بڑے صوبے کا بڑا ”نگران“محسن نقوی اور ”بڑی “ ذمہ داریاں !

پنجاب کی سطح پر نگران سیٹ اپ کا بحران فی الوقت ختم ہوا اور الیکشن کمیشن نے آئین کے مطابق نئے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کر لیا، جس پر نہ تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی راضی ہیں اور ہی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان۔ دونوں حضرات ہی اس تقرری کے خلاف سپریم کو رٹ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اُن کے نزدیک نگران کابینہ کی واحد ذمہ داری شفاف،غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد ہے،اسے یقینی بنانا نگران سیٹ اپ کی واحد آئینی ذمہ داری ہے،اسی لئے نگران وزیر اعلیٰ کا غیر جانبدار ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے ،لیکن محسن نقوی پر طرح طرح کے الزام لگائے جا رہے ہیں، مختلف قسم کی تصاویر نکال نکال کر سامنے لائی جارہی ہیں کہ ان کا تعلق فلاں شخصیت سے ہے، یا اُنہیں فلاں جماعت کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ بلکہ بہت سے حلقوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ نقوی صاحب زرداری اور چوہدری شجاعت کے بہت زیادہ قریب ہیں۔یہاں آپ سیاستدانوں کی کمزوری کہہ لیں یا سسٹم کی کہ نگران وزیرا علیٰ کا انتخاب بھی خود نہ کر سکے۔ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ الیکشن کمیشن بھی ایک غیر جانبدار سیٹ اپ بنانے میں ناکام رہا ۔ ویسے یہ ہر پانچ سال بعد نگران سیٹ اپ بہت سوں کو ایکسپوز ضرور کر دیتا ہے، اور نہ جانے ایسی کونسی مجبور تھی کہ نگران سیٹ اپ جیسا ”چکر“ ہمارے بڑوں نے آئین میں رکھ دیا ورنہ اس طرح کی مثال 200ممالک میں ہم جیسے اکادکا ممالک میں ہی ملتی ہے۔ آپ دور نہ جائیں ”ازلی“ دشمن بھارت کو ہی دیکھ لیں۔ جہاں الیکشن کمیشن اس قدر مضبوط ہے کہ کسی کی جرا¿ت نہیں ہوتی کہ وہاں آئین سے ہٹ کر کوئی کام کر لیا جائے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ سوا ارب آبادی والے ملک بھارت میں الیکشن کا پراسس سالہا سال تک چلتا رہا ہے، لیکن الیکشن کے دوران کوئی امیدوار کسی انتخابی عملے پر کوئی الزام نہیں لگاتا، دھاندلی کا لفظ تک استعمال نہیں ہوتا،جو نتائج آتے ہیں اُسے سب تسلیم کرتے ہیں، جنہیں شکایت ہو تی ہے وہ انتخابی ٹربیونلوں کے پاس جاتاہے اور وہاں سے جو بھی فیصلہ ہو ، اُسے تسلیم کرتا ہے۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ درجنوں جماعتوں میں سے کسی ہارنے والی جماعت نے کبھی دھاندلی کا شور مچایا ہو، یا پھراس کے خلاف کوئی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہو۔وہاں یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ 50کی دہائی سے ہیں۔ یعنی لوک سبھا کے پہلے الیکشن کے لیے 25 اکتوبر 1951ءسے 21 فروری 1952 کے عرصے کے دوران مرحلہ وار ووٹنگ ہوئی۔ اس کے بعد سے جب کبھی بھی حکومت نے مدت پوری کی یا عدم اعتماد پر ٹوٹ گئی تو وہی کابینہ الیکشن کراتی آئی ہے۔اس کی مثال اپریل 1999ءمیں اٹل بہاری واجپائی حکومت کا تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ ہے۔ حکومت ختم ہوگئی لیکن عبوری عرصے کے لیے وہی کابینہ کام کرتی رہی۔ اس سے پہلے 98ئ1997-ءمیں آئی اے گجرال کی حکومت عدم اعتماد کا شکار ہوئی لیکن اسی انتظامیہ نے نئی حکومت کی تشکیل تک روزمرہ کے امور چلائے۔ اس عرصہ کے دوران انتظامیہ کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کرے جو اگلے الیکشن میں اس کی مقبولیت کا باعث بنے یا ووٹروں کو اس کی جانب متوجہ کرنے میں مدد دے۔وہاں انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد صورتحال کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ حکومتیں تھانے اور ضلع کی سطح پر بھی کوئی افسر بدلنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔ الیکشن کمیشن اگر محسوس کرے کہ کہیں کوئی افسر کسی امیدوار یا جماعت کے لیے اثر انداز ہو رہا ہے تو وہ اسے تبدیل اور معطل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔انتظامی طور پر حکومت کس حد تک محدود ہوجاتی ہے اس کی مثال مئی 2014ءمیں بھارتی آرمی کے نئے چیف آف سٹاف جنرل دلبیر سنگھ کا تقرر ہے، جس کے لیے بھارتی حکومت نے الیکشن کمیشن سے اجازت لی۔ بھارتی حکومتوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کی عملداری تسلیم کرنا ایک معمول رہا ہے۔ آپ یہی نہیں بنگلہ دیش میں بھی یہی سسٹم ہے، امریکا و برطانیہ کہیں بھی آپ نگران سیٹ اپ کے بارے میں نہیں سنیں گے۔ لیکن یہاں کانوں کو ہاتھ لگادینے والی دھاندلی پہلے بوتھ کے اندر ہوتی ہے، پھر گنتی کے دوران ٹھپے لگائے جاتے ہیںیعنی جعلی ووٹ پڑتے ہیں، پھر رہی سہی کسر آرٹی ایس سسٹم بند کرکے نکال دی جاتی ہے۔ خیر اس وقت محسن نقوی صاحب کے ایک طرف ن لیگ، دوسری طرف تحریک انصاف، تیسری طرف پیپلزپارٹی ، چوتھی طرف ق لیگ ہے۔ جبکہ سر پر مقتدر قوتیں بیٹھی ہیں اور زمین پر کانٹوں کا بستر بچھا ہوا ہے۔ ایسے میں وہ سب کو کیسے ہینڈل کریں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن میں کسی قسم کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی ہے۔ وہ انتظامی امور کو اچھی طرح سمجھتے، گردانتے اور اُن کاحل نکالنے کے ماہر ہیں۔ اُن کی پروفیشنل لائف کے بارے میں اگر بات کی جائے توگورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کی ریاست میامی کی اہائیو یونیورسٹی میں چلے گئے جہاں انہوں نے صحافت میں نہ صرف ڈگری مکمل کی بلکہ دوران تعلیم ہی دنیا کے سب سے بڑے اور مقبول نیوز ادارے سی این این میں اینٹرن شپ کی ، دوران اینٹرن شپ ہی سی این این انتظامیہ نے محنت لگن اور ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے جاب آفر کی اور یوں وہ ایک بڑے ادارے کے پلیٹ فارم سے عملی زندگی میں داخل ہوئے ، اپنی جاب کے دوران انہیں بطور سنیئر پروڈیوسر ساوتھ ایشیا اور پھر ریجنل ہیڈ بنا دیا گیا۔اپنی صحافت کے دوران انہوں نے افغان وار کی دلیرانہ کوریج کی اور اپنے ادارے سے تعریفی سرٹفیکیٹ بھی حاصل کیا اور ترقی بھی سال جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان مہم کے لیے پاکستان آرہی تھیں تو سی این این کی جانب سے سید محسن نقوی نے ہی وہ آخری انٹرویو کیا جس میں محترمہ نے پاکستان میں اُن کی جان کو لاحق خطرات کا ذکر کیا یہ انٹرویو تہلکہ خیز رہا۔ دوران ملازمت ہی سید محسن نقوی نے پاکستان میں میڈیا کی روائتی انداز صحافت کو للکارنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ سٹی جرنلزم کا آغاز کیا اور سٹی نیوز نیٹ ورک کے نام سے 2008 میں صرف تیس سال کی عمر میں بنیاد رکھی ، یہ ایک نئی طرز صحافت تھی لاہور کے ٹیلی فون کوڈ 042 سے” فورٹی ٹو “کے نام سے نیوز چینل کا آغاز کیا ۔ سید محسن نقوی کی شادی سیاست کے ایک بڑے چودھری ظہور الہیٰ خاندان میں ہوئی ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہیں جو پنجاب پولیس کے بہادر سپوت شہید اشرف مارتھ کی صاحبزادی ہیں اور ان کے بطن سے اللہ پاک نے سید محسن نقوی کو تین بیٹیاں اور ایک بیٹا عطاءفرمائے۔ سید محسن رضا نقوی ٹیم مین کے طور پر ابھرے ا±ن کی بنائی ٹیم میں تجربے اور نوجوانی کے جذبے کا ایسا امتزاج تھا جس نے اس ٹیم کو باقی اداروں سے الگ شناخت دے دی۔ یہ تمام تعریفیں ایک طرف مگر صوبائی سطح پر کام کرنا ان اداروں کو چلانے سے ذرا ہٹ کر ہوگا۔ اُنہیں یقینا بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اُنہیں تمام سیاسی جماعتوں کے دباﺅ کا سامنا رہے گا۔ لہٰذامحسن نقوی صاحب اگر سیاست میں کود پڑے ہیں تو اپنے آپ کو متنازعہ بنانے کے بجائے پنجاب میں ایسا شفاف الیکشن کروا دیں کہ تاریخ میں اُنہیں یاد رکھا جائے۔کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک جتنے بھی نگران وزیر اعلیٰ رہے ہیں وہ الزامات کا سہرا سر پر سجائے یہاں سے رخصت ہوئے ہیں یعنی ان سے پہلے کے اگر نگران وزرائے اعلیٰ پنجاب کی بات کریں تو 1993ءمیں پہلی بار نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہ ذمہ داری پہلی بار شیخ منظور کو ملی، اُس کے بعد 1996ءمیں یہ ذمہ داری محمد افضل کو دی گئی۔ جبکہ 2007ءمیں مشرف حکومت کے بعد نگران وزیرا علیٰ کی ذمہ داری اعجاز ناصر کو دی گئی، جو بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر 145دن تک نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری 2013ءمیں نجم سیٹھی کو دی گئی جن پر 35پنکچر لگانے کا کا الزام لگا، اور ن لیگ کو پنجاب میں حکومت مل گئی، وہ اس الزام سے آج تک باہر نہیں نکل سکے۔اورپھر 2018ءمیں اس اہم ذمہ داری کے حسن عسکری رضوی کو چنا گیا۔ ان تمام کیئر ٹیکر وزرائے اعلیٰ پر مختلف قسم کے الزامات بھی لگے اور اب جبکہ محسن نقوی جو کہ صحافی بھی ہیں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کیسے اپنادامن بچا کر شفاف انتخابات کروانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔اور پھر اس بار پہلی دفعہ ایک صحافی کو نگران سیٹ اپ کا انچارج مقرر کیا گیا ہے، اُمید ہے وہ صحافیوں کا سر فخر سے بلند کریں گے۔ تاکہ ہم بھی کہہ سکیں کہ واقعی کوئی ادارہ ایسا ہے جو صرف ملک کے لیے سوچتا ہے اُس کے لیے اقتدار کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔