بھٹوکے نظریات سے دور ہوتی پیپلزپارٹی !

ایک بار پھر سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی برسی گزشتہ روز خاموشی سے گزر گئی۔اور ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی جانب سے کسی قسم کی کوئی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیا، پچھلی دو مرتبہ کورونا کو بہانہ بنایا گیا اور اب کی بار رمضان اور سیاسی بحران کا بہانہ بنا کر کسی نے بھٹو کو یاد تک نہ کیا۔ خیر سب جانتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو 4اپریل1979ءکو ایک متنازعہ قتل کیس میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی بنا پر یہ دن پاکستان کی جمہوری اور عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرارپایا۔کیوں کہ بھٹو صاحب ذوالفقار علی بھٹو شہید اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، کا منشور لے کر سیاست کے میدان میں آئے، انہوں نے سیاست کو محلات اور ڈرائنگ روم سے نکال کر غریبوں کے دروازوں پر لا کر کھڑا کیا اس لیے وہ عالمی و اندرونی سازشوں کو شکار ہو کر پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔جبکہ اس کے برعکس موجودہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اسے دوبارہ ڈرائنگ روم میں بند کردیا۔ اسی لیے یہ جماعت مرکز سے نکل کر سمٹتی ہوئی سندھ تک محدود ہو گئی۔ آگے چلنے سے پہلے بھٹو کی سیاست کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ واقعی ایک عوامی لیڈر تھے۔ اُن کی سیاست کا آغاز تو اسکندر مرزا کے دور میں شروع ہو چکا تھا مگر ایوب خان کے مارشل لاءدور میں بھٹو کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد آخرکار 1963 میں وزیر خارجہ کے عہدے پر براجمان ہو گئے اور بحیثیت وزیر خارجہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بطور وزیر خارجہ بھٹو نے اعتماد، جذبے اور جوش کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں کشمیر سمیت کئی موضوعات پر تقاریر کیں۔ جو آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کا درجہ رکھتی ہیں۔ بھٹو اپنی تقریر کا آغاز کرتے تو سامعین پر ایک سحر طاری ہوجاتا۔ پوری دنیا کے سفارت کار ہمہ تن گوش ہوکر آپ کی بات سنتے۔ بھٹو کی انگلش زبان میں کی ہوئی تقاریر سفارتکاری اور ادب کا شاہکار تھیں۔ کیونکہ اردو ہو یا انگلش، اچھا بولنے کے لیے علم کے ساتھ زبان پردسترس ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھٹو دنیا کی نامور درسگاہوں سے فارغ التصحیل تھے۔ جن میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آکسفورڈ یونیورسٹی، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کو عالمی سیاست، قانون، ادب اور انگلش زبان پر ملکہ حاصل تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو سب سے زیادہ پڑھے لکھے سربراہِ حکومت اور سربراہِ ریاست تھے۔ تعلیم کے ساتھ قدرت نے بھٹو کو فنِ تقریر کا تحفہ عطا کر رکھا تھا، جس نے بھٹو کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے۔ 1965 کی جنگ کے بعد، 1966 میں ایوب خان نے اعلانِ تاشقند پر ہندوستانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے ساتھ دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بعد بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ کیونکہ بھٹو چاہتے تھے کہ 1965 کی جنگ کے نتیجے میں کشمیر کا مسلئہ حل کیا جائے، مگر ایوب خان اس بات کے حامی نہ تھے۔ اور یوں اعلانِ تاشقند کے بعد بھٹوکا پہلا سیاسی دور ختم ہوا۔ اعلانِ تاشقند کے ٹھیک ایک سال بعد 1967 میں بھٹو نے پی پی پی کی لاہور میں بنیاد رکھی۔ اور یوں پی پی پی کے بطن سے ایک نئے بھٹو نے جنم لیا۔ ایک ایسا بھٹو جو آواز تھا غریب ہاری کی، کسان کی، محنت کش عوام کی، فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور کی، اور ہراس شخص کی، جو زبان ہوتے ہوئے بھی بولنے سے قاصر تھا۔ پی پی پی کے قیام کے بعد بھٹو نے پاکستان کی سیاست کو اشرافیہ کے محلات سے نکال کر غریب کی جھونپڑیوں، سڑکوں اور چوراہوں میں لا کھڑا کیا۔ چند سال کے اندر اندر محض اپنی سیاسی بصیرت اور قابلیت کے بل بوتے پر عوامی حمایت حاصل کی اور 1970 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔ دسمبر 1971 میں جب حالات فوج کے بس سے باہر ہوگئے تو یحییٰ خان نے استعفیٰ دیتے ہوئے اقتدار بھٹو کے حوالے کردیا۔ یحییٰ خان نے جب اقتدار چھوڑا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے سول چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر کا عہد ہ سنبھالا۔ اس طرح بھٹو کے سیاسی سفر کا تیسرا اور اہم ترین دور شروع ہوا۔ ان کے ناقدین آج تک بھٹو کو بغیر وردی آمر سمجھتے ہیں۔ لیکن شاید لوگ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت کے دستور کا تقاضا ہی یہی تھا۔ بہرحال! جب بھٹو نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ 1971 کی جنگ کے بعد چالیس ہزار سے زائد پاکستانی فوجی ہندوستان کی جیلوں میں قید تھے اور پچاس ہزار مربع میل سے زائد پاکستانی رقبہ ہندوستان کے قبضہ میں تھا۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1972 میں ہندوستان کا دورہ کیا، اور میدان جنگ ہیں ہاری ہوئی بازی، مذاکرات کی میز پر بدل کر رکھ دی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشہورِ زمانہ شملہ کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کے بعد بھٹو کی شہرت پاکستان میں بلندیوں کو چھو رہی تھی اور وہ عوامی اجتماعات سے بھرپور خطابات کررہے تھے۔ اس واقعے کے ایک سال بعد 1973 میں پاکستان کو پہلا وفاقی پارلیمانی دستور دیا، جو بھٹو کا ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ تھا۔ دستور کے علاوہ پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور کھل کر اس کا دفاع بھی کیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھا۔ آج بھی پاکستان ان کی بنائی ہوئی خارجہ پالیسیوں کے اثرات سے فائدہ حاصل کررہا ہے۔ بھٹو کی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے چین اور روس جیسے ممالک پاکستان کے قریب آئے اور پاکستان مسلم امہ کی نگاہوں کا مرکز بھی بن گیا۔ تمام عالم اسلام کے سرکردہ رہنما بھٹو کو اپنا محسوس کرنے لگے۔ اسی دور میں عالمی اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس لاہور میں ہوا۔ اسی دور میں اسلامی بینک جیسے ادارے بنے اور او آئی سی جیسے فورم بھی۔ تاکہ مسلم دنیا کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ بات مغربی حکمرانوں کو بالکل پسند نہ آئی اور مغربی دنیا بھٹو کی دشمن ہوگئی۔پھر اس کے بعد 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لائ لگاتے ہوئے بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔ بھٹو کو کابینہ سمیت نظر بند کردیا، اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ اور تین ماہ میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یوں بھٹو کی سیاسی زندگی کے تیسرے دور کا خاتمہ ہوا اور آغاز ہوا ایک عہد ساز شخصیت کے زوال کا۔اور پھر یوں ہوا کہ ایک احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ کھلنے کی دیر تھی بھٹو کو پہلے لاہور ہائیکورٹ میں پھانسی ہوئی، پھر سپریم کورٹ نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا۔ اور پھر 4اپریل کو پھانسی پر چڑھ گئے۔ عدالتی فیصلے پر پی پی پی کے نامور رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا: شہادتوں کے تقابل سے کچھ ملا تو نہ تھا کیا تھا جبر عدالتوں نے یہ فیصلہ تو نہ تھا ذوالفقار علی بھٹو ایک نظریہ کا نام تھا، جسے پھانسی نہ مار سکی۔ جس کی جماعت ایک سیاسی تحریک کا نام اور غریب کی ترجمان تھی۔ جس کی جماعت کو آمرانہ ادوار کے جبر نہ ختم کرسکے اور پھانسی کے بعد بھی لوگ ”زندہ ہے بھٹو“ کا نعرہ لگاتے رہے۔جبکہ اس کے برعکس موجودہ پیپلزپارٹی عوامی پارٹی نہیں بلکہ جوڑ توڑ کی پارٹی بن چکی ہے، اور سمٹ کر ایک صوبے یعنی صوبہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ اب تازہ سیاسی بحران کے بعد وہ مرکز اور پنجاب میں اپنے پاﺅں جمانا چاہتی ہے۔ حالانکہ پنجاب کے عوام اُنہیں لگاتار کئی الیکشن میں مسترد بھی کر چکے ہیں۔بھٹو اور زرداری میں یہی فرق ہے کہ بھٹو پروگرام پر بات کرتا تھا، جبکہ زرداری صاحب یا موجودہ پی پی پی کی قیادت کے پاس کیا پروگرام ہیں؟ یہی پروگرام ہیں کہ آج راجہ ریاض کو توڑ لو، کل چن صاحب کو توڑ لو، پرسوں کسی اور بندے کو توڑ لو۔اس کے علاوہ پی پی پی آج اُلجھنوں کا شکار ہے، نہ وہ صحیح طرح اپوزیشن میں بیٹھتی ہے نہ اقتدار کے ایوانوں میں چین سے بیٹھنے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے اِن بے وقت کی الجھنوں نے پیپلزپارٹی کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ اندھیرا کس طرف ہے اور اجالا کس طرف؟ پیپلزپارٹی کے ہاں اضطراب ہے؛ مکمل اضطراب۔ سوچوں کا بوجھ ایک کندھے پر ہے اور فیصلہ سازی کا فقدان دوسرے کاندھے پر۔ پیپلزپارٹی ابہام اور غیر یقینی کی اندھیری گلی میں کسی ”مانوس جگنو“ کی تلاش میں ہے۔ دیکھئے یہ تلاش کب ختم ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں۔لہٰذاپیپلزپارٹی مرکز یا پنجاب میں اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک یہ عوام کے دلوں پر راج نہیں کرتی، یہ عوام کے قریب نہیں جاتی۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی عوام کے زیادہ قریب تھی، اُس وقت بھٹو کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے اُسے ضیاءنے شہید کیا۔ لیکن ان سیاستدانوں خصوصاََ پیپلزپارٹی کے حالیہ رہنماﺅں سے کسی کو خوف ہی نہیں ہے، سب کو علم ہے کہ یہ تو For Saleہیں، جبکہ بھٹو نے جلاوطن ہونے کی نسبت موت کو گلے سے لگایا۔ جبکہ یہ لوگ تو فوراََ ملک سے باہر بھاگ جاتے ہیں، لہٰذایہ پیپلزپارٹی کیسے پنجاب میں آسکتی ہے؟ اور یہ سوچا جائے کہ جو پیپلزپارٹی پنجاب یا پاکستان کے عوام میں مقبول تھی، اُس کی آخر وجہ کیا تھی؟ بہرکیف بھٹو کی ذات پر سیاسی نوعیت کے کئی الزام لگ سکتے ہیں، مگر مالی بدعنوانی کا ایک بھی الزام بھٹو سمیت ان کے کسی قریبی رفیق پر بھی نہیں لگ سکتا۔ مگر آج کی پی پی پی اور اس کی قیادت کرپشن کا استعارہ ہے، جس نے بھٹو کا نظریہ دفن کرکے زرپسندی کا نظریہ اپنا لیا۔ اور یوں غریب، کسان، مزدور، ہاری، مظلوم، محکوم، اور بے نوا پاکستانی کا بھٹو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مر گیا۔ جسے بلاول بھٹو زرداری کا ٹرین مارچ بھی زندہ نہیں کرسکتا۔لہٰذابھٹو اور بی بی کے اصولوں اور قربانیوں کو اگر پی پی کی قیادت بھلا دے گی تو نقصان کسی اور کا نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کا ہوگا اور اس خلاءکو پھر شاید کبھی پر بھی نہیں کیا جا سکے گا!