آزمائے ہوﺅں کو اقتدار دینا خود کش حملے کے برابر

اقتدار اس منصب کا نام نہیں کہ اس پر وہی بیٹھے جسے عوام نے منتخب کیا ہو۔ بلکہ یہ اُس حصولیت کا نام ہے جسے ”حاصل“ کیا جائے۔ خواہ اُس کا مول کچھ بھی ہو۔ اسے خریدنا ہے بس۔ اس کے لیے آپ اپنا وقار، مال و دولت سب کچھ داﺅ پر لگا سکتے ہیں۔ یہی کچھ آج کل پاکستان میں ہو رہا ہے کہ عوام نے اقتدار کے لیے کسی اور کو چنا ہے جبکہ حکومت کوئی اور بنا رہے ہیں۔ یعنی سب سے بہتر مینڈیٹ پاکستان تحریک انصاف کو ملا ہے لیکن پی ایم ایل این، پیپلزپارٹی،ایم کیو ایم، ق لیگ، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی مل کر حکومت بنا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے بانی فرماتے ہیں،کہ تین جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کسی صورت اتحاد نہیں ہو سکتا۔ قومی اسمبلی میں اکثریت (ماسوائے آزاد اُمیدواروں کے) انہی تین جماعتوں کے پاس ہے۔ قومی اسمبلی کے 265حلقوں میں سے تقریباً 150 نشستوں پر انہی بڑی جماعتوں کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔ اگر آزاد ارکان اسمبلی اور دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو یہ تعداد 170تک چلی جاتی ہے جبکہ تحریک انصاف اگر کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کرتی تو اس کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 93نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں سے 90نومنتخب ارکان پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ حکومت سازی کیلئے 133ارکان قومی اسمبلی کی حمایت درکار ہو گی۔ الغرض اب یہ بات واضع ہو رہی ہے کہ اقتدار انہی 16مہینوں والی حکومت کے پاس جانے والا ہے۔ جسے عرف عام میں آپ پی ڈی ایم 2بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہی پی ڈی ایم والے ہیں جو حالیہ الیکشن سے چند روز پہلے تک ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے، مگر اب جیسے ہی اقتدار انہیں ملنے والا ہے تو یہ ایک دوسرے کے گلے لگ چکے ہیں۔ الغرض بادی النظر میں الیکشن سے پہلے کرپشن کے حصول کے لیے اورعوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نورا کشتی لڑ رہے تھے اور اب یہ اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکل رہے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ دوبڑی جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی آج تک کبھی کسی بڑے مسئلے کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں؟ نہیں بالکل نہیں ۔۔۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں یہ جب بھی اکٹھے ہوئے ہیں ہمیشہ اقتدار کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، ورنہ ان کی بظاہر لڑائیوں اور مقدمے بازی سے کون واقف نہیں ہے؟ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ جب پہلی بار محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس پیپلز پارٹی کی قیادت آئی تو ان کا سامنا مسلم لیگ (ن) کے تازہ دم قائد نواز شریف سے ہوا ،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان محاذ آرائی عروج پر رہی ہے۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہی جب پرویز مشرف نے نواز شریف کے بعد بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا تو پھر دونوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور ان کے درمیان لندن میں مئی 2006 ءتاریخی ”میثاق جمہوریت“ ہوا۔ اس معاہدہ پر پوری طرح عمل درآمد تو نہ کیا گیا ،لیکن جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے کے لیے کسی حد تک عمل درآمد ہوا اس معاہدہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کی قیادت پر قائم کیے گئے تمام کیسز سرے سے ہی ختم کر دیے گئے۔ پھر بھلا ہو بانی تحریک انصاف کا جنہوں نے اپنے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کر دیا،ایک سینئر صحافی نے عمران خان سے کہا کہ ”آپ کیسے سیاست دان ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اپنے خلاف اکٹھا کر دیا آپ آصف علی زرداری کو اپنے قریب تر کر کے نواز شریف کو تنہا کر سکتے تھے۔ دشمن کا دشمن دوست بن جایا کرتا ہے۔“ا س انہوں نے کہا کہ نہیں یہ کبھی میرے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ بلکہ آپ دیکھیں گے کہ یہ مل کر میرے خلاف اتحاد بنائیں گے۔ اور پھر تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ 2020ءمیں پی ڈی ایم وجود میں آئی۔ اور پھر 2022ءمیں جو ان دونوں جماعتوں کے گٹھ جوڑ سے جو حکومت ملی اُس میں ہوئی کرپشن کا تو فی الوقت کوئی نام نہیں لے رہا مگر آنے والے دنوں میں دیکھیے گا کہ کیسے کیسے سکینڈلز منظر عام پر آتے۔ اور اس کے بعد اب یہ دوبارہ فروری 2024ءکے الیکشن کے بعد حکومت کرنے کے لیے توڑ جوڑ کر رہے ہیں تو اسے آپ یقینا سانپ سیڑھی کا کھیل ہی سمجھیں۔ خیر آپ ان جماعتوں کا وژن چیک کر لیں کہ نہ تو ان کے پاس کوئی مستقل لائحہ عمل ہے، نہ ان فیوچر پلان اور نہ ہی کوئی 2030،2040کا کوئی منصوبہ !لیکن اس کے برعکس ان کا دھیان صرف اس طرف ہے کہ کل ہماری حکومت کیسے آئے گی اور ہم ملک سے کیسے پیسے نکالیں گے۔ آپ ممکنہ حکمران اتحاد میں موجود دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں، سیاسی طبقات اُسے سیاسی جماعت ضرور سمجھتے ہیں ، مگر وہ بھی تحریک انصاف کی مخالفت میں ن لیگ سے ڈسی ہوئی ہے۔ اور پھر گڈ گورننس کے معاملے میں بھی کبھی پیپلزپارٹی کا اچھا ریکارڈ نہیں رہا۔ آپ اس کی مثال گزشتہ 15سال سے سندھ میں موجود حکومت کی کاردگی کو دیکھ لیں، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کسی پارٹی کو کسی صوبے میں بھی اتنا لمبا اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ اور پیپلزپارٹی کو تو چاہیے تھا کہ ان 15سالوں میں صوبے کی قسمت بدل کر مرکز میں حکومت لانے کے لیے عوام کے پاس جاتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جیسے تیسے کر کے اگلے پانچ سال کے لیے وہ پھر سندھ اسمبلی پر قابض ہو چکے ہیں۔ لہٰذامیں تو یہی کہوں گا کہ اگر ہماری سیاست کا یہی وطیرہ رہا تو بہت جلد ہم عالمی برادری میں تنہا رہ جائیں گے!ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر سیاسی جدت لانے کے ضرورت ہے۔ اگر یہ نہ ہوئی تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ جو لوگ ، کمپنیاں یا ملک اپنے آپ کو جدیدیت کے ساتھ استوار نہیں کرتے .... وہ دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان بھی دیوالیہ ہونے کو ہے۔ بلکہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اس وقت ملک عالمی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ لہٰذاایک اچھی قیادت جب بھی اس ملک میں پروان چڑھنے لگتی ہے تو عین اُسی وقت کہیں سے کوئی نہ کوئی مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم تحریک انصاف کے کبھی سپورٹر نہیں رہے، میں توآج تک کبھی بنی گالہ یا زمان پارک نہیں گیا، لیکن ہم پاکستانی ہیں، اور پاکستان کے لیے جو بہتر ہے ہم اُنہیں سپورٹ کر یں گے۔ اور جو وطن عزیز کے لیے برا کر رہا ہے ہم اُس کو کبھی سپورٹ نہیں کریں گے۔ کیوں کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اس لیے سو باتوں کی ایک بات کہ بھائی! جس کو عوام نے منتخب کیا ہے، اسے اقتدار دیں ۔ اور جسے عوام نہیں چاہتی اُسے اقتدار دینے کا ایک بار پھر ناکام تجربہ نہ کریں۔ لہٰذاان آزمائے ہوﺅں کا ساتھ دینے کے بجائے اس وقت مقتدرہ قوتوں کو سچ کا ساتھ دینا چاہیے،یقین مانیں، یہ وہ آزمائے ہوئے لوگ ہیں، جو ملک کو ایسے نچوڑ رہے ہیں جیسے ایک گنے کا جوس نکالنے کے لیے بار بار اُسے نچوڑا جاتا ہے۔ یعنی تین بار ن لیگ اور 3بار ہی پیپلزپارٹی ملک کو نچوڑ چکی ہے، لہٰذااب اس میں سے کیا نکالنا ہے،ا نہوں نے۔لہٰذاصرف ذاتی غصے کی وجہ سے ان لوگوں کو آگے لایا جائے تو کون انہیں سمجھدار کہے گا۔