کیا تحریک انصاف ختم ہوجائے گی؟

وطن عزیز میں ”سیاسی ادارہ“ جس طرح گزشتہ 75سالوں سے پٹ رہا تھا آج بھی یہ بری طرح پٹ رہاہے،پہلے بھی کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ حالات کسی کروٹ بیٹھیں گے، پتہ آج بھی نہیں ہے۔ پہلے بھی قیادتیں ایک دوسرے پر مقدمات کی سنگ باری کرتی تھیں آج بھی ہو بہو ماحول اُسی طرح کا ہے،فرق صرف یہ کہ پہلے دو سیاسی جماعتیں آپس میں گتھم گتھا تھیں اب تحریک انصاف کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یعنی ان تین سیاسی جماعتوں میں جو اس وقت اپنے عروج پر ہیں، ان میں پہلی تحریک انصاف جو پنجاب اور کے پی کے میں حکومتی نظام سنبھالے ہوئے ہے، دوسری ن لیگ جو مرکز میں موجود ہے، تیسری پیپلزپارٹی جو سندھ میں حکومتی نظام چلا رہی ہے۔ لیکن ان تینوں جماعتوں کے درمیان مجال ہے کوئی تعمیری یا مثبت ہم آہنگی پائی جائے۔ بلکہ اُلٹا یہ جماعتیں ایک دوسرے پر پرانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مقدمات درج کروا رہی ہیں، اس میں مرکزی حکومت پیش پیش ہے جو شاید تحریک انصاف کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے پہلے اُس نے شہباز گل کو گرفتار کیا، اُس پر تشدد کیا اور اب گزشتہ روز عمران خان پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ ان مقدمات سے ماسوائے وقتی لذت کے کچھ ہونے والاہے؟ درحقیقت میں سیاسی مقدمات ہوتے ہیں، جن کے ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کا قد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتا ہے۔ اور پھر کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے پاکستان میں یا دنیا بھر میں کسی سیاسی جماعت کو دبانے کے بعد اُس کے قد کاٹھ میں کمی واقع ہوئی ہو؟ ایسا کبھی نہیں ہوا! آپ دنیا میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں دیکھ لیں، ہر بڑی سیاسی جماعت کے پیچھے قربانیاں ہوں گی، فرانس کی نیشنل کمیونسٹ پارٹی کو دیکھ لیںاُسے ماضی میں جتنا دبایا گیا، وہ اتنی شدت کے ساتھ ہی اُبھر کر سامنے آئی، آپ جرمنی کی سنٹر پارٹی کو دیکھ لیں، ہٹلر نے اسے ختم ہی کر دیا تھا مگر وہ جماعت اپنے نظریات کی وجہ سے آج بھی بہترین کام کر رہی ہے۔ آپ جنوبی کوریا کی ورکرز پارٹی کو دیکھ لیں اس کے علاوہ آپ وینزویلا کی یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی کو دیکھ لیں۔ مطلب جس نے اچھا کام کیا وہ Survive کر گئی اور جس نے صرف اجارہ داری قائم کی اُس کا یا تو نام و نشان ختم ہو گیا یا وہ اقتدار سے محروم ہوگئی ، مطلب! اگر کسی جماعت کے قد کاٹھ میں کمی واقع ہوتی ہے تو اُس کی وجہ کرپشن ،بدانتظامی یا ہٹ دھرمی ہوتی ہے، یہ جماعتیں خود ہی یا تو تباہ ہوجاتی ہیں ، جیسے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی، جرمنی کی نازی پارٹی، اٹلی کی فاشسٹ پارٹی ، ویت نام کی کمیونسٹ پارٹی، بلکہ ان ناموں میں ایک بڑا نام انڈیا کی نیشنل کانگریس پارٹی کا بھی ہے جسے آخری دفعہ 15سال پہلے اقتدار نصیب ہوا تھا اور اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ اگلے 15سال بھی ہمہ اُس کے سر نہیں پہنایا جانے والا۔ اور رہی بات پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی تو میرے خیال میں ان دونوں جماعتوں کا بھی یہ آخری دور دورہ چل رہا ہے، پہلے یہ ہوتا تھا کہ پاکستان کے عوام کے پاس ان دو سیاسی جماعتوں کے علاوہ کوئی تیسری آپشن نہیں ہوتی تھی، اگر کسی سیاسی جماعت کو ن لیگ سے اختلاف ہوتا تھا تو وہ صرف اس لیے پیپلزپارٹی میں شامل ہوتی تھی کہ اُس کے پاس کوئی دوسری آپشن نہیں تھی، یا علاقائی سیاست آڑے آجاتی تھی، پھر تحریک انصاف آئی جس نے لوگوں کو شعور دیا۔ جو لوگ سیاست سے اُجڈ ہو چکے تھے اُنہیں تحریک انصاف اپنے حق کے لیے سڑکوں پر لے آئی۔ اگر مقتدر قوتیں ان دونوں جماعتوں کو سپورٹ نا کریں تو شاید اب تک ان کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ کیوں کہ پاکستان کے لوگ اب ان کو مزید برداشت کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اور ویسے بھی ایک تو ان جماعتوں کی کرپشن چند دنوں پر نہیں بلکہ دہائیوں پر مشتمل ہیں، دوسراموروثی سیاست کی وجہ سے نوجوان ان سے کنی کترانا شروع ہوگئے ہیں۔ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ ن لیگ اور پی پی پی نے اپنے تابوتوں میں جو آخری کیل اُس وقت ٹھونکے، جب انہوں نے مریم نواز، حمزہ شہباز اور بلاول کو سیاست میں اُتارا۔ جنہیں پاکستان کی نوجوان قیادت نے بالکل قبول نہیں کیا ۔ کیوں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا پوری مسلم لیگ ن میں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی قابل شخصیت موجود نہیں ہے۔ یا پیپلزپارٹی میں بلاول کے علاوہ شاید کوئی اس قابل نہیں کہ وہ آگے آسکے۔ اور بلاول کی کوالیفیکیشن شاید یہ ہے کہ وہ بے نظیر کا بیٹا ہے؟ لہٰذااب موروثی سیاست کی وطن عزیز میں کوئی گنجائش نہیں رہی۔لوگ سمجھدار ہوتے جا رہے ہیں ۔ میرے خیال میں اگر کل کلاں عمران خان کے بیٹے بھی سیاسی میدان میں آئے تو لوگ اُن پر بھی تنقید کریں گے۔ لہٰذانوجوان قیادت اس وقت ان کے ذاتی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ اس لیے فیصلہ کرنے والی قوتوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ دقیانوسی کی باتیں جنرل ضیاءالحق کے بعد ختم ہوچکی ہے، اب طاقت کے بل بوتے پر کسی کو وقتی طور پر تو دبایا جا سکتا ہے مگر اُسے زیادہ دیر کےلیے دبانا اب ممکن نہیں رہا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضیاءالحق کی بدترین آمریت بھی پیپلزپارٹی کو ختم نہیں کر سکی تھی تو آج کی ڈھکی چھپی ”آمریت“ کیسے ختم کر سکتی ہے، آج تو سوشل میڈیا کا ہتھیار ہر شخص کے پاس موجود ہے، لہٰذاکیسے سوچا جا سکتا ہے کہ آپ تحریک انصاف کو ختم کر سکتے ہیں؟ اس لیے جھوٹے مقدموں، حکومتی بیانات اور دیگر واویلوں اور گرفتاریوں کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ ججز سے اختلاف کرنا دہشت گردی کیسے ہوسکتی ہے؟ توہین عدالت لگتی ہے تو لگائیں، ہم اس کو سپورٹ نہیں کرتے کہ عمران خان نے لیڈی جج کو بر ابھلا کہا ہے،اُنہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگراس سارے معاملے میں دہشت گردی کا پرچہ کیسے ہوگیا؟ کیا ہم نے توہین مذہب، دہشت گردی، غداری، منشیات اور اس قسم کے دیگر قوانین کوصرف اس لیے رکھا ہے کہ اسے مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا جائے؟ آج ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تحریک انصاف ایک حقیقت بن چکی ہے، یہ بان متی کا کنبہ نہیں ہے، پاکستان کے 65فیصد عوام اسے اقتدار میں چاہتے ہیں، جبکہ 85فیصد نوجوان اس جماعت کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ جماعت ہر گزرتے دن میچور ہو تی جا رہی ہے، اس کا واضح ثبوت حالیہ ضمنی انتخابات ہیں، جس نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اب وہ مقابلہ کرنے کی بھرپور پوزیشن میں ہے۔ پہلے پنجاب میں تحریک انصاف کے مقابلے میں ن لیگ نہایت تجربہ کار اور حکومتی مشینری پر گرفت رکھنے والی جماعت سمجھی جاتی تھی خصوصاً پولنگ ڈے کو یہ مخالف امیدوار کا جیتا ہوا انتخاب چھین لیتی تھی مگر 2018 میں تحریک انصاف نے پنجاب حکومت بنا کر حکومتی مشینری کو زیر اثر کیا اور پولنگ ڈے کو بھی انتخاب چوری ہونے سے بچانے کے طریقے سیکھے۔ اب تحریک انصاف 2018 سے پہلے والی والی اناڑی جماعت نہیں رہ گئی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اب تحریک انصاف ن لیگ سے بھی بہتر انتخاب لڑنے کی مہارت حاصل کر چکی ہے۔ اب ن لیگی کھلاڑیوں کا مقابلہ برابر کے انصافی کھلاڑیوں سے ہونے جا رہا ہے یعنی سیر کو سوا سیر مل چکے ہیں پنجاب میں۔مطلب 17 جولائی اور گزشتہ روز عامر لیاقت کی سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کی حکومت ہونے ، 11 جماعتی اتحاد ، اسٹیبلشمنٹ ، میڈیا ہاو¿سز وغیرہ کی مکمل سپورٹ ہونے کے باوجود جس طرح ن لیگ کی درگت بنائی ، نے غیر جانبدار ووٹرز کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ تحریک انصاف بھی پنجاب میں نہ صرف ن لیگ کو ہرا سکتی ہے بلکہ حکومت بھی بنا سکتی ہے۔ پھر کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ سوشل میڈیا ایک ہتھیار بن جائے گا اور اس پر پاکستان میں کنٹرول عمران خان کا ہوگا۔ جس کا توڑ کسی جماعت تو دور کی بات کسی ادارے کے پاس بھی نہیں اور اس ہتھیار کو کہاں اور کس وقت استعمال کرنا ہے یہ بھی کوئی عمران خان سے بہتر نہیں جانتا۔سوشل میڈیا نے عمران خان کو اپنا بیانیہ بنانے اور پھر اسے عوام میں پھیلانے و مقبول کروانے میں ایسی مدد فراہم کی ہے کہ بڑے بڑے میڈیا ہاو¿سز اپنا سارا زور لگانے کے باوجود اس کا توڑ نہیں کر پارہے۔ عمران کا تازہ بیانیہ جو اینٹی امریکہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے نے عمران کی سیاست میں نئی روح پھونک دی ہے جس کے ثمرات تحریک انصاف کو جلد ملیں گے! مطلب زمانہ بدل چکا ہے، سوشل میڈیا کے مختلف آلات پاکستانی عوام کے ہاتھ آگئے ہیں۔ منٹوں سیکنڈوں میں آگ کی طرح خبریں پھیل جاتی ہیں، فوٹو انٹرنیٹ پر چڑھ جاتے ہیں، چیزیں وائرل ہوجاتی ہیں۔ سرکار کی طرف سے کوئی ارشاد آئے تو ایسے تبصرے لکھے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ گزرے زمانوں میں مقدس گائے بھینسیں واقعی ہوتی تھیں۔ ادارے تھے جن کا نام کبھی لیا نہیں جاتا تھا۔ تنقید تو دور کی بات ہے ذکر تک نہ ہوتا تھا۔ زمانہ ایسا ہوگیا ہے کہ مقدس گائے بھینسوں کا بھرم نہیں رہا۔ پردے چاک ہو چکے ہیں ، نام لئے جاتے ہیں، آوازے کسے جاتے ہیں۔ بہرکیف پاکستان کے لئے یہ فیصلہ کن موڑ ہے قوم ماضی کی اسیر رہی تو ماری جائے گی۔تباہی اب بھی بہت ہوچکی ہے لیکن قوم نے آگے قدم نہ رکھا تو مزید تباہی سے اسے کوئی بچا نہ سکے گا۔ مسئلہ صرف معیشت کا نہیں ہے۔اندر سے پاکستانی معاشرہ گل سڑ چکا ہے۔ اس معاشرے کو ہلکی پھلکی دوا نہیں بھاری سرجری کی ضرورت ہے۔ گلے سڑے ماس کو اندر سے کاٹنے کی ضرورت ہے۔ ایسی توقع کیا ہم پرانوں سے رکھ سکتے ہیں ؟ انہیں تو اپنی پڑی ہے، مقدمات کیسے ختم ہوں اور انہیں صاف چٹ مل جائے۔ دولت کے انبار ان کے باہر، ملک کے مستقبل سے انہیں کیا سروکار؟ لہٰذاایسے میں اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ تحریک انصاف ختم ہوجائے گی تو یہ کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں ہے!