سینیٹ الیکشن : شو آف ہینڈ کا طریقہ درست مگر!

سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو قانون ساز حیثیت کا حامل ہوتا ہے، اس ادارے میں ذہین و فطین لوگ رکھے جاتے ہیں جو حکومت کو کسی بھی حوالے سے معاونت فراہم کرتے ہیں، اس لیے آج بھی کئی ممالک میں سینیٹ(ایوان بالا) کو ایوانِ زیریں پر سبقت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے ایوانِ بالا موجود ہیں۔ تاریخی طور پر روم کا ایوانِ بالا شہرت کا حامل ہے۔ایوانِ بالا کے ارکان اکثر ممالک میں عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوتے بلکہ انہیں ایوانِ زیریں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔لہٰذاآج کل سینیٹ ایک بار پھر موضوع بحث اس لیے ہے کہ اگلے دو ماہ میں سینیٹ الیکشن ہونے جا رہے ہیں، جس کے لیے ”ہارس ٹریڈنگ“ ”شو آف ہینڈز“ یا ”سیکریٹ بیلیٹنگ“جیسی اصطلاحات زبان زد عام ہوں گی۔ اور چونکہ تحریک انصاف کے ”منشور“ کے مطابق شفاف انتخابات کروانا بھی شامل ہے اس لیے حکومت نے ”شو آف ہینڈ“(ہاتھ کھڑے کرکے) سے سینیٹ الیکشن کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا ۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان بھی سینیٹ کے انتخابات شو آف ہینڈ سے کرانے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ آگے چلنے سے پہلے یہاں بتاتا چلوں کہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اِس ایوان میں چاروں صوبوں سے 23،23 ارکان ہیں۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیںجبکہ اسلام آباد سے کل 4 ارکان ہیں۔ سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11 سیینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔ اگر ہم سابقہ سینیٹ الیکشنز کو دیکھیں تو قارئین! یہ کسی بھیانک خواب سے کم نظر نہیں آتا،جیسے ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں کون سوچ سکتا تھا کہ سینٹ میں 64کی تعداد رکھنے والی اپوزیشن جماعت اگر چیئر مین سینٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائے گی تو وہ ناکام ہوجائے گی۔ کیسے صرف 36ووٹوں والی حکمران جماعت اس کا مقابلہ کر پائے گی، کہاں 64اور کہاں 36اور ان کی سبکدوشی کیلئے صرف 53ووٹ چاہئیں تھے۔ چاہے دس بھی بیمار پریشان نادار ہو جائیں پھر بھی 54لوگ تو موجود ہی رہیں گے۔ مگر پھر چشم زدن نے دیکھا تاریخ رقم ہوئی کہ وہ 64 افراد جو ہاتھ کھڑا کر کے اپنے ووٹ کی طاقت کا اظہار کر رہے تھے جب خفیہ رائے شماری کیلئے پہنچے تو ان کے ووٹ اپنے اپنے مقام پر پہنچ گئے۔حکومت کے 36ووٹ بڑھ کر 45ہوگئے اور اپوزیشن کے 64ووٹ کم ہو کر 50رہ گئے۔پانچ اراکین پارلیمنٹ کی مت ایسی ماری گئی کہ وہ دو دو ٹھپے لگا کر ووٹ کو درست طریقے سے تہہ بھی نہ کر سکے۔بقول شاعر فاختہ بھی کتنی پاگل تھی موسموں کی سازش سے پھر فریب کھا بیٹھی توپ کے دہانے میںگھونسلہ بنا بیٹھی الغرض تاریخ گواہ ہے کہ سینیٹ انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوںکی نشست جیتنے کے لیے فی سیٹ 30،35کروڑ روپے خرچ آتا تھا، مگر اب بولی کروڑوں سے بڑھ کر اربوں تک لگی ہوئی ہے سینیٹ کے انتخابات میں فاٹا کی ایک سیٹ کی بولی اڑھائی سے تین ارب تک پہنچ چکی ہے اورلیکن اگر اس کے آگے کوئی پل نا باندھا گیا تو اس میں لازماً مزید اضافہ ہو کر رہے گا۔ اور میری ناقص رائے میں حکومت نے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹرز کو منتخب کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تو شاید ہارس ٹریڈنگ کم ہو جائے لیکن اس میں بھی ایک مسئلہ موجود ہے، مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ سینیٹ ایسا ادارہ سمجھاجاتا ہے جہاں سمجھدار اور ذہین لوگ بیٹھا کرتے ہیں، لیکن اب سینیٹرز اشرافیہ بنتی ہے جو اربوں روپے خرچ کرکے بھی سینیٹرز بننے کے لیے تیار رہتی ہے، یعنی جن کی جیب میں پیسہ ہے وہ ایوان بالا میں آسکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ شو آف ہینڈ کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ رک جائے گی؟ یا نہیں ؟ تو اس حوالے سے سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی کیسے ہے؟ ہارس ٹریڈنگ میں سینیٹر پارٹی لیڈر کو خریدنے کے ساتھ ساتھ ہر صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین سے رابطہ کرتا اور اُس کا ووٹ خریدتا تھا جس کے لیے اُس بے بہا پیسہ لٹانا پڑتا۔ لہٰذااب اگر شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کیا گیا تو اس سے یقینا ہر ایک صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین کی اہمیت کم ہو جائے گی مگر، پارٹی سربراہ کا ”ریٹ“ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ یعنی اب پارٹی لیڈر جسے چاہے سینیٹ کی سیٹ کے لیے کھڑا کر دے تو پارٹی کے اراکین اُس کو ووٹ دینے کے پابند ہوں گے۔ اس کے لیے پارٹی سربراہ خواہ لینڈ لارڈ کو نامزد کردے یا اپنے ذاتی گارڈ کو۔ کیوں کہ ہمار ا ماضی ایسی بے تحاشا مثالوں سے بھرا پڑا ہے پارٹی سربراہ جن لوگوں کوسینیٹ کا ٹکٹ دے رہا ہے وہ واقعی اس قابل نہیں ہوتے کہ انہیں ٹکٹ دیا جائے۔ تین سال قبل جب سینیٹ کے الیکشن ہوئے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ نواز شریف نے جن لوگوں کوسینیٹ کا ٹکٹ دیا ان میں ذاتی ملازم تک شامل تھے۔ لندن کے ایک بندے کوسینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا جو نواز شریف کا گارڈ تھا۔ امریکہ سے ایک بندے کوسینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا جس نے ہوٹل کی بیسمنٹ میں منی لانڈرنگ کا اڈا کھولا ہوا تھا اور ایف بی آئی نے اسے پکڑا۔ یہ کام صرف نواز شریف نے نہیں کیا، پیپلز پارٹی نے بھی بڑے بڑے لوگوں کوسینیٹر بنوایا جن کی پارٹی سے زیادہ پارٹی سربراہ کیلئے ذاتی خدمات تھیں یا یہ چمک کا نتیجہ تھا۔ لہٰذاقابل لوگوں کے اوپر نہ آنے کی وجہ سے ہی ہمارے ہاں کوئی تگڑا قسم کا ”تھنک ٹینک“ نہیں بن سکا۔ اور چونکہ پارٹی سربراہ کو بھی لالچ ہوتا ہے کہ اسے ”پارٹی فنڈ“ کے نام پر اچھا خاصا مال مل رہا ہوتا ہے اس لیے اُسے قابل لوگوں سے زیادہ اشرافیہ پسند ہوتی ہے۔ خیر ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے یہ شو آف ہینڈز بہت اچھا عمل نہیں تو برا بھی نہیں ہے، کیوں کہ اس عمل کے بعد پارٹیوں کو اندرونی طور پر ایسا نظام لانا پڑے گا کہ کوئی بھی پارٹی سربراہ کسی کو سینیٹر نامزد کرنے سے پہلے پارلیمانی کمیٹی سے اجازت لے۔ ایسا کرنے سے فرد واحد اپنے فیصلے مسلط کرنے سے قاصر رہے گا اور رہی بات شو آف ہینڈز کی تو ووٹنگ کا یہ طریقہ کار دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے، امریکی الیکٹورل کالج بھی اپنے صدر کو ایسے ہی منتخب کرتا ہے،برطانوی ہاﺅس آف لارڈز میں بھی اکثر یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے پارٹی کا ووٹ ادھر اُدھر نہیں ہو سکتا۔ میرے خیال میں یہ طریقہ کار مناسب تو نہیں کیوں کہ اس ووٹ کا تقدس پامال ہوتا دکھائی دیتا ہے، لیکن ہماری جمہوریت کے بچاﺅ کے لیے یہ بہت ضروری ہے، جہاں ابھی جمہوریت پنپ رہی ہے، وہاں یہ بہت ضروری ہے، کیوں کہ نومولود جمہوریت کے عہدیداران بھی نومولود ہی ہوتے ہیں، جو جلدی بک جاتے ہیں، جو جلد اپنا جھکاﺅ تبدیل کر لیتے ہیں، جو جلد ہی اپنے نظریات سے پھرجاتے ہیں یا جو بہت جلد عوام سے پھیر کر ذاتی مفادات کو ترجیح دینا شروع کردیتے ہیں، لیکن جب ہم اس قابل ہو جائیں گے، کہ ہم بطور سیاستدان پختہ ہو چکے ہیں، بطور سیاستدان کامل ہو چکے ہیں، یا ایک دوسرے کی عزت کرنے لگ گئے ہیں تو پھر اوپن بیلٹنگ کے بجائے خفیہ رائے شماری کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم ایک چھوٹے پودے کو دھوپ اور گرمی سے بچاتے ہیں، جب وہ درخت بن جاتا ہے تو پھر ہمیں ضرورت نہیں ہوتی، لہٰذاابھی جو جمہوریت ہے وہ ننھا منا پودا ہے، ابھی ہمیں اس کی زیادہ حفاظت کرنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اسلام کو ایک دم نہیں اُتارا تھا، بلکہ آہستہ آہستہ اسے لوگوں کے دلوں میں اُتارا۔ اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں کی تربیت کی پھر اتنا بوجھ ڈالا کہ وہ جتنا اُٹھا سکیں، یااس کی مثال یوں بھی لے لیجیے جیسے چھوٹے بچے کو والدین سکول چھوڑنے جاتے ہیں، لیکن جب وہ یونیورسٹی میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر اکثر اس کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ بہرکیف ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم آج تک اپنے انتخابات کا اعتبار قائم نہیں کر سکے۔70ءکے جن انتخابات کو بڑے صاف شفاف قرار دیا جاتا ہے ان کی شفافیت کی حقیقت تو خود شیخ مجیب الرحمن نے الیکشن والے دن صبح کے گیارہ بجے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کر دی تھی ان کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کے ورکر تو مشرقی پاکستان کی تمام کی تمام نشستیں (162) جیتنا چاہتے تھے لیکن میں نے انہیں کہا کہ ایک نشست ب±ڈّھے (نورالامین) اور دوسری نشست راجے (راجہ تریدیورائے) کے لئے چھوڑ دو، یوں عوامی لیگ نے پولنگ شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی نتائج کا اعلان کر دیا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پولنگ سٹیشنوں پر وہی لوگ جا سکتے تھے جو عوامی لیگ کے ووٹر اور سپورٹر تھے مخالفین کو جو اگرچہ تعداد میں کم تھے پولنگ سٹیشنوں کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا گیا تھا، یہ تھی حقیقت ان منصفانہ انتخابات کی، جن کی شفافیت کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں الیکشن کا اعتبار مشینوں سے نہیں انسانوں کی نیتوں سے قائم ہو گا، کیونکہ انتخابی نظام پر شکوک و شبہات کے گہرے سائے مشینوں نے نہیں،انسانوں نے پھیلائے ہیں، اگر نظام کرپٹ ہو تو مشینیں بھی کرپٹ ہو جاتی ہیں اس لئے اگر انتخابی نظام کا اعتبار قائم کرنا ہے تو ان ملکوں سے سیکھیں جن کے ہاں انتخابات پر کوئی مخالف بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ صرف شو آف ہینڈز یا ای ووٹنگ سے اعتبار قائم نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے لیے ہمیں سسٹم کو مضبوط کرنا پڑے گا۔