک آغاز سے ہی براہ راست حکومت کے زیر اثر رہا، لیکن بعد میں اس کی خود مختاری کے حوالے سے کئی ایک فیصلے بھی کیے گئے، کسی دور حکومت میں اسٹیٹ بنک مرکزی حکومت کے پاس چلا گیا اور کسی دور حکومت میں یہ خود مختار ہوگیا، مثلاََ 1997ءمیں اُس وقت کی نگران حکومت نے اسے مکمل خودمختار بنا دیا لیکن بعد میں 2005ءمیں یہ دوبارہ حکومت کے ماتحت چلا گیا۔ اُس کے بعد کی آنے والی حکومتوں نے اس بنک کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا مگر اُس کی تفصیل بہت مفصل ہے اس لیے اُس پر پھر کبھی روشنی ڈالیں گے۔پھر یہ بنک آہستہ آہستہ آئی ایم ایف کے زیر اثر چلتا گیا اور جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی کئی ایک ادارے آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلے گئے تھے، مگر اسٹیٹ بنک رہ گیا تھا۔ لہٰذااس بل کے پاس ہو جانے کے بعد اسٹیٹ بنک صورتحال کیا بنے گی اس میں سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔اب حکومت آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔ کمرشل بینکوں سے ان کی شرائط کے مطابق قرض ملے گا، یعنی کمرشل بینک ایک مرتبہ پھر بہترین منافع کمائیں گے۔ شاید اس لیے سرمایہ کاروں نے بینکوں کے شیئرز خریدنا شروع کر دیے ہیں اور دیگر کاروباروں سے رقم نکال کر بینکوں میں فکسڈ ڈپازٹس کروا رہے ہیں جو کہ معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ بینکوں میں پیسہ رکھنے سے انڈسٹری کا پہیہ رک جاتا ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ اور شرح نمو میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بہرکیف اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری اس لیے بھی شاید ضروری تھی کہ کل یعنی دو فروری کو آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر ملنا ہے جس کے لیے یہ شرط ضروری تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر سب کچھ Decidedہوتا ہے تو پھر عوام کے سامنے ”نورا کشتی “ کیوں؟ یعنی سمجھ سے باہر ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کیا ڈرامہ کر رہی ہے؟ اپوزیشن کیوں اہم مواقعوں پر الیکشن ہارتی ہے؟ حد تو یہ ہے کہ کیا عوام کو ان حکمرانوں اور کرتا دھرتاﺅں نے بے وقوف سمجھ رکھا ہے کہ وہ عمران خان، نوازشریف، شہباز شریف، زرداری ، بلاول، مولانا فضل الرحمن یا کسی دوسرے رہنما کی خاطر آپس میں لڑلڑ کر مر جاتے ہیں ، حالانکہ عوام کو تو اب سمجھ اور شعور آجانا چاہیے کہ یہ سب سیاستدان ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ ایک ایک خاندان کے کئی کئی افراد دونوں تینوں بڑی جماعتوں میں موجود ہوتے ہیں،یہ سب دن میں نورا کشتیاں لڑتے ہیں، اور رات میں اکٹھے محفلیں سجاتے ہیں ۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ آج تک کس سیاستدان کو سزا ہوئی ہے، کسی عام شخص سے اگر ہیروئین برآمد ہو تو خواہ وہ جھوٹا کیس کیوں نے ہو، وہ کئی کئی سال جیل میں سڑتا ہے، مگر یہاں تو سب مائع ہے۔ راناثناءاللہ اسی قسم کے کیس میں گرفتار ہوئے، اور آج باہر ہیں۔ اگر جھوٹا کیس بنایا گیا تھا تو کیس بنانے والوں کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی۔ مطلب یہاں بھی عوام کو بے وقوف بنا دیا گیا۔ پھر جس طرح نوازشریف ملک سے باہر گئے اس طرح کیا کوئی اور شخص جا سکتا ہے؟آپ شہبازشریف کو دیکھ لیں، حمزہ شہباز کو دیکھ لیں، احسن اقبال دیکھ لیں،زرداری صاحب کو دیکھ لیں، خورشید شاہ کو دیکھ لیں، شرجیل میمن کو دیکھ لیں اور ان کے علاوہ دیگر درجنوں سیاستدانوں کو دیکھ لیں ہر ایک پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں ، ہر ایک نیب کے پاس حراست میں رہا مگر مگر کیا کسی سے کچھ برآمد ہوا؟ یعنی عوام کو صرف بے وقوف بنا کر دونوں اطراف سے شدید قسم کی ہوائی فائرنگ ہورہی ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا؟ کیا اس ملک میں کوئی ڈھنگ کا کام کرنے والا سیاستدان یا انقلابی لیڈر نہیں آئے گا جو عوام کو بے وقوف بنانے کے بجائے اُن کا ساتھ دے۔ اُن کے بارے میں سوچے کیوں کہ موجودہ حکومت بھی پرانے لوگوں کی ڈگر پر چل رہی ہے تبھی تو حالات کو سدھارنے کے بجائے چور دروازے تلاش کرتی ہے اور پھر کامیاب ہونے پر وکٹری کا نشان بناتی ہے، اگر ایسا ہی عمل ہر ایک نے کرنا ہے تو یہ ہم میں By Nature فالٹ ہے جسے شاید ہی سدھارا جا سکے! #estate bank of pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan