کیا الیکشن کمیشن” ایکسپوز“ ہوگیا؟

لیں جی ! جیسے الیکشن کہے تھے، سوچے تھے یا سنے تھے .... بالکل ویسے ہی ہوئے۔ اب اس پر شکر کریں ، احتجاج کریں یا چپ سادھ لیں کہ ہمارا ووٹر خود شش و پنج میں مبتلا گیت گا رہا ہے کہ ”میں ووٹر ہوں کسی اور کا مجھے گنتا کوئی اور ہے....“ یعنی ایک بار پھر ہم متنازع ترین الیکشن کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اور اتنی دیر سے انتخابی نتائج تو 1970کے الیکشن میں بھی نہیں موصول ہوئے تھے جتنی دیر اس ٹیکنالوجی کے دور میں لگی ہے۔ اب الیکشن کمیشن اُن تمام پریذائیڈنگ آفیسرز کا ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہے ، جن کی طرف سے رزلٹ لیٹ جمع کروائے گئے ہیں۔ لیکن ”اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیا چگ گئیں کھیت“ کے مصداق اب کیا کرنا ہے۔ کیا اس قسم کے نتائج سے ادارے مزید ایکسپوز نہیں ہوگئے؟ اور کیا1970کے الیکشن میں بھی اسی قسم کی صورت حال نہیں تھی؟ کہ ایک بڑی جماعت کو حکومت بنانے سے روک دیا گیا تھا، جس کے بعد ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان دیکھا۔ لیکن ہم سبق سیکھتے ہی کب ہیں؟ خیر اگر جنرل الیکشن کی اوور آل بات کریں تو ملک میں ووٹر ٹرن آ¶ٹ 48.2 فیصد رہا، ملک میں 6 کروڑ سے زائد افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا، 63 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر زیادہ ووٹر تھے۔ان میں 16 لاکھ بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے، گزشتہ انتخابات میں بھی اتنے ہی ووٹ مسترد ہوئے تھے۔ان الیکشن میں آزاد اُمیدواروں (پی ٹی آئی) کا ووٹر بڑھا۔ لیکن ایک بات جو سب سے زیادہ تشویشناک رہی وہ یہ تھی کہ ان اُمیدواروں نے حد سے زیادہ اخراجات کیے۔ نیشنل اسمبلی کے ہر اُمیدوار نے اوسطاََ 10کروڑ روپے کے اخراجات کیے۔ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا۔ مگر مجال ہے ایک بھی شخص ڈسکوالیفائی ہوا ہو۔ حتیٰ کہ الیکشن سے دو روز قبل میرا گزر شاہدرہ سے ہوا۔ جہاں استحکام پاکستان پارٹی کے اُمیدوار عبدالعلیم خان کھڑے تھے۔ میں نے ایک بنک کے باہر عوام کا جم غفیر دیکھا تو اپنے دوست سے اس حوالے سے دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ اُن لوگوں کی لائن ہے جنہیں علیم خان کی طرف سے پانچ پانچ ہزار روپے کے چیک تقسیم کیے گئے ہیں۔ اب بتائیں کہ الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ ریاست کہاں ہے؟ اور ہمارا سسٹم کہاں سٹینڈ کر رہا ہے؟ بلکہ اس بار تو معذرت کے ساتھ یوں لگا کہ الیکشن کمیشن تو محض سہولت کار کا کام کر رہا ہے۔ کیا اس کا کام طاقتور کا ساتھ دینا ہے؟ اب مجھے بتایا جائے کہ ایسے حالات میں کونسا شریف آدمی اسمبلی تک پہنچ سکتا ہے؟ کیا پوری اسمبلی کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ تمام مافیاز کے سرغنا اس پارلیمنٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔ آپ یقین مانیں کل پیپلزپارٹی کا ایک اُمیدوا رملا جسکا کہنا تھا کہ عزت سے ہارنے کے لیے بھی آپ کو کم از کم پانچ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اگر آپ اپنے حلقے میں اتنے پیسے بھی خرچ نہ کریں گے تو آپ ان مافیاز کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے! پھر میرا ایک دوست جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ یعنی بطور آزاد اُمیدوار الیکشن لڑ رہا تھا، اس نے بتایا کہ اس کے انتخابی بجٹ کا نصف حصہ استعمال ہو چکا ہے۔ انہوں نے انتخابات کے لیے 10 کروڑ روپے کی رقم جمع کی تھی جس میں سے 6 کروڑ روپے انہوں نے خرچ کر لیے جبکہ اب وہ پریشان ہیں کہ بقیہ رقم کس طرح Manageکی جائے جبکہ الیکشن آنے میں ابھی ایک ہفتہ تھا۔ پھر ایک اور کاروباری شخصیت جو متعدد جماعتوں کے امیدواروں کی مالی طور پر حمایت کرتے ہیں، نے اخراجات کی حد کا مذاق اڑایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا یہ خیال ہے کہ مقرر کردہ حد انتہائی کم ہے اور یہ حد بندی غیر ضروری ہے۔ یا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اسے حقیقت پسندانہ بناکر جانچ پڑتال کی صلاحیت کو بڑھانا چاہیے یا پھر سرے سے اس خیال کو ہی ترک کردے۔ اور پھر یہ الگ بات ہے کہ اس دفعہ پی ٹی آئی والے بغیر پیسے لگائے جیت گئے ہیں، لیکن اگر اُن کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں نہ ہوتیں تو اُن کے بھی کروڑوں روپے خرچ ہونا تھے۔ حالانکہ الیکشن کے حوالے سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کے امیدوار الیکشن میں ایک کروڑ روپے تک اخراجات کر سکیں گے، صوبائی اسمبلی کے امیدوار 40 لاکھ روپے سے زائد اخراجات نہیں کر سکیں گے۔لیکن آپ خود ایمانداری سے بتائیں کہ کیا کوئی اُمیدوار اس دائرہ میں رہا ہے؟ لہٰذاایسا کرنے سے جس چیز کا ڈر تھا وہی ہوا۔ کہ آپ نے الیکشن صرف لینڈمافیا، شوگر مافیا، ہیلتھ مافیا، ایجوکیشن مافیا، اور دیگر مافیاز کے لیے رکھ دیا ہے۔ اس وقت جتنے بھی اُمیدوار منتخب ہوئے ہیں، خواہ وہ کسی جماعت سے بھی تعلق رکھتے ہیں، اُن کا تعلق کسی نہ کسی طرح مافیا کے ساتھ ہے۔ اُن کے مقدمات کا ریکارڈ چیک کرلیں، وہ کسی نہ کسی مقدمے کا حصہ ہوں۔ پھر اُن کی تیس سال پہلے کی حیثیت چیک کرلیں، اور آج کی چیک کر لیں۔ آپ کو فرق صاف واضع نظر آئے گا۔ لہٰذااگر آپ اپنے ملک کو مافیا کے حوالے کر رہے ہیں، تو پھر اچھے کی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے؟ تو پھر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا ملک اس خراب معاشی حالت سے نکل سکتا ہے؟ لہٰذایہ الیکشن کمیشن نہیں بلکہ سہولت کار کمیشن بن چکا ہے،،، جو ہر دو نمبر شخص کو سپورٹ کر رہا ہے۔ اور پھر بعد ازاں ہوتا یہ ہے کہ جب یہی ممبران قومی یا صوبائی اسمبلی تک پہنچتے ہیں تو پھر ان کی کرپشن کا سب سے بڑا ”جائز“ذریعہ وہ صوابدیدی فنڈز ہوتے ہیں جو انھیں ملتے ہیں۔ مال سمیٹنے کے باقی ”جائز“ اور ناجائز ذرائع الگ ہوتے ہیں، اس لئے صاف وشفاف اور بہترین جمہوریت قائم کرنے کے خواہش مند انتخابی اصلاحات کے زمرے میں اکثر مطالبہ کرتے ہیں کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام صوابدیدی فنڈز ختم کرنے چاہئیں، تمام تر ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ ہوں، سینیٹرز، ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کا کام ترقیاتی فنڈز کا استعمال نہیں بلکہ محض قانون سازی اور پالیسی سازی ہوناچاہئے۔ جب ایسا نظام بن جائے گا تو سینیٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کی رکنیت بہت سوں کے لئے پرکشش نہیں رہے گی اورپھر اربوں کی کرپشن کرنے کے لئے کروڑوں خرچ نہیں کئے جائیں گے، ظاہر ہے کہ پھر انتخابات میں حصہ لینا سراسر خسارے کا سودا ہوگا۔ پھر وہی لوگ انتخاب لڑنے کا سوچیں گے جو ملک اور قوم کے لئے اپنا تن، من اور دھن قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔لیکن اس کے برعکس اس عمل میں وہی لوگ انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں جو یا تو خود امیر ہوتے ہیں یا پھر انہیں اقتدار میں موجود اشرافیہ کی حمایت حاصل ہو، یا پھر ایک عام آدمی کی قسمت چمکے اور ایک وسائل رکھنے والی جماعت اسے اپنی جانب سے انتخابات میں کھڑے ہونے کا موقع دے دے۔ بہرکیف مقابلہ بازی کے اس دور میں، خالی جیب والے شخص کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینا انتہائی دشوار ہے۔ اگر انتخابات میں حصہ لینے کا خواہش مند امیدوار امیر نہیں ہے تو اسے امیر اسپانسرز کی ضرورت ہوگی۔ایسے میں مافیاز ہی کی خدمات لینا ہوں گی۔ لیکن اس تمام معاملے میں الیکشن کمیشن کی مجرمانہ خاموش یقینا عوام کو ماردینے کے مترادف ہے۔ اگرچہ انتخابی امیدواروں کے انتخابی اخراجات پر مکمل کنٹرول پانا خاصا مشکل عمل ہے، کیونکہ کسی بھی قیمت پر الیکشن جیتنے کی خواہش رکھنے والے امیدواران حد توڑنے کے لئے کوئی نہ کوئی چور راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔تاہم اگرالیکشن کمیشن ہمسایہ ملک بھارت سے ہی اس حوالے سے رہنمائی لے لے تو اس کی یہ مشکل کا فی حد تک ختم ہو سکتی ہے۔ وہاں تمام ادائیگیاں آپ کے ذاتی اکاﺅنٹس سے کی جاتی ہیں۔ اگر ایک سنگل رقم بھی کیش میں ادائیگی ہوئی تو فوراََ الیکشن کمیشن اُس اُمیدوار کو نااہل قرار دے دیتا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ وہاں الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو بلاکر اایک مفصل بریفنگ کا اہتمام کرتا، جس میں انھیں ضابطہ اخلاق سے آگاہ کیاجاتا کہ امیدواروں کے خلاف انتخابی اخراجات کی حد سے آگے بڑھنے پر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد سرکاری سطح پر ایک ریٹ لسٹ جاری کی جاتی ہے جس کے مطابق ہر امیدوار صرف اس ریٹ کے مطابق اپنے انتخابی اخراجات کرسکتاہے، الیکشن کمیشن ہر امیدوار کے لئے زیادہ سے زیادہ بینرز اور پوسٹرز کی تعداد اور ان کا سائز بھی متعین کرتا ہے۔ اسی طرح دیگرجائز اخراجات کے بھی ریٹ بتادیے جاتے ہیں۔ تمام ہدایات کو نہایت واضح اندازمیں بیان کیاجاتا ہے تاکہ انتخابی امیدواروں کو بخوبی اندازہ ہو کہ ان کی انتخابی مہم کی نگرانی کی جارہی ہے، اس لئے انھیں مقررہ حدود کے اندر ہی اخراجات کرنے ہوں گے۔ پھر وہاں الیکشن کمیشن امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی مانیٹرنگ کا ایک مکمل میکانزم موجود ہے اور اس کے مطابق مرکز سے حلقہ جات تک ایک مکمل سیٹ اپ قائم کیا جاتا ہے، جس کی ٹیمیں مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیتی ہیں، اسی طرح الیکشن کمیشن ہرامیدوار کے انتخابی اخراجات کا خفیہ جائزہ لینے کے بعد خلاف ورزی پر سزا طے کرتا ہے۔ لہٰذااگر یہاں بھی الیکشن کمیشن سہولت کاری کو ختم کرکے الیکشن کروائے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے آزاد الیکشن کمیشن ہونا بہت ضروری بھی ہے اور ملک کے لیے انتہائی سود مند بھی!