قومی تعمیر نو ضروری ، مگر سب سے پہلے مورال بلندکیا جائے ؟

دنیا کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو بہت سے ایسے ممالک کی مثالیں ملتی ہیں جن کی تباہی کے دہانے سے واپسی ہوئی، اور اب وہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں، ان میں چین، جرمنی، فرانس ، برطانیہ، ملائشیا اور ترکی وغیرہ جیسے کئی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک نے کیسے ترقی کی اور کیسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوئے ان سب کی کہانی مختلف ہے مگر جو چیز سب میں یکساں ہے وہ ہے قوم کا مورال بلند رکھنا۔ تعلیم، شعور اور آگہی یہ چیزیں ثانوی ہیں۔ لہٰذاسب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کو قوم کا مورال بلند کرنا ہوگا۔ مورال کی معنویت اگر مشاہدے تجزیے اور تجربے کی روشنی میں پرکھی جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ مورال کے بلند یا پست ہونے کا دارومدار اور ہماری اجتماعی زندگی پر اس کا اثر صرف ایک اہم جز یا عنصر (Factor) پر نہیں ہوتا بلکہ مورال پر بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں مثلاً اگر ہماری افواج بہت مضبوط اور قابل بھروسہ ہوں تو یہ ہماری اجتماعی زندگی کی ذہنی کیفیت یا اخلاقی اور معاشی حالت کو مضبوط تر بنانے یا سہارا دینے میں ایک اہم عنصر کا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن جب ہم پاکستان کی موجودہ سیاسی معاشرتی، اخلاقی حالت پر نظردوڑاتے ہیں تو ایک عجیب سی گھٹن کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بے بسی، مایوسی، پژمردگی، آزردگی، احساس محرومی و ندامت ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ مورال کو سمجھانے کے لیے فرنٹ فٹ پر لڑنے والی فوج سے بڑی مثال کوئی نہیں دی جا سکتی، مثلاََ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک فوجی اپنے وطن کے لیے کیوں جام شہادت نوش کرتا ہے، کیوں وہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جان کا نذرانہ پیش کرنے کو ترجیح دیتا ہے، کیوں اُسے سب سے زیادہ عزیز وطن ہوتا ہے؟ یہ سب کچھ ”مورال“ پر منحصر ہوتا ہے۔ جنرل منٹگمری نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا ”Army Marches on Its Belly“ مطلب جس فوج کے لنگر کا انتظام وانصرام لائق اور باصلاحیت افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اُس فوج کا مورال آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا ہے اور خود بخود اُس فوج کے مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم میں مورال کو بلند رکھنے کے لئے فوجیوں کو وقت پر گرم چائے کا مگ اورسگریٹ کا پیکٹ بھی دیا جاتا تھا، اچھا لباس فراہم کیا جاتا تھا۔مثلاََہماری فوج کا مورال بلند رکھنے کے لیے ہی تو سیاچن میں اُنہیں مکھن، پنیر اور ٹن میں پیک سیب، ناشپاتی اور آڑو کی قاش بھی پیش کی جاتی ہےں۔ گھر والوں سے رابطے کے لئے بہترین ڈاک کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ ناموافق موسمی حالت کو بھول کر وطن عزیز کے دفاع کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کو اپنی خوش قسمتی سمجھیں، فوج کی قیادت اُن کے ذہن کو اس طرح Condition کرتی ہے کہ وہ اپنے کردار اور گفتار سے عزم، ہمت، جرا¿ت، استقلال اور استقامت کا نادر نمونہ پیش کرتے ہیں جسے ساری قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے لیکن عوامی سطح پر لیڈر شپ اور عوام کی زندگی میں ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ وہ معاشی ناہمواری کی خلیج ہے جسے پاٹناہماری لیڈر شپ کی اولین ترجیح ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہورہا ہے۔ میں بہت بنیادی مثال دوں گا، آٹے، چاول، دالوں اور دوسری اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ مصنوعی قیمتوں کا گراف آسمان سے باتیں کررہا ہے لیکن اس سیل رواں کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والے دندناتے پھررہے ہیں۔ لیکن ایسی سنگین صورت حال کے باوجود حکمرانوں کے عیش و طرب میں رتی برابر فرق نہیں آیا ہے۔ وہی فراٹے بھرتی بلٹ پروف کاریں جن کے پچھے کم از کم 50 گاڑیوں کا فضول قافلہ محو خرام نظر آرہا ہوتا ہے۔ کروڑوں اور اربوں روپے شخصیات کی تیمارداری، ناز و نخرے پر خرچ کئے جارہے ہیں۔اور احتساب کے نام پر اربوں روپے ان ملزمان کی سیکیورٹی پر ،ان کی تفتیشوں پر اور ان کے پروٹوکول پر لگ رہا ہے، مگر فائدہ کچھ بھی نہیں ہو رہا۔اور پھر یہیں سے قوم کا مورال ڈاﺅن ہو جاتا ہے۔ اور سب اپنے اپنے حصے کا مال بچانے میں لگ جاتے ہیں۔ مہاتیر محمد نے اقتدار سنبھالتے ہیں ملک میں تعلیم کا نظام بہتر کرنے سے پہلے جو کام کیا تھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کے سامنے ایک نعرہ ”We Can Do“ یعنی ہم کر سکتے ہیں! یہ نعرہ ملائشیا میں قومی نعرہ بن گیا، اس نعرے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ملایشیا کی 80فیصد اپوزیشن نے بھی ملک کو سنوارنے میں مہاتیر محمد کا ساتھ دیا۔ اور آج ملایشیا کو دیکھ لیں پروڈکشن سے لے کر مینو فیکچرنگ تک صحیح معنوں میں وہ لگتا ہی نہیں ہے کہ ”اسلامی ملک“ ہے۔ یعنی اسلامی ممالک میں مسائل ہی اور طرح کے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کریں یا نہ کریں، امریکا کی دی ہوئی امداد قبول کریں یا نہ کریں، کون سعودی بلاک میں بیٹھا ہے اور ایرانی بلاک میں بیٹھا ہے، کون کس کا پٹھو ہے اور کون امریکا ، برطانیہ و روس کی کٹھ پتلی وغیرہ ۔ ؒخیر بات ہو رہی تھی وطن عزیز کے تعمیر نو کی تو میرے خیال میں سب سے پہلے حکومت ، خاص طورپر وزیر اعظم عمران خان کو قوم کا مورال ٹھیک کرنا چاہیے، اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، کیوں کہ خدشہ ہے کہ احتساب کرنے کے چکر میں جو پاس ہے وہ بھی گنوا دیا جائے گا۔ اگر حکومت ایسا کرتی ہے اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ لائحہ یا مضبوط سسٹم بنا لیتی ہے اور مستقل میں کرپشن کے آگے بند باندھ دیا جاتا ہے تو تحریک انصاف کا یہی قوم پر سب سے بڑا احسان ہوگا۔ اُس کے لیے سکول لیول سے ہی قوم کا مورال ٹھیک کرنا پڑے گا، ہنگامی پروگرام شروع کیے جائیں، طلبا ءچونکہ قوم کے معمار ہوتے ہیں اُن کا وژن بلند کیا جائے، انہیں سمجھایا جائے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اور ہم نے ملک و قوم کے لیے آگے کیا کرنا ہے۔ ہمیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کیوں کہ بے شمار پاکستانی جن کے پاس پیسہ ہے انہیں اس چیز کا علم ہی نہیں ہے کہ پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے، وہ قومیت کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنے پیسے کو سفید و سیاہ کرنے کے چکر میں لگ جاتے ہےں، وہ یہ سوچتے ہےں کہ اُس کا پیسہ حکومت کی نظروں سے کیسے بچایا جائے، کیسے پیسہ دوگنا کیا جائے، کیسے ٹیکس بچایا جائے ؟ کسی مسئلے کو فیس کرنے کے لیے قوم کا یکجا ہونا نہایت ضروری ہے، جس طرح ہم مل کر کسی قدرتی آفت کا مقابلہ کرتے ہیں اسی طرح ہمیں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مقابلہ کرنا ہوگا۔ فی الوقت تو ہم قدرتی آفت یعنی کورونا کو ہی سنجیدہ نہیں لے رہے۔مثلاََابھی بھی آدھے سے زیادہ پاکستان یہ ہی نہیں مانتا کہ کورونا ہے بھی کہ نہیں ! لہٰذاقومی تعمیر نو کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے، ایجوکیشن بجٹ کو بڑھا کر اساتذہ اور تعلیمی سیکٹر کا مورال بلند کیا جائے، اپنے تعلیمی نظام کا پوری طرح سے جائزہ لینا چاہئے جو اِس وقت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہمیں بیرون ملک کی معروف یونیورسٹیوں میں کم از کم 70,000افراد کوپی ایچ ڈی کی تربیت دے کر اپنے سائنسی اداروں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اور تنخواہوں اور لبرل ریسرچ گرانٹس کی کارکردگی پر مبنی میعاد ٹریک نظام کی بحالی کے ساتھ انہیں واپس پاکستان آنےکی طرف راغب کرنا ہوگا۔ پھر ہمیں صوبائیت کے چکر سے نکلنا ہوگا، کیوں کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ترقیاتی فنڈز کا ایک بڑا حصہ صوبوں کو منتقل کردیا گیاہے جو ہمارے بعض بدعنوان رہنماﺅں کے غیر ملکی ناجائز اثاثوں میںتبدیل ہوگیا۔ بلدیاتی انتخابات کروانے میں صوبائی حکومتوں کی ہچکچاہٹ نے ہمارے پارلیمانی نظام کو بے نقاب کردیاہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں مندرجہ ذیل الفاظ میں صوبائیت کے زہر کے بارے میں متنبہ کیا تھا” آپ سے کہتا ہوں کہ اس صوبائیت سے نجات حاصل کرو، کیوں کہ جب تک آپ اس زہر کو پاکستان کی سیاست میں برداشت کریں گے، کبھی ایک مضبوط قوم نہیں بن سکیںگے، اور آپ کبھی اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکیں گے جو میری خواہش ہے کہ ہم حاصل کریں“ (تقریر، عوامی جلسہ، ڈھاکہ، 21مارچ 1948)۔ افسوس، تاریخ نے اسے سچ ثابت کردیااور آج ملک صوبائیت کا شکار ہے۔ خیر ہمیں صنعتی انقلاب کی طرف بھی جانا ہوگا، ہمارے لیے یہ بات باعث افسوس ہے کہ اس خطے کے عوام نے نہ تو پہلے صنعتی انقلاب(1765)، نہ ہی دوسرے صنعتی انقلاب(1870) اور نہ ہی تیسرے صنعتی انقلاب(1969) میں حصہ لیااور اب جب کہ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب میں قدم رکھنے والی ہے تو ابھی بھی ہم دنیا سے ٹیکنالوجی کے میدان میں 20سال پیچھے ہیں، ویسے تو دنیا مصنوعی ذہانت، اگلی نسل،توانائی ذخیرہ کرنے کے نظام اور بجلی کی گاڑیوں میں پیشرفت کے ساتھ پانچویں صنعتی انقلاب کا آغاز کرچکی ہے، لیکن ہم ایک سوئی تک چین سے منگوا کر سہل پسند ہوتے جارہے ہیں، لہٰذاہمیں صنعتوں کو فروغ دے کر اپنی پراڈکٹس کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ دنیا میں ہماری بھی مارکیٹ بن سکے۔ لہٰذاان سب کاموں کے لیے فی الوقت اگر خان صاحب کو ملک کو ٹھیک کرنا ہے تو انہیں کشکول اُٹھانا ہوگا، یہ کشکول کسی سے پیسے لینے کے لیے نہیں بلکہ ملک کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے سب کے پاس جانا ہوگا، ہر اُس بندے سے مذاکرات کرنا ہوں گے جو ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، ”رائٹ پرسن فار رائٹ جاب“ والا فارمولا اپنانا ہوگا۔ اپوزیشن کو بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور میرے خیال میں اپوزیشن پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیوں کہ اُسے علم ہے کہ ملک کی بربادی میں حکومت کا کم اور اُن کا ہاتھ زیادہ ہے۔ اس لیے وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں، اور ملک کو اس جھنجٹ سے نکالنے میں مدد کریںکیوں کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان ہی نہ رہا تو ہم کیسے رہیں گے!