نوجوانوں میں نفرت کا لاوا پک رہا ہے؟

قوم کو مبارک ہو کہ ایک بار پھر ”جھرلو جمہوریت“ نافذ کی جا رہی ہے، سب کو علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے، کیانہیں! پی ٹی آئی کو نکڑے لگایا جا رہا ہے، بلکہ لگا دیا گیا ہے ہمارے نوجوان جنہوں نے 2018ءمیں پہلی دفعہ ووٹ ڈال کر تحریک انصاف کو کامیاب کروایا تھا، کیا وہ موجودہ صورتحال نہیں دیکھ رہے ہوں گے؟ کیا کسی نے سوچا کہ وہ کس قدر مایوس ہو چکے ہوں گے؟ اُن کے اندر نفرت کا جو لاوا پک رہا ہوگا، کیا اُس کے بارے میں کسی نے سوچا؟ نہیں ناں!یقینا نہیں سوچا ہوگا عمران خان کی سیاسی پشت پناہی دراصل مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کی ’مقبولیت‘ کو ’قبولیت‘ میں تبدیل کرنے کیلئے کی گئی تھی مگر جب وہ خود مقبولیت کی منزلیں طے کرنے لگے تو وہ قابل قبول نہیں رہے۔ اپریل2022کے بعد عمران اور پی ٹی آئی جوابی حملوں کو سمجھ ہی نہیں سکے اور غلطیوں پہ غلطیاں کرتے چلے گئے نواز شریف جیل میں عمران خان سے بھی ملاقات کریں، ایسا کرنے سے تحریک انصاف کے ووٹرز میں ن لیگ کے ہمدردی پیدا ہوگی۔ جس کی اس وقت اشد ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ ورنہ یہ نوجوانوں میں پکتا یہ لاوا ”انقلاب“ کی صورت میں بدل جائے گا! قوم کو مبارک ہو کہ ایک بار پھر ”جھرلو جمہوریت“ نافذ کی جا رہی ہے، سب کو علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے، کیانہیں! ن لیگ کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ مختلف ہے، جبکہ دیگر تمام پارٹیوں کے لیے مختلف۔ پی ٹی آئی کو نکڑے لگایا جا رہا ہے، بلکہ لگا دیا گیا ہے، پورے ملک میں جہاں بھی وہ جلسے جلوس کی اجازت مانگتے ہیں اُنہیں انکار کردیا جاتا ہے، اُن کی رہی سہی قیادت اُن کے ساتھ یا تو زیر زمین چلی گئی ہے یا مختلف حیلے بہانوں کے ساتھ حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ ن لیگ سمیت دیگر پارٹیاں اپنے تئیں عوام میں جا رہی ہیں، الیکٹیبلز کو نت نئی پیشکشیں دی جا رہی ہیں، اور نت نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ ایسا ہی ایک اتحاد گزشتہ روز بلوچستان میں دیکھا گیا جہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 20سے زائد الیکٹیبلز مسلم لیگ ن کے پلڑے میں آگئے، ان میں سردار عبدالرحمن کھیتران ، محمد خان طور، محمد خان لہڑی، عبدالکریم، نواب چنگیز مری، نور محمد خان دمڑی، سردار مسعود لونی وغیرہ نمایاں ہیں۔ جبکہ ذرائع بتا رہے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی جلد ہی ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ الغرض اس وقت کی صورتحال دیکھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے آگے حالات مشکل سے مشکل تر نظر آتے ہیں۔انصافی قیادت کو روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کا حصہ بنایا جا رہا ہے، لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ ابھی تک پاکستان کا نوجوان کسی صورت تحریک انصاف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے، وہ کیسے پیچھے ہٹے؟ کیا کوئی دوسری سیاسی پارٹی نوجوانوں کو راغب کرنے اور اُنہیں سیاست میں مشغول رکھنے کے لیے رکنیت سازی کر رہی ہے؟ کیا اس حوالے سے کسی پارٹی نے قدم اُٹھایا کہ اپنی مرکزی کمیٹی میں کسی نوجوان کو ہی شامل کر لیا جائے۔ تاکہ وہ ہمارے نوجوانوں کا رول ماڈل بنے۔ اور پھر جب ہمارے نوجوان جنہوں نے 2018ءمیں پہلی دفعہ ووٹ ڈال کر تحریک انصاف کو کامیاب کروایا تھا، کیا وہ موجودہ صورتحال نہیں دیکھ رہے ہوں گے؟ کیا کسی نے سوچا کہ وہ کس قدر مایوس ہو چکے ہوں گے؟ اُن کے اندر نفرت کا جو لاوا پک رہا ہوگا، کیا اُس کے بارے میں کسی نے سوچا؟ نہیں ناں!یقینا نہیں سوچا ہوگا۔ بلکہ ن لیگ کو ہی دیکھ لیں، ابھی گزشتہ دنوں اُنہوں نے پارٹی کا نیا منشور بنانے کے لیے کمیٹی بنائی ہے جس میں مجال ہے کہ کسی نوجوان کا حصہ رکھا ہو۔ بلکہ اس منشور کمیٹی میں تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے والا ایک بھی ماہر شامل نہیں جس کے پاس کوئی ایسا ویژن ہو جو فرسودہ نظام تعلیم کے بجائے جدید تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم ترتیب دے۔مسلم لیگ نون کی منشور کمیٹی میں آر ٹی فیشل انٹیلی جنس اور آئی ٹی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے فرد کی عدم موجودگی بھی قائدین کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے۔آج پوری دنیا جدید ٹیکنالوجی کے سہارے خلا مسخر کر رہی ہے جبکہ ہماری ترجیحات میں دور دور تک اس کا نام و نشان نہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور آئی ٹی ایکسپرٹ بھی اس ٹیم کا حصہ ہوتے جو قوم کو جدید ٹیکنالوجی کی طرف راغب کرنے کیلئے کام کرتے۔ ہمارا تو یہ خیال تھا کہ تین سالہ جلاوطنی کے دوران مسلم لیگی قائد کے ویژن میں کوئی نمایاں تبدیلی ظاہر ہوچکی ہوگی،معاشیات کے بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ ان کا ربط ضبط ہوگا، بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال تشکیل پائیں گے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین انکی ٹیم کا حصہ ہوں گے،نوجوانوں کے مسائل کا ادراک رکھنے والے روشن دماغ انکے دائیں بائیں ہوں گے لیکن اس کمیٹی کی تشکیل سے تو یوں لگتا ہے کہ شاید مسلم لیگی قائدین چاہتے ہیں کہ ”رند کے رند بھی رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے“اس کمیٹی کی تشکیل مسلم لیگی قیادت کی اس سوچ کو ظاہر کر رہی ہے کہ وہ پرانی شراب ایک نئی بوتل میں قوم کے سامنے پیش کریگی۔لیکن مسلم لیگی قیادت آگاہ رہے کہ2023 ءمیں بہت سی زمینی حقیقتیں تبدیل ہو چکی ہیں،اس وقت زیر زمین ایک بہت بڑا لاوا پک رہا ہے۔ ہمارا نوجوان بہت حد تک غصہ کی حالت میں ہے۔اس نسل کے پسندیدہ لیڈر کی مسلسل بے توقیری نے انکی جھنجھلاہٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔ اگر وہی گھسے پٹے پرانے وعدے یاد دلائے گئے تو نہ صرف اس کا منفی رد عمل سامنے آئیگا بلکہ نوجوانوں کی مایوسی اور غصے میں مزید اضافہ ہوگا۔ خیر میں تو یہی کہوں گا کہ ہمارا نوجوان یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ اس وقت ملک میں مقبول ترین پارٹی کے قائدین کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے؟ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور منہ پر چادر ڈال کر عدالتوں میں پیش کرنا بھی ہمارے سیاسی مزاج کا حصہ رہا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے چند سیاسی مخالف مخالفت کے باوجود اس طرز سیاست پر اعتراض اور احتجاج کرتے تھے اب اس عمل کی دبے دبے الفاظ میں حمایت اور اس کو مکافات عمل کا نام دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف سیاسی طور پر اس کا مقابلہ کیسے کرتی ہے اور خود عمران خان اس سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔ مقبول سیاسی جماعتوں پر ایسا وقت آتا ہے بعض اوقات ’رات‘ طویل ہوجاتی ہے، مثالیں ہمارے سامنے ہیں قربانی کی بھی اور جدوجہد کی بھی۔ بدقسمتی سے طویل رات کے بعد جو صبح دیکھی تو دھندلی ہی نظر آئی۔ پاکستان میں جو مقبولیت شیخ مجیب الرحمان، ذولفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو اور الطاف حسین کےحصہ میں آئی وہ کم لوگوں کو نصیب ہوئی۔ نواز شریف تو 1997ءمیں دوتہائی اکثریت لے کر آئے تھے مگر جب ’قبولیت‘ کی منزل سے ہٹ گئے تو عمر قید کی سزا سنادی گئی مگر میاں صاحب نے جدوجہد کے بجائے ’ڈیل‘ کا راستہ اپنایا ورنہ شاید جنرل مشر ف کا اقتدار نوسال نہ چلتا۔ وہ عمران خان کے دور میں بھی‘ڈیل‘ کرکے ہی لندن گئے اور ’قبولیت‘ کی یقین دہانیوں پر واپس آئے ہیں۔ بھٹو نے ڈیل نہیں کی اور پھانسی چڑھ گیا، بے نظیر ڈیل توڑ کر پاکستان واپس آئیں اور شہید کردی گئیں۔ اس کے بعد کی پی پی پی نے ’مقبولیت‘ کا راستہ ترک کیا تو ان کی ’مقبولیت‘ سندھ تک محدود ہوگئی اور پی پی پی پنجاب کے وہ کارکن اور رہنما تحریک انصاف میں چلے گئے جنہوں نے ماضی میں جنرل ضیا کے دور کی سختیاں دیکھیں۔ عمران خان کی سیاسی پشت پناہی دراصل مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کی ’مقبولیت‘ کو ’قبولیت‘ میں تبدیل کرنے کیلئے کی گئی تھی مگر جب وہ خود مقبولیت کی منزلیں طے کرنے لگے تو وہ قابل قبول نہیں رہے۔ اپریل2022کے بعد عمران اور پی ٹی آئی جوابی حملوں کو سمجھ ہی نہیں سکے اور غلطیوں پہ غلطیاں کرتے چلے گئے۔ ایک طرف اپنے مخالفوں کے خلاف سیاسی محاذ کھولے رکھا تو دوسری طرف ریاست پر یلغار اور اس کے درمیان اپنی ہی وکٹ او ر گراﺅنڈ کو دوسروں کے حوالے کردیا ورنہ جتنا سیاسی اسپیس عدم اعتماد کی تحریک کے منظور ہونے کے باوجود عمران کو حاصل تھا وہ نہ ماضی میں بھٹو کے پاس تھا نہ بے نظیر اور نہ ہی نواز شریف کے پاس۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں مضبوط اپوزیشن، پنجاب، کے پی اور گلگت،بلتستان میں حکومتیں۔کشتیاں جلائیں مگر یہ دیکھے اور سمجھے بنا کہ لڑائی لڑنے والے سپاہی ہیں کہ بھگوڑے اور آخر میں9مئی کو ”خودکش “ حملہ ہوگیا۔ اس کے بعد جوابی حملوں کے مقابلے کیلئے کوئی بھی سیاسی حکمت عملی سامنے نہ تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی ہوں یا شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد ہوں یا فواد چوہدری’کپتان‘ نے ان کے مشوروں کو نظر انداز کردیا۔ایسا ہی خود کش حملہ الطاف حسین نے 22اگست2016کو پاکستان مخالف نعرہ لگا کراپنی ہی جماعت پر کیا تھا،اب ’قبولیت‘ والی ہی ایم کیو ایم رہ گئی ہے’مقبولیت‘ کا بخار اتر چکا ہے۔ دیکھتے ہیں اس الیکشن میں ان کے حصہ میں کیا آتا ہے۔ بہرکیف پی ٹی آئی اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آئے گا، اسکی مشکلات میں مزید اضافہ ہی نظر آئے گا ایسے میں بیلٹ پیپر پر ’بلے‘ کانشان ہو مگر بیٹنگ کرنے والا ہی نہ ہوتو نتیجہ کس کے حق میں جائے گا۔ عمران خان کو اس وقت ’زباں بندی‘ اور تحریک انصاف کو ’غیر علانیہ‘ پابندی کا سامنا ہے،جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اب تک پی ٹی آئی نے کہیں بھی ریلی اور جلسے کی اجازت مانگی تو اسے ’انکار‘ کا سامنا کرناپڑا ہے۔ لگتاہے ریاست انکو ایک ایسی بند گلی میں لے جارہی ہےجہاں ان کے پاس شاید الیکشن کے بائیکاٹ کا آپشن ہی رہ جائے یا پھر وہ ’کنگز پارٹی‘ کا حصہ بننا قبول کرلے۔عمران خان نے اب تک نہ ڈیل قبول کی ہے اور نہ ہی باہر جانے کا آپشن۔پی ٹی آئی اور عمران سے لاکھ اختلاف سہی یہ بات طے ہے کہ وہ سیاست میں ایک ایسی اکثریت کی نمائندگی کررہا ہے جو ایسے نوجوانوں اور ووٹرز پر مشتمل ہے جنہوں نے تبدیلی کا خواب دیکھا تھا، اُن کا خواب یقینا نہیں ٹوٹنا چاہیے، وہ اس کے لیے اگر ن لیگ کو قیادت دینے کا اشارہ مل چکا ہے تو وہ ان نوجوانوں کے لیے کچھ کریں، انہیں پیکجز دینے کے بجائے گلی محلے میں کمیٹیوں پر کام کریں، اُنہیں لوکل سطح پر عہدوں سے نوازے، اُنہیں اعتماد دے، ایسا کرنے سے یقینا ن لیگ کا ایک مثبت چہرہ سامنے آئے گا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ نواز شریف جیل میں عمران خان سے بھی ملاقات کریں، ایسا کرنے سے تحریک انصاف کے ووٹرز میں ن لیگ کے ہمدردی پیدا ہوگی۔ جس کی اس وقت اشد ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ ورنہ یہ نوجوانوں میں پکتا یہ لاوا ”انقلاب“ کی صورت میں بدل جائے گا!