اکیلا عمران خان !

آج ماحول ایسا بن رہا ہے کہ یہ عمران خان کو جلد یا بدیر انتخابات کے لیے نااہل کر دیں گے، ورنہ کبھی عدالتوں میں اُن پر 50سے زائد کیس نہ بنتے، کبھی اُس کے ساتھی رہنماﺅں کو گرفتار نہ کرتے، اور پھر کبھی تین دہائی پرانا ٹیریان وائیٹ کیس پر لارجر بنچ نہ بنتا۔ اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر حد تو یہ ہے کہ ان کے ساتھی رہنماﺅں فواد چوہدری ، شیخ رشید و دیگر کو گرفتار کرکے” سبق“ سکھایا جا رہا ہے اور پھر مزید گرفتاریوں کی بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے اور یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اُن پر بھی کئی ایک مقدمات زیر سماعت ہیں جیسے اُن کے خلاف اس وقت سب سے” اہم“ کیس اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں ہے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے بھجوایا گیا ہے۔ اس کیس میں عمران خان پر توشہ خانہ سے مہنگی گھڑیوں سمیت کئی قیمتی تحائف کی خرید و فروخت میں بدعنوانی کے الزامات ہیں۔الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال اکتوبر میں توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے نااہل کر دیا تھا۔ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹیریان وائٹ کیس بھی زیرِ التوا ہے جس میں الزام ہے کہ عمران خان نےالیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے کاغذات میں اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان کا نام ظاہر نہیں کیا۔ لہٰذا انہیں غلط بیانی پر سزا دی جائے۔ اس کیس کی تازہ کارروائی کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کو ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ آپ کی جانب سے 2018 میں کیس سننے سے معذرت کی گئی تھی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے اس کیس کے لیے لارجر بنچ تشکیل دے کر سماعت 9فروری تک کے لیے ملتوی کر دی۔ پھر عمران خان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ ہی میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی زیرِ التوا ہے جس پر سماعت جاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے آٹھ سال کے بعد رواں برس اس کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔ عمران خان کے خلاف سائفر معاملے سے متعلق بھی ایف آئی اے میں انکوائری جاری ہے۔ اگر اس معاملے میں عمران خان کے خلاف شواہد پائے گئے تو انھیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کی توہین، پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے معاملے اور انتخابی اخراجات جمع نہ کرانے کے کیسز بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں زیر سماعت ہیں۔ الغرض یہ وہی والی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جو 1977ءمیں بھٹو کو درپیش تھی۔ اُس وقت بھی ساری جماعتیں، سارے ادارے ایک طرف اور بھٹو ایک طرف تھے، ملک کو 1973 کا پہلا متفقہ آئین دینے اور ’سیاست کو ایوانوں سے میدانوں تک لانے والے‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بالکل عمران خان ہی کی طرح محض ساڑھے تین سال بعد ہی ایک ’متحدہ‘ حزب اختلاف کی ”مشترکہ“ مخالفت کا سامنا ”پاکستان نیشنل الائینس“ (پی این اے) کی صورت میں کرنا پڑا۔منتخب وزیراعظم بھٹو کے خلاف یہ تحریک ملک کی نو مختلف سیاسی جماعتوں کے اُس اتحاد نے منظم کی جسے عرف عام میں ”نو ستارے“ بھی کہا جاتا تھا۔ پانچ جنوری 1977 کو قائم ہونے والے ’پی این اے‘ کے اس اتحاد میں مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام، ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعتِ اسلامی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمیعت علمائے پاکستان، اختر مینگل کے والد عطا اللّہ مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی، عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ (قیوم)، پیر پگاڑا اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے موجودہ سربراہ سید صبغت اللہ شاہ پیر پگاڑا کے والد شاہ مردان شاہ کی مسلم لیگ (فنکشنل)، نوابزادہ نصر اللّہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور اصغر خان کی تحریک استقلال شامل تھیں۔جیسے آج ہر طرح کی سوچ رکھنے والی مرکز پسند، وطن پرست، قوم پرست، جمہوریت پسند اور مذہبی جماعتیں اپنی تمام نظریاتی تفریق کے باوجود ایک نکتے یعنی عمران خان کی مخالفت میں ایک جھنڈے تلے جمع ہیں، بالکل اسی طرح پی این اے کی تشکیل بھی صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہوئی تھی اور سب جماعتیں ایک ہی نکتے پر متحد دکھائی دیتی تھیں کہ جس قیمت پر بھی ہو ذوالفقار بھٹو کو اقتدار سے نکال دیا جائے۔پی این اے کے جھنڈے کے سبز رنگ نے اس کے سخت گیر مذہبی ہونے کے تاثر کو مزید گہرا کر دیا تھا جبکہ جھنڈے پر نو ستاروں کی موجودگی نے اسے ”نو ستارے“ کا عوامی نام بھی دے دیا تھا اور اس تحریک کو نظام مصطفیٰ تحریک کا نام اور نعرہ دینے سے یہ قیام کے فوراً ہی بعد دائیں بازو کے زیر اثر تحریک دکھائی دینے لگی۔اسی لیے تمام جماعتیں بھٹو کے نظریات کے مخالف تھیں۔ اس کے علاوہ سیاسی مماثلت کے طور پر عمران خان اور بھٹو کے دور میں ایک قدرِ مشترک اسلامی ممالک کی کانفرنس بھی کہی جا سکتی ہے۔22 مارچ 2022 کو دنیا بھر کے 57 اسلامی ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں تب منعقد ہوا تھا جبکہ بالکل اِسی طرح 22 فروری 1974 کو اسی تنظیم او آئی سی کا سربراہ اجلاس لاہور میں ا±س وقت منعقد ہوا تھا جب ذوالفقار بھٹو وزیر اعظم تھے۔اور اُن کی مقبولیت بھی عروج پر تھی۔ ذوالفقار بھٹو نے اکیلے اور اپنے بل بوتے پر سیاست کی اور یہی وجہ تھی کہ بھٹو صاحب کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہوا اور یہ اندازہ غلط بھی نہیں تھا۔ اور اسی کامیابی و مقبولیت کے پیشِ نظر ذوالفقار بھٹو کے بعض مشیروں نے انھیں آئندہ م±دت کے لیے بھی وزیراعظم بننے کے لیے قبل از وقت انتخابات کا مشورہ دیا تاکہ زیادہ اکثریت سے دوبارہ انتخابی کامیابی حاصل کر کے مزید طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ طویل المدت اقتدار بھی حاصل کر لیا جائے اور بھٹو صاحب نے اپنی مقبولیت ہی کی بنیاد پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔لیکن پھر جب تحریک چلی تو آج ہی کی طرح حکومت و حزب اختلاف دونوں نے جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں سے زبردست سیاسی فضا بنا دی، یہ سیاسی گہما گہمی ملک بھر کے شہری علاقوں میں زیادہ مو¿ثر رہی۔یعنی دو جلوس شاہراہ فیصل (کراچی) پر بھی نکالے گئے۔ ایک اصغر خان نے نکالا تو ایک ذوالفقار بھٹو نے۔ ہم نے بطور طالبعلم دونوں دیکھے۔ دونوں میں زبردست حاضری تھی۔وہی اصغر خان جو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے 1960 کے اواخر میں گرفتاری دے چکے تھے۔ انھوں نے ہی بھٹو کے خلاف جگہ جگہ جلسے کیے اور جلوس نکالے اور ذوالفقار بھٹو کا آخری جلسہ ککری گراو¿نڈ پر ہوا تھا جو رات کے چار بجے تک چلا۔ 2011 میں شائع ہونے والی غفور احمد کی کتاب ’پھر مارشل لا آ گیا‘ کے مطابق یہ اصغر خان ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے فوجی بغاوت اور ذوالفقار بھٹّو کو پھانسی دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ بڑھتے ہوئے پ±رتشدد مظاہروں احتجاج اور سیاسی عدم استحکام کے تناظر میں سیاسی حلقوں کے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کیے جانے والے مطالبات بالآخر رنگ لا کر رہے۔ مہینوں جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں اور احتجاج کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماو¿ں کے مطالبات کے تناظر میں بالآخر 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹّو کو ’معزول‘ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مارشل لا نافذ کر دیا۔لیکن 24 جنوری 1978 کو ذوالفقار بھٹّو کی مخالفت کے لیے قائم ہونے والا حزبِ اختلاف کا اتحاد یعنی پی این اے اپنے ’مقاصد حاصل‘ کر لینے پر ’تحلیل‘ ضرور کر دیا گیا۔ قصہ مختصر کہ میں اُس وقت گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا، یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا ہے، مطلب وہی لوگ جو بھٹو کے خلاف تھے، آج وہی عمران خان کے خلاف ہیں۔ اور آج 44سال گزرنے کے بعد ہم شدت سے یاد کرتے ہیں کہ بھٹو درست تھا۔ اگر خدانخواستہ عمران خان کو کچھ ہوا تو ہم سب چند سال بعد ہی خان کو پوجتے نظر آئیں گے۔ اُس وقت بھی بھٹو کے خلاف ایسے ہی کمپین لانچ کی کر دی گئی تھی، بھٹو پر بھی اُس وقت ایسے ہی الزام لگائے جاتے تھے کہ وہ شرابی تھے، اُن میں فلاں خرابی تھی، وہ انتہا کے لبرل تھے وغیرہ ۔ یعنی بالکل ایسے ہی الزام جو آج عمران خان پر لگائے جا رہے ہیں بھٹو پر بھی لگائے جاتے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کے دور میں کون فرشتہ ہے؟ آپ بھٹو یا عمران خان کو چھوڑیں بقول جمشید دستی اس وقت 60فیصد سے زائد ممبران صوبائی و قوم اسمبلی شراب پیتے ہیں، اُن کا کیا کرنا ہے؟ حتیٰ کہ پاکستان میں شراب بنانے والی کمپنی کہتی ہے کہ پاکستان میں 50فیصد سے زائد لوگ شراب پیتے ہیں، تو اُن کا کیا کرنا ہے؟ اور اس کو بھی چھوڑیں آپ نوازشریف کے معاشقوں کو ڈسکس کرلیں تو کئی کالم اُن کی رنگین مزاجی پر لکھے جا سکتے ہیں۔ آپ زرداری صاحب کی سیاسی تاریخ پڑھ لیں، آپ کے سامنے سب کچھ آشکار ہو جائے گا۔ لیکن قصور صرف عمران خان کا ہے! وہ اس وقت اکیلا جنگ لڑ رہا ہے، میں اُس کا سپوکس پرسن تو نہیں مگر میرا سادہ سا مطالبہ یہ ہے کہ عمران خان کو ایسے کیس میں پھنسایا جائے جس میں قوم کو واقعی نظر آئے کہ وہ Guilty ہے۔ مطلب وہ کرپٹ نہیں ہے، قوم کے لیے بہتر ہے ، ملک کے لیے سود مند ہے، چوری ، کرپشن ختم کرنا چاہتا ہے تو اور کسی کو کیا چاہیے؟ جھوٹے اور بھونڈے کیسز ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے، ملک میں دہشت گرد سر پر آن کھڑے ہیں، معیشت نے ہماری چولیں ہلا دی ہیں، اور پھر آخری بات کہ اُس وقت اُس غیر سیاسی بیٹی ٹیریان پر کیا بیتے گی جسے مستقبل قریب میں پورا پاکستان ڈسکس کر رہا ہوگا ! اور سنجیدہ طبقہ شرم سے پانی پانی ہو رہا ہوگا! لہٰذااقدامات وہ کریں جو صحت مند بھی ہوں اور معاشرے کی تربیت بھی کریں۔ اخلاق سے گری حرکتیں تو بھانڈ کیا کرتے ہیں، پڑھے لکھے لوگ نہیں!