نیا نیب ترمیمی آرڈیننس :ہر دور میں من پسند تبدیلیاں!

نیب ایک آئینی ادارہ ہے۔جو ملک بھر میں ہونے والی کرپشن کا آڈٹ کرتا اور پیسہ ریکور کرتا ہے۔ یہ ادارہ 1999ءمیں بنا۔ جس کے مقاصد تو اچھے تھے لیکن جب سے یہ ادارہ بنا گزشتہ 24 سالوں کے دوران ملک میں کرپشن بڑھی ہے، یعنی 1999ءمیں پاکستان کا کرپشن کے حوالے سے انڈیکس 104پر تھا اور آج 130پر جا پہنچا ہے۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ اس ادارے میں ”اداروں“ ، سیاسی شخصیات، اور حکومتی شخصیات کی بے جا مداخلت ہے۔جو حکومت آتی ہے، وہ اپنے مطابق اور اپنے مخالفین کے ”اینٹی“ ترامیم کراتی ہے، اور اسے اپنے اثرو رسوخ کے لیے استعمال کرتی ہے۔ آپ حالیہ ترمیم جو گزشتہ ہفتے ہوئیں اُنہیں دیکھ لیں، جن کے مطابق ملزم کو 14 کے بجائے 30 دن تک جسمانی ریمانڈ پر رکھا جاسکے گا۔متعلقہ عدالت کی اجازت سے اسے وقتاً فوقتاً 90 دن تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ موجودہ اتحادی وفاقی حکومت نے 26 مئی 2022 کو نیب ترمیمی بل میں جسمانی ریمانڈ 90 دن سے کم کر کے 14 دن تک کر دیا تھا۔پھر اس بل کے ذریعے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے۔ چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے جب کہ ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی کی صورت میں نیب کے کسی بھی سینیئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج دیا جائے گا۔نیب قوانین میں ترمیم کے ذریعے احتساب عدالتوں کو ایک سال میں مقدمات کا فیصلہ سنانے جب کہ نیب کو 6 ماہ کے اندر انکوائری کے آغاز کا پابند کیا گیا ہے۔صدارتی آرڈیننس کے بعد چیئرمین نیب کو مقدمے میں سے کسی فرد کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیار مل گیا ہے۔ وعدہ معاف گواہ اپنی گواہی مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گا۔ تاہم گواہ نے کوئی بات چھپانے کی کوشش کی تو اس کی معافی منسوخ ہو جائے گی۔ اس صورت میں وعدہ معاف گواہ کی گواہی اس کے خلاف بھی استعمال ہو سکے گی۔آرڈیننس کے مطابق کیس جھوٹا ثابت ہونے پر مقدمہ بنانے والے کو 3 سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔ قصہ مختصر کہ موجودہ حکومت تحریک انصاف کے خلاف گھیرا مزید تنگ کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، اور پھر یہ آرڈی ننس ایک ایسے وقت جاری ہوا ہے جب صدر عارف علوی فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب میں ہیں اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ان کی جگہ قائم مقام صدر کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ حکومت نے اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیب قانون میں ترمیم کی ہے اور اس کے لئے اسمبلی کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔خیر ہمیں غرض ان ترامیم سے نہیں بلکہ اس سے ہے کہ موجودہ حکومت نے 15ماہ میں تین مرتبہ نیب آرڈیننس میں تبدیلی کی ہے، اور حالیہ ترمیم شدہ آرڈیننس سے اب عمران خان کی گرفتاری ممکن ہو سکے گی اور ان کو توشہ خانہ ریفرنس اور قادر ٹرسٹ کیس میں کئی ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔ تبھی اس قانون کو تحریک انصاف کے چیئرمین نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے اور استدعا کی ہے کہ پرانے قانون کو بحال کیا جائے۔ بہرحال پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی اقتدار میں آ کر اپوزیشن جماعتوں سے انتقام لینے کی روایت کوئی نئی نہیں جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2016 کے بعد سے نیب کو استعمال کر کے وزیر اعظم، صدر اور وفاقی وزرا کے خلاف لاتعداد کیسز بنائے گئے ہیں تاہم سوائے ایک دو کے علاوہ تمام ملزمان کے کیسز ختم کر دیے گئے ۔اب ایسا بھی نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں نیب کا غلط استعمال نہیں کیا گیا اُس دور میں سب سے اہم سزا اور نااہلی وزیراعظم کے منصب پر 3 مرتبہ فائز رہنے نواز شریف کی ہوئی تھی۔ پھر راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، سابق صدر آصف علی زرداری، موجودہ وفاقی وزرا احسن اقبال، اسحاق ڈار سمیت دیگر کے خلاف کیسز بنائے گئے اور ان رہنماو¿ں کو کئی ماہ جیلوں میں قید رکھا گیا، ان کے کیسز پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے مگر مجال ہے کہ ایک روپے کی ریکوری بھی کی گئی ہو۔ بہرکیف پی ڈی ایم کی حکومت سے توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ اقتدار ملنے کے بعد ملک میں احتساب کے نام پر جاری سیاسی انتقام کا طریقہ ختم کرنے کے لئے کوئی موثر انتظام کیا جائے گا۔ البتہ اس حکومت نے چند ترامیم کرنے پر اکتفا کیا جس کا زیادہ تر فائدہ بھی حکومت میں شامل جماعتوں کے لیڈروں نے اٹھایا ہے کیوں کہ احتساب عدالتیں ان کے خلاف متعدد مقدمات کو نئی ترامیم کی وجہ سے ناقابل سماعت قرار دینے پر مجبور ہیں۔ تاہم جب یہ محسوس کیا گیا کہ نیب کے ذریعے عمران خان کو قابو کرنا مشکل ہو رہا ہے تو ایک نئے آرڈی ننس کے ذریعے اپنی ہی ترامیم کو تبدیل کیا گیا ہے۔ اس طریقہ سے واضح ہو رہا ہے اسلام آباد میں چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، وہ مخالفین کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا ہر حربہ آزمانا ضروری سمجھتی ہے۔ موجودہ آرڈی ننس اس سیاسی رویہ کی افسوسناک مثال ہے۔ اس سے ملکی سیاسی ماحول میں نرمی یا خیرسگالی کے جذبات پیدا ہونا مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ باتیں حکمرانوں کو شاید سمجھ نہ آتی ہوں کیوں کہ ان کی سیاست ’وہ یا میں‘ کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔ اور محبت یا جنگ میں سب کچھ جائز کے اصول کے تحت برسر اقتدار گروہ مخالفین کو پچھاڑنے اور عاجز کرنے کے لئے ہر طریقہ آزمانا ضروری سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ خود انہیں ہتھکنڈوں کا سامنا کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبت برداشت کرچکے ہوتے ہیں۔ اب انہیں اس برے تجربہ کی روشنی میں مخالفین کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کر کے روشن مثال قائم کرنی چاہیے۔ حیرت ہے کہ چند ماہ پہلے تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تمام نمایاں لیڈر لاتعداد مقدمات کی پیروی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اور اقتدار سے محروم ہونے کے فوری بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اب اسی طرح نت نئے مقدمات میں الجھایا جا رہا ہے۔ ملک کا نظام انصاف اس ناجائز اور افسوسناک طریقہ کار کو روکنے میں بری طرح ناکام ہے۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ انتقام اور ناجائز ہتھکنڈوں سے سیاسی آواز دبانے کا یہ کھیل آخر کب تک کھیلا جائے گا؟ ان طریقوں سے ملک و قوم کو جمہوری روایت سے دور کیا جا رہا ہے۔ یہ جابرانہ ہتھکنڈے نفرت و عناد میں اضافہ کریں گے۔ اس وقت سیاسی لیڈروں کو انتقام کے ہتھکنڈے سوچنے کی بجائے ملک کو معاشی، سیاسی و سفارتی بحران سے نکالنے کے لئے اجتماعی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس! حکومت یا اپوزیشن کوئی بھی اس کی ضرورت محسوس کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ اگر نیب نے اسی طرح ہر دور میں استعمال ہونا ہے تو ایک بڑا سیاسی جرگہ منعقد کیا جائے جس میں ایک تھنک ٹینک بنایا جائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز ، مختلف اداروں کے نمائندے اور تمام سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی ہو۔ وہی تھنک ٹینک ریاست کے فیصلے کرے، اور اگر کسی پارٹی نے یا فرد واحد نے کرپشن کی ہے تو اُسے سپریم کورٹ کے ذریعے سیاست سے آﺅٹ کرے۔ اگر ایسا ممکن ہو جائے تو سیاسی ادارے میں بیرونی مداخلت کو یکسر ختم کیا جاسکے گا۔ اور اُس کا فائدہ یہ ہے کہ سیاسی ادارہ مضبوط ہوگا اور صحیح قیادت میدان میں آئے گی ورنہ نیب جیسے ادارے سیاستدانوں کو گندہ کرتے رہیں گے ، جس سے ہر طرف بے چینی اور غیریقینی کی صورتحال رہے گی!