عمران خان اب کیا کریں!

میں سیاست اور تاریخ کا ابھی بھی طالب علم ہوں، اس لیے مجھے زیادہ علم تو نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ جمہوریت میں جلسے جلوس ، مارچ ، دھرنے وغیرہ جمہوریت کا حسن ہوا کرتے ہیں، تاریخ میں جب جب بھی ان دھرنوں، جلوسوں اور مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی، بعد میں اُسے بے دردی سے کچل کر رکھ دیاگیا۔ گزشتہ ہفتے اسی قسم کی ایک سرگرمی کا تحریک انصاف نے بھی اعلان کر رکھا تھا، یعنی” حقیقی آزادی مارچ“ یعنی لانگ مارچ کا۔ تمام سیاسی پارٹیوں سے بالا تر ہو کر صرف ایک بات نے مجھے پریشان کر رکھا کہ اگر لوگ اپنے لیڈر کی آواز پر باہر نکل رہے ہیں تو اُنہیں بزور طاقت ریاست کیسے روک سکتی ہے؟ حد تو یہ تھی کہ اس آزادی مارچ کو روکنے کے لیے پوری ریاستی مشینری حرکت میں دکھائی دی۔ ملتان سے لے کر اسلام آباداور پھر اٹک پل تک کم و بیش 50ہزار کی نفری، ہیوی مشینری اور ہزاروں کی تعداد میں کنٹینر کھڑے رکھ کر عوام کا راستہ روکنا کونسا جمہوری عمل تھا؟ آپ یقین مانیں آنکھیں نم ہوگئیں جب ایک خاتون کی ویڈیو نظروں کے سامنے سے گزری جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ ”میں آج گھر سے نہ نکلتی تو اس کی قیمت میری نسلیں ادا کرتی رہتیں“ یہ ایک نوجوان ماں تھی جو آدھی رات کے وقت اپنی ایک ماہ کی بچی کو گود میں لیے قائد اعظم کے مزار کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھی یہ لازوال جملہ ادا کررہی تھی۔ جبکہ دوسرے بازو سے اس نے ایک سالہ بیٹے کو سنبھالا ہواتھا۔پھر ایک اور ادھیڑ عمر خاتون کہہ رہی تھیں کہ ہم گھر بتا آئے ہیں کہ” اگر واپس آگئے تو ٹھیک ورنہ ہماری قربانی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی“ پھر ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ”وہ اپنے بچوں کو کیسا پاکستان دے کر جا رہے ہیں، جہاں صرف لاقانونیت، کرپشن، چوری اور ڈاکو راج ہے۔ ہم پاکستان کو بدلنے نکلنے ہیں کہ شاید ہم ساری زندگی پچھتائیں نہ کہ ہم نے کوشش نہیں کی!“ خیر یہ مناظر میرے ذہن کی دیوار پر نقش ہوگئے ۔ پیغامات نسل در نسل پہنچ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے مستقبل کو اس ماں کی شکل میں محفوظ دیکھ رہا ہوں۔جو کچھ بھی ہمارے ارد گرد ہورہا ہے۔ اس کا ادراک اندر کے بغض کو نکالے بغیر بہت مشکل ہے۔ معاشرے تقسیم ہوتے ہیں اور افراد اپنی آنکھوں سے نہیں، اپنے قبیلے کے سردار۔ برادری کے بڑے۔ سیاسی جماعت کے سربراہ۔ مذہبی تنظیم کے قائد۔ فرقے کے رہبر کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے حقیقت ان تک نہیں پہنچتی۔بدھ کو رات گئے جمعرات کی صبح تک جو کچھ بھی دیکھنے کو ملا۔ وہ تاریخ کے ایک اہم موڑ کے شواہد ہیں۔ جو ہمارے جغرافیے پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ ہماری معاشرت پر بھی۔ یہ ایک عالمگیر وبا۔ سوشل میڈیا کی فراوانی۔ اور یکے بعد دیگرے ناکام حکمرانیاں دیکھنے والی مختلف نسلوں کے مشترکہ محسوسات ہیں۔ جلسے جلوس۔ ریلیاں۔ مزاحمت۔ راستے کی رکاوٹیں دور کرنے کی جدوجہد واضح طور پر یہ بتارہی ہے کہ پاکستانی نوجوان رکنے والے نہیں ہیں یہ مستقبل میں مزید تیاری کے ساتھ آنسو گیس کی بوچھاڑ، لاٹھی بردار پولیس کی دہشت اور بے وردی ڈنڈہ بدستوں کا مقابلہ کرنے آئیں گے۔ کیوں کہ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ ایک فصل کاشت ہورہی ہے۔ مزاحمت کے بیج کونپلیں بن رہے ہیں۔ آسمان دیکھ رہا ہے کہ اس کشت کو سیراب کون کررہا ہے؟ کونسا سورج اسے دھوپ دے کر پکار ہا ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے خلاف میدان میں نکلنا کتنے خطرات کو دعوت دینا ہے۔ امریکہ تو ضرور جانچ رہا ہوگا کہ اس کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ روس اور چین سے محبت بڑھ رہی ہے۔لینن یاد آتا ہے۔ کیا ابدی جملہ کہا تھا:” بہت سے عشرے ایسے ہوتے ہیں جب کچھ نہیں ہوتا اور بہت سے ہفتے ایسے ہوتے ہیں۔ جن میں عشرے رونما ہوجاتے ہیں“۔یہ ہفتے ایسے ہی گزر رہے ہیں، جن میں ہر روز عشرے واقع ہورہے ہیں۔یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف اس ملک اس خطّے تک محدود نہیں ہے۔ آمروں۔ غاصبوں۔ ابن الوقتوں کے خلاف انسان اپنے سوز دروں کا اظہار سوشل میڈیا پر کھل کر کررہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی انسان کی سب سے بڑی طاقت بن رہی ہے۔ لیڈر، حکومتیں بے معنی ہورہے ہیں۔ بے چارے ڈنڈہ بردار تو غلام ہیں۔ خیر پاکستانیوں کی آنکھوں میں یہ برہمی۔ یہ اضطراب۔ ماتھوں پر تمتماہٹ کسی ایک لیڈر کی شعلہ بیانی کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ 40 سال سے ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے۔ اپنی جائیدادیں۔ بینک بیلنس بڑھانے اور غریبی کی لکیر سے کروڑوں کو نیچے دھکیلنے والوں کے خلاف ہے۔ نوجوانوں کو باہر نکالنے والے وہ بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ وہ بھی لمحے کو اپنی گرفت میں لینے سے ہچکچارہے ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے متحرک اور باشعور ٹیم نہیں ہے۔ اس تاریخ ساز لمحے کو سمجھنے کیلئے جس مطالعے اور فکر کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ بقول حبیب جالب جیو ہماری طرح سے مرو ہماری طرح نظامِ زر تو اسی سادگی سے جائے گا خیر اس ماحول میں جب تمام جماعتیں ایک طرف، تمام قوتیں ایک طرف اور خان صاحب ایک طرف ہیں تو لوگ ابھی بھی شاید اُن سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں، اس لیے خان صاحب کو بھی تمام راستے بند کرنے کے بجائے بات چیت کے راستے بھی کھلے رکھنا ہوں گے، کیوں کہ جمہوری سیاسی پارلیمان کے اندر آئین کی پاسداری اور مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت سے سنورتی اور پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی ہم آہنگی‘ باہمی احترام اور جمہوری اداروں پر اعتماد کی سیاسی ثقافت آگے نہیں بڑھ سکی۔ دنگا فساد جو ہر صبح شام میڈیا پر نمبر بنانے کیلئے لگتا ہے، اس نے سیاسی حریفوں کو کھلا میدان فراہم کر رکھا ہے۔ معاشرے پر اس کے سیاسی اور نفسیاتی اثرات کیا مرتب ہورہے، اس کے بارے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ یہاں عوامی انقلاب نہ آئے ہیں اور نہ آ سکتے ہیں اور نہ ان کی تمنا دل میں لانی چاہیے بلکہ اب ساری دنیا میں کہیں نہیں آئیں گے جہاںآسکتے تھے وہ آ چکے اور سوائے ایک دو کے سب اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔خان صاحب کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا مزاج ابھی تک نہ خالصتاً جمہوری ہے نہ آمرانہ، اس کے درمیان ہماری تاریخ گھومتی رہی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے اور ریاست کمزور تو دکھائی دیتے ہیں مگر اتنے کمزور بھی نہیں کہ مارچوں کے سامنے ڈھیر ہو جائیں۔لہٰذاخان صاحب وہ کام کریں جو کرنے والے ہیںباقی سب اللہ پر چھوڑ دیں کیوں کہ وہ نیتوں کو بہتر جانتا ہے! لہٰذاپاکستان تحریک انصاف سمیت ہر قیادت کی دعویدار ہر پارٹی کو اپنی تنظیم از سر نو کرنا ہوگی۔ ہر ایک کو ایک دانش کدہ تعمیر کرنا ہوگا۔ اور صرف فوری الیکشن کا نہیں۔ آئندہ دس پندرہ سال کے مقامی۔ علاقائی اور عالمی امکانات پر مبنی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ آگے 9جون سے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن شروع ہو رہے ہیں، تحریک انصاف ان انتخابات کا جائزہ لے۔ ان کے لیے تیاری کرے، اور بلدیاتی انتخابات جیت کر یہ ثابت کرے کہ تحریک انصاف آج بھی سب سے قابل اعتماد جماعت ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کرنے والے ہیں لہٰذاعمران خان صاحب حوصلے کے ساتھ ایک لیڈر کا روپ دھاریں اور نئے سرے سے 2023ءکے الیکشن کی تیاری پر زور دیں اور مقتدر قوتوں کو بھی اعتماد میں لیں۔ پھر خان صاحب اُن اصحاب کی کارکردگی کا جائزہ لیں جو ساڑھے تین برس کے اقتدار کے باوجودکارکردگی کا گراف نہ بڑھا سکے۔ پھرراولپنڈی میں شیخ رشید کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے جا تے ہیں جبکہ لاہور میں شفقت محمود بھی سرد مہری کے حصار میں رہتے ہیں؛چنانچہ اس احتجاجی تحریک کے دوران خان صاحب کو اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کا سامنا رہا جن کے عوامی رابطے بہت کم رہ گئے ہیں۔ اب عمران خان صاحب کا فرض ہے کہ اپنی صفوں میں موجود ان عناصر سے باز پرس کریں اور ایسے ارکان کو آگے لائیں جنہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی اور جو خودغرض عناصر کی سازشوں کا شکار ہو کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے تھے۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ خان صاحب کو بیورو کریسی میں عدم اعتماد کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ ان کے پرنسپل سیکرٹری اور مشیران نے انہیں اندھیرے میں رکھا۔خان صاحب کے اردگرد ایسے عناصر جمع ہو چکے تھے جنہوں نے ان کے سارے نظام ہی کو مفلوج کر رکھا تھا۔ پھر خان صاحب نے الیکشن کمیشن سے بلاوجہ محاذ آرائی کی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے پروجیکٹ اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے میں الیکشن کمیشن کی تجاویز کو سبوتاژ کیا گیا، اور اب بھی اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے عمران خان آواز اُٹھاسکتے ہیں، جو اُن کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔پھر تین سال تک الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان تناو¿ برقرار رہا۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے جتنی بھی تجاویز وزیراعظم کو بھیجیں ‘ وزیراعظم نے ان خطوط اور سمریوں کا جواب نہیں دیا، جس کی وجہ سے قانون سازی ہی نہیں ہو سکی۔لہٰذاان سارے معاملات کو خان صاحب دیکھیں اور پھر پارٹی میں نوجوان قیادت پر زیادہ بھروسہ کرے جو کام کرنے والے بھی ہوں اور قابل بھی ہوں۔ اور پھر رہی اے ٹی ایم مشینوں کی بات تو پارٹیوں کو چلانے کے لیے یقینا فنڈز درکار ہوتے ہیں تو اس کے لیے پارٹی میں ہی بہت سے پیسہ خرچ کرنے والے افراد موجود ہیں جو دولت کی نمائش نہیں کرتے، خان صاحب کو اُنہیں اعتماد دینے کی ضرورت ہے تاکہ بہترین نظام چل سکے۔ اور پھر آخر میں یہی کہوں گا کہ خان صاحب گھبرائیں ہیں حوصلہ رکھیں کیوں کہ دنیا میں جتنے بھی مارچ کامیاب ہوئے ہیں اُن کے پیچھے اسی قسم کے اختلافات تھے، مسائل تھے مگر یہ مسائل آپ کو مضبوط بناتے ہیں اور اگلے مرحلے میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کی تیاری میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔