پی ڈی ایم : بلوچ قوم پرست پارٹیاں محتاط رہیں!

پی ڈیم ایم اپنے ”آخری“ مراحل کی طرف جوں جوں بڑھ رہی ہے، لہجوں میں تلخیاں اور دلیلوں میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے، یہاں یہ کہنا ضرور ی سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں جو تحریک کے ذریعے حکومت کو نکالنا چاہتی تھیں وہ خود اختلافات اور تضادات کا شکار ہو گئی ہیں، یعنی ایک دو جھٹکوں کے بعد شاید یہ اپنی موت آپ مر جائے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں استعفوں کے معاملے اور لانگ مارچ کے حوالے سے کشمکش جاری ہے، جو شاید مفادات کے باہمی ٹکراﺅ کا باعث بھی بنے، جبکہ جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اپنی ہی پارٹی کے اندر شدید بغاوت کا سامنا ہے، اور کئی ایک پارٹی رہنماﺅں کو اپنی پارٹی سے نکال بھی چکے ہیں، کے پی کے کی جماعتیں بھی پشاور جلسے کے بعد خاصی تنقید کی زد میں ہیں۔ اور رہ گئی بلوچ قوم پرست جماعتیں تو وہ اداروں کے خلاف بیان بازی سے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی ہیں، جسے دشمن ممالک کا میڈیا، سوشل میڈیا اور ویب سائیٹس بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں، خاص طور پر اُس وقت جب یہ جماعتیں بلوچستان کے حقوق کی بات کرتی ہیں تو یہ باتیں کئی ممالک کے مین سٹریم میڈیا میں صفحہ اول کی خبروں کی زینت بنتی ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا قومی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ؟ کیا حکومت ان کی اداروں کے خلاف باتیں سن کر کانوں میں انگلیاں دبائے بیٹھی ہے؟چلیں یہ تو حکومتی حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ سو سوالوں کے جواب سے خاموشی بہتر ہے لیکن اس سلسلے میں فواد چوہدری صاحب ضرور پھٹ پڑے ہیں کہ پی ڈیم ایم کا اسٹیج پنجاب دشمن پارٹیوں کی آماجگاہ ہے، نام نہاد نیشلسٹ اپنے لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے پنجاب کو گالی دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم میں موجود قوم پرست جماعتیں (نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی )اپنے اور اپنے پیش روو¿ں کی پیٹھ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے گھونپے گئے نشتروں کو بھول کر ایک مرتبہ پھر نئی امید اور جوش و ولولے کے ساتھ حکومت بھگاو¿ تحریک کے دنگل میں اتری ہیں کہ شاید اب کے بار انہیں دوبارہ اقتدار مل جائے۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے اور ماضی گواہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اقتدار میں آنے کے بعد خاص طور پر بلوچستان میں صوبائی خودمختاری کو اپنے پیروںتلے روندتی رہی ہیںاور منتخب صوبائی حکومتوں کو وقت سے پہلے برطرف کرتی رہی ہیں۔اور یہ بات اختر مینگل بھی خوب جانتے ہیں کیوں کہ وہ بھی بلوچستان کے 1997ءسے 1998ءتک 9ماہ کے لیے وزیر اعلیٰ رہے تھے، پھر نواز شریف حکومت ہی نے انہیں اقتدار سے الگ کر دیا تھا۔ یہ بات اختر مینگل سٹیج پر بیٹھی مریم نواز سے کیوں نہیں پوچھتے کہ اُن کے باپ نے اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟ اور اب جب بار بار بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے اختر مینگل جب یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ بلوچستان کوقابو کرنے کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) قائم کی گئی، جنھوں نے بلوچستان قابو کرنے کے لئے باپ قائم کی ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ، لیکن ان کے لئے گنجائش پیدا کرنے اور ان کو اقتدار میں لانے والے سہولت کار پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری ان کے ساتھ سٹیج پربیٹھے تھے۔ ”باپ“ بنانے والوں کا نام تو اخترمینگل لیتے ہیں لیکن سہولت کار جو ان کے ساتھ سٹیج پر موجود ہوتے ہیں ان سے پوچھ نہیں سکتے کہ آپ نے بلوچستان کو قابو کروانے میں ان کی مدد کیوں کی ؟اسی طرح سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی بلوچستان کی محرومی کانوحہ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ڈھائی برس تک وہ بلوچستان کے وزیر اعلی رہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وہ اپنی کارکردگی قوم کے سامنے رکھتے لیکن وہ بھی الزامات اور گلے شکوے تک محدود رہتے ہیں اور پنجاب مخالف تقریریں کرکے صوبائی کارڈ کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔حالانکہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور اقتدار میں بلوچستان کا خزانہ ،سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے برآمد ہوا تھا۔ جو نہ اختر مینگل کو یاد ہے اور نہ ڈاکٹر عبدالمالک بلو چ کو۔ الغرض ایک طرف کہا جاتا ہے کہ فوج ہم سے مذاکرات کرے، دوسری طرف اُس کے خلاف باتیں کی جا رہی ہیں،پھر بادی النظر میں پنجاب کے خلاف بیان دینے کا مطلب سمجھ سے بالا تر ہے، کیوں کہ پنجاب میں جس نے سب سے زیادہ حکومت کی ہے وہ ساتھ ہے ۔ کیا یہ مذاق نہیں؟ حالانکہ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس پر مریم کو جواب دینا چاہیے تھا کہ میرے باپ نے 30سال پنجاب پر حکومت کی ہے، اس دور میں پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کیوں نہ کیا؟ مریم نواز کو یہ بھی جواب دینا چاہیے تھا کہ بلوچستان کی محرومیوں میں اُن کی پارٹی کا کتنا ہاتھ ہے؟ پھر مریم صاحبہ کو یہ بھی جواب دینا چاہیے تھا کہ اقتدار ملتے ہی اُن کی پارٹی کیسے بلوچ رہنماﺅں سے منہ موڑ لیتی ہے۔ مریم صاحبہ کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اگر یہ بلوچ رہنما اسٹیبلشمنٹ پر انگلیاں اُٹھاتے ہیں تو جنرل ضیاءالحق کے بعد جتنے بھی آرمی چیف لگائے گئے وہ اُنہی کے والد محترم اور محترم زرداری صاحب کی پارٹی نے لگائے تھے، اور عمران خان نے تو محض موجودہ آرمی چیف کو محض ایکسٹینشن دی ہے۔ اور آخر میں پی ڈی ایم رہنماﺅں کو خو د احتسابی بھی کرنی چاہیے تھی کہ ہم بلوچستان کی محرومیوں کا ذکر آخر اُس پارٹی سے کیوں کر رہے ہیں جسے اقتدار میں آئے محض ڈھائی سال کا عرصہ ہوا ہے۔ پھر مریم صاحبہ کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری کو بھی یہ بات کرنی چاہیے کہ سب سے پہلے بلوچستان پر فوج کشی تو بھٹو دور میں ہوئی تھی،1972ءمیں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی لیکن یہ دیر پا ثابت نہ ہو سکی، بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے جب داخلی خودمختاری کا مطالبہ کیا تو اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جن کی پیپلز پارٹی کا اثر صرف پنجاب اور سندھ تک محدود تھا، بلوچستان کے اس مطالبہ کو مرکز سے بغاوت سے تعبیر کیا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت برطرف کر کے اسمبلی توڑ دی اور وہاں گورنر راج نافذ کر دیا۔ بھٹو کے اس اقدام کے خلاف بلوچوں نے اپنے سرداروں کی قیادت میں مسلح جدو جہد شروع کی۔ 60 ہزار سے زیادہ بلوچ قبائل چھ سال تک پہاڑوں سے پاکستانی فوج کے خلاف حھاپہ مار جنگ لڑتے رہے اور اپنے دیہاتوں پر فضائی بمباری اور گولہ باری کا سامنا کرتے رہے، بھٹو کے اقتدار کے خاتمہ تک یہ سلسلہ جاری رہا اور آخر کار جنرل ضیا الحق نے اپنی سیاسی اور فوجی مصلحتوں کے پیش نظر 11ہزار زیر حراست سرداروں اور ان کے چھاپہ ماروں کو رہا کر کے بلوچوں سے صلح کی۔پھر بلاول کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اُن کی والدہ کے دور اقتدار اور بعد میں پی پی پی کے آخری دور اقتدار میں بلوچستان کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہی ہوا۔ پھر اچکزئی کو کبھی لاہوریوں کو غدار کہتے ہیں تو کبھی پنجابیوں کو۔کو بھی یہ بات بتانی چاہیے کہ وہ پانچ سال تک مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وفاق اور صوبے میں حکمران رہے۔ ان کے بھائی پانچ برس تک صوبے کے گورنر رہے۔ ان کے گھر کا ہرفرد اس دوران رکن پارلیمنٹ رہا لیکن کارکردگی کیا ہے ؟ صرف بلوچستان کی محرومی اور پسماندگی ؟ اپنی تقاریر میں جو سوالات سردار اختر مینگل ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور محمود اچکزئی پوچھتے یا جو الزامات لگاتے ہیںان تمام کے ذمہ دار سٹیج پر موجود سیاسی جماعتیں بطور خاص ن لیگ اور پیپلزپارٹی ہیں۔ لیکن انھوں نے ان سے گلہ شکوہ کرنے اور مستقبل میں ان غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد لینے کی بجائے عوام کا لہو گرما نے کے لئے صرف اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھا۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مقتدر قوتوں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے لیکن کیا یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری نہیں کہ اگر وہ مداخلت کرتی ہے تو ان کا راستہ روکے؟ لہٰذا1985سے لیکر آج تک دو بڑی پارٹیاں ن لیگ اور پی پی پی حکومت کرتی رہی ہیں، اگر مینگل کو کوئی تکلیف ہے تو ان دونوں خاندانوں سے ہونی چاہیے ، سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ جنہوں نے محرومی دی وہ مینگل کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہیں،یہ کیا تضاد ہے؟ یہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟یہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کامن سینس کی بات ہے کہ جب یہ خود اقتدار میں ہو کر بھی بلوچستان کی محرومی دور نہیں کر سکتے ، تو باہر بیٹھ کر دوسروں سے مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟اگر اقتدار میں آکر ان کی نہیں چلتی تو دوبارہ یہ لوگ اقتدار میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟اور فرض کریں کہ انہیں دوبارہ اقتدار مل بھی جاتا ہے تو کیا یہ بلوچستان کی احساس محرومی کو دور کر دیں گے؟ چلیں فرض کیا کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کام نہیں کرنے دیتی تو یہ پھر دوبارہ کس منہ سے اقتدار کی بھیک مانگ رہے ہیں؟ بہرکیف اس مرتبہ بھی اس دہکتے آتش فشاں کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے ملکی وحدت اور سلامتی کے نام پر انہی روایتی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اسے مزید بھڑکایا جارہا ہے۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم میں شامل دونوں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو اب بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں اب تک اقتدار کی ہوس ختم نہیں ہوئی ہے۔ ملکی سیاسی آب وہوا موافق نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ انقلابی نعروں کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور محترمہ بے نظیر کے یوم شہادت پر نوڈیرو میں قومی اداروں کے خلاف دوبارہ زبان استعمال کی گئی ہے تو اُس سے یہ شک و شبہ دور ہو جاتا ہے کہ ان جماعتوں کو کون لوگ اور کیوں استعمال کررہے ہیں، حالانکہ میں نے سابقہ کالموں میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ شائبہ ہے کہ پی ڈی ایم بیرونی ایجنڈے کا آگے لے کر چل رہی ہے، لہٰذاحکومت کو بھی ان باتوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اگر بلوچستان کو ہم سے شکایات ہیں تو انہیں دور کرناچاہیے ، اور اگر یہ کام موجودہ حکومت کر دیتی ہے تو یہ اُس کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔