یزیدیت کا مقابلہ کرنے کیلئے تعلیم بہت ضروری!

آج یوم عاشور ہے۔آج سے چودہ صدیاں قبل وہ کیا دن تھا جب حسینؓ ابن علیؓ خود تو اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے لیکن اپنے ساتھیوں کو بار بار کہتے رہے کہ اگر وہ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہاں تک پیشکش کی کہ جب رات کے اندھیرے گہرے ہوں، چراغ گُل کر دیے جائیں اور انہیں جاتے ہوئے کوئی دیکھ بھی نہ سکے تو وہ جا سکتے ہیں۔اپنی زندگی کے وہ خود مالک ہیں وہ جیسے چاہیں اپنی زندگی گزاریں، وہ قطعاً پابند نہیں کہ وہ بھی اصولی موقف کی خاطر نواسہ رسول کے ساتھ کھڑے ہو کر دکھ و اذیت برداشت کریں۔ ان جانثار ساتھیوں کو بار بار کہا گیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں جا سکتے ہیں تاکہ جاتے ہوئے انہیں شرمندگی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے لیکن ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام حسینؓ کے ساتھ ان کے قافلے کے سارے لوگ قوتِ ایمانی سے استقامت کی دیوار بن کر کھڑے رہے، ہو سکتا ہے کہ جانے والے مزید دس، بیس یا پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ جی لیتے لیکن آج ان کا نام ان بہادروں کے ساتھ نہ لیا جاتا جنہیں یقیناً اللہ کے ہاں عظیم مقام حاصل ہے۔آج کے دن ہم اُس دن کو یاد کرتے ہیں جس دن یزید کے ظلم نے حسینؓ کو امر کر دیا۔ وہ دن جس دن ارض کربلا پر خلافت راشدہ کو ملوکیت میں بدلنے کی کوشش کیخلاف سیدہ فاطمہؓ کے لعل سبط رسول فرزند حیدر حسین ابن علی نے کلمہ الحق کہتے ہوئے یزید کی بیعت سے انکار کا پرچم سر بلند رکھنے کی خاطر اپنی جان اپنے بیٹوں ، بھتیجوںاور بھائی سمیت اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی قربانی دے کر قیامت تک کے دنیا بھر کے مسلمانوں کوکا ایسا درس دیا جو تاقیامت قطع استبداد کرد کا نشان بن گیا۔ بقول شاعر چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پہ لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہم محض واقعات کو یاد کرکے نوحہ کناں ہوتے ہیں ،ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطرگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم کربلا کے میدان کی اُس قربانی کو اپنے لیے مشعل راہ بناتے ہوئے اپنی زندگی اس واقعے سے حاصل سبق کے تحت گزاریں، ملک اور دین کےلیے وہ کچھ کریں جس کا وقت متقاضی ہے۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یزید ایک شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک سوچ کا نام ہے،اور پھر جو یزید کا ساتھ دیتے رہے، جن میں ابن زیاد، شمر وغیرہ اُن کا حال بھی آپ کے سامنے ہے، کہ کس طرح وہ عبرت کا نشان بنے، اُن کی کس طرح اموات ہوئیں، خود یزید کی لاش تین دن اُس کے محل میں پڑی رہی، کسی نے نہ اُٹھائی، بلکہ اُس کے بیٹے نے خلافت کا بوجھ اُٹھانے سے بھی انکار کر دیا۔ آج بھی جو لوگ ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں وہ یزید کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اور جانتے بوجھتے، اپنے جھوٹے مفادات کے لیے جو ملکی مفادات کو قربان کرتے ہیں وہ بھی یزید ہی ہیں۔ اور اب یزیدیت تلوار سے رکنے والی نہیں بلکہ تعلیم سے رکنے والی ہے۔ اور پھر اسی طرح حسین ؓ بھی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔ آج جن لوگوں نے قوم کے پیسے کھائے ہیں، قوم کو اس حال تک پہنچایا ہے، قوم کے ساتھ ہر لمحے جھوٹ بولا ہے، وہ وقت کے یزید ہیں۔ آج جن حکمرانوں اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیحات دیں وہ بھی وقت کے یزید ہیں، آج جن منصفوں نے کسی کے دباﺅ میں آکر یا پیسے لے کر یا کسی کی خوشنودی کے لیے فیصلے دیے وہ بھی وقت کے یزید ہیں، آج جن طاقتوروں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزور کو دبایا وہ بھی وقت کے یزید ہیں۔ اور جو ملک کے عظمت کے لیے قربان ہوگئے وہ وقت کے حسینؓ ہیں، جو دوسروں کے لیے جیتے رہے اور اپنے لیے کچھ نہ کیا وہ بھی وقت کے حسین ؓ ہیں، جو دوسروں کے چہروں پر خوشی دیکھنے کے لیے ہر پل اپنے آپ کو قربان کرتے رہے وہ بھی وقت کے حسینؓ ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج ”حسینؓ “ کم اور ”یزید “زیادہ ہیں۔ آج بھی ہمیں یزیدیت کے خلاف جہاد کرنے کی اشد ضرورت ہے، یہ جہادبندوق سے نہیں قلم سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایجوکیشن سسٹم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، یہاں طالب علم ڈگری کے لیے نہیں تعلیم کے لیے اداروں میں داخلہ لیں۔ آج تک کسی ملک نے ترقی نہیں کی جن کا لٹریسی ریٹ کم ہو، میں یہاں امریکا میں موجود ہوں اور اسی کی مثال دیتا ہوں کہ دنیا کی ٹاپ 20یونیورسٹیاں یہاں ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کا مطالعہ بہت وسیع ہے، یہاں ایجوکیشن ریٹ بہت اوپر ہے، یہاں ہم جس کافی شاپ میں بھی جاتے ہیں وہاں 99فیصد لوگوں کے پاس یا تو لیپ ٹاپ موجود ہیں یا کتابیں موجود ہیں، یہاں ٹرین، بس میں اگر بیٹھیں تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے فیصدی لوگ ہاتھوں میں کتاب لیے بیٹھے ہیں۔ میرے خیال میں امریکا کے آگے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ بھی مطالعہ ہی ہے۔ میں یہ بات بھی دعوے سے کہتا ہوں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ روس یا چین امریکا کو پکڑ لیں گے میری رائے میں امریکا اُن سے بہت آگے ہے، اور اُن کا ایسا کہنا محض خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔، جبکہ ہماری شرح خواندگی سب کے سامنے ہے۔ اس قدر کم شرح خواندگی کے ساتھ کوئی ان وقت کے یزیدوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔الغرض ہمیں وقت کے یزیدوں کو شکست دینے کے لیے اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنا ہوگا، ایجوکیٹ کرنا ہوگا، اور زمانہ شناس ہونا ہوگا۔ خیر ہم دوبارہ 10محرم یوم عاشور پر آتے ہیں، اس دن کو گزرے آج 14سو سال گزر گئے مگر آج بھی حسینیت زندہ ہے، اور اگر آپ نے اس دنیا میں امر ہونا ہے تو قربانی کا جذبہ آپ کی تربیت کا عکاس ہونا چاہیے۔ امام حسینؓ نے بھی خلافت راشدہ کے دور میں پرورش پائی، انہوں نے اصحاب رسول کو چلتے پھرے حکومت کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ بھلا کب یہ برداشت کر سکتے تھے کہ جس اسلام نے آزادی مساوات اور انصاف کا درس دیا ہے جس کی بنیاد پرخلفائے راشدین نے عادلانہ حکومت کی۔جب اس پاکیزہ نظام کی جگہ روم و ایران کے بادشاہوں کی طرح خاندانی بادشاہت کو فروغ دیا جانے لگا۔ اس پر ظلم یہ کہ عوام سے زبر دستی بیعت بھی لی جانے لگی۔یہی وجہ ہے جب امام عالیٰ مقام کو یزید کی بیعت کے لئے مجبور کیا گیا تو آپؓ نے اس سے انکار کر دیا۔ اس وقت خود یزید کے دارالسطنت شام اور عراق سے ہزاروں افراد نے امام کو اپنی قیادت کے لئے بلایا کہ نظام حکومت میں جو خرابی پیدا ہو رہی ہے اسے درست کیا جائے۔ ملوکیت کی بجائے ایک مرتبہ پھر خلافت راشدہ کو زندہ کیا جائے۔ آپؓ ان لوگوں کے بار بار اصرار پر عراق روانہ ہوئے تو مدینہ میں آپ کے تمام رشتہ داروں خاندان والوںاور دوستوں نے آپؓ کو منع کیا کہ ان کوفیوں اور شامیوں کی باتوں پر نہ جائیں یہ حکومت سے ڈر کر آپؓ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔لیکن آپؓ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اگر آپؓ اس وقت رک جاتے تو پھر ملوکیت کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی باقی نہ رہتا اور امت میں خلافت و ملوکیت کا وہ فرق نمایاں نہ ہوتا جو آپؓ کے خون نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں لکیر کھینچ کر واضح کر دیا کہ خلافت کیا ہے اور ملوکیت کیا ہے۔ آپؓ اور آپؓ کے ساتھیوں نے بھوک ، پیاس ،تکالیف اور خوف برداشت کرکے جان و مال کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی جانوں کو خدائی احکامات کے تحت نظام قائم کرنے کی جدوجہد میں قربان کرکے تسلیم ورضا کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔آپ جانتے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی باپردہ باعظمت خواتین اور بچوںکے ساتھ ظلم و ستم کی راہ اختیار کی جائے گی۔ مگر بحکم قرآن آپ نے راہ خدا کی عظمت اور احکامات خداوندی کی بجا آوری کے لئے جان مال اور اولاد کی قربانی بھی دی اور آپ کے پاکیزہ خواتین نے بے پردہ کوفہ و شام کے بازاروں میں پھرائے جانے کا عظیم جانکاہ صدمہ بھی برداشت کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں جہاں کوئی ظالم و جابر مسلمانوں کو زبردستی اپنا غلام بنانے کی کوشش کرے وہاں مسلمانوں کو سیدنا امام حسینؓ کی حیات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہر روز کو یوم عاشور اورہر سرزمین کو کربلا بنا دینا چاہیے ،چاہے اس کے لئے جان و مال آل و اولاد کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ بہرکیف حسین اور حسینیت ، محض ایک تاریخ کا نہیں بلکہ ایک سیرت اور طرزِ عمل کا نام ہے۔ ایک گائیڈ لائن کا نام بھی ہے کہ جس دین کے دامن میں ایک جانب ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی قربانی ہو اور دوسری جانب ذبح عظیم حضرت امام حسینؓ عالی مقام کی ان گنت قربانیاں ہوں تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس دین کی بقا کا ذمہ تو خود اللہ تعالی نے لے رکھا ہے اور یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر کا ہی معجزہ ہے۔دوسری طرف معرکہ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شعور ، حریت ، خودداری ، جرات ، شجاعت ، ایثار وقربانی اور صبر و انقلاب کا مکمل فلسفہ ہے۔ اس کرب و بلا میں ننھے مجاہدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کسی جواں اور پیر سالہ کا۔ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ ہی کربلا شناس ہے جنہوں نے باوجود کم سنی کے بھی مقصد نبوی اور اسلام کو زندہ رکھا۔ ان کربلا کے شہیدوں نے اپنی جرات اور کردار و عمل سے اسلام کو ایک حیات جاودانی عطا کر دی۔آج امام عالی مقام کا نام کیوں زندہ ہے اور یزید کیوں ایک طعنہ بن کر رہ گیا کیونکہ امام حسین ؓنے ہمیشہ حق داروں کا مظلوموں کا ساتھ دیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے آئندہ آنے والی محکوم قوموں کو جدوجہد کے لئے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر دیا ، امام کا فرماں ہے ” کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی۔ “یہاں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ امام کی قربانیاں کسی ایک امت ، خاص فرقے یا کسی ایک مخصوص فرد کے لئے نہیں تھیں بلکہ امام کے نزدیک انسانیت کی بھلائی مقصود تھی ۔اُن کا ماننا تھا کہ اس زمین پر وہی رہے گا جو قربان ہوگا، جبکہ آج ہمارے سیاستدان جنہوں نے عوام کو لوٹا وہ جلد پکڑ میں ہوں گے کیوں کہ امام نے انہیں بھی وقت کے یزید کہا ہے جو عوام کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ اُن کی خرابی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔