مہنگائی : حکومتی رٹ قائم نہیں !

کہا جا رہا ہے کہ اس وقت ملک کے دو بڑے مسائل ہیں، ایک مہنگائی اور دوسرا بے روزگاری۔ مہنگائی اس لیے ہورہی ہے کہ ڈالر پکڑ میں نہیں آرہا، اور اب تادم تحریر 170روپے کو بھی کراس کر چکا ہے، ڈالر کے بڑھنے سے پٹرولیم مصنوعات کا بم بھی حکومت نے گرادیا ہے، اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز کے دام بڑھ گئے ہیں ، البتہ ”دام“ کس تناسب سے بڑھے ہیں یا بڑھ رہے ہیں اس پر حکومتی گرفت قدرے کمزور نظر آرہی ہے، جس کا دل چاہتا ہے، اپنا کیلکولیٹر کھولتا ہے، تناسب نکالتا ہے اور اپنے پاس موجود چیزوں کے سٹاک کے دام بڑھا لیتا ہے۔یا اگر وہ چیزیں ایک سے زیادہ سٹاکسٹ کے پاس ہوں تو وہ ”یونین“ بن جاتی ہے اور پھر جو یونین فیصلہ کر دے اُسے کون ٹال سکتا ہے۔ جبکہ عوام کو وہ چیزیں مجبوری کے عالم میں خریدنا پڑتی ہیں، اور اگر عوام اس حوالے سے کہیں احتجاج کرے تو تاجر حکومت کو دو چار گالیاں دیتا ہے اور اپنی قیمت خرید سے دوگنا منافع وصول کر لیتا ہے۔ لیکن حد تو یہ ہے کہ اس ساری کارروائی میں حکومت کہیں نظر نہیں آتی، حالانکہ خطے میں سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی ڈالر کی قیمت اوپر جا رہی ہے لیکن وہاں مہنگائی کا تناسب پاکستان سے کہیں کم ہے، مثلاََ دنیا بھر میں مہنگائی کی اوسط شرح 4فیصد سے زائد نہیں ہے، جبکہ پاکستان میں یہ شرح 10فیصد سے زائد ہے، پھر بھارت میں سات، بنگلہ دیش میں 5.6، چین میں 2.9، امریکہ میں 1.8، برطانیہ میں 1.7، انڈونیشیا میں تین ، جنوبی کوریا میں 0.3 اور متحدہ عرب امارات میں منفی 1.9 فیصد یعنی قیمتیں بڑھنے کی بجائے کم ہوئیں۔ پاکستان میں اس اس قدر تناسب کی اور بھی وجوہات ہوں گی مگر میری نظر میں اس وقت دو بڑی وجوہات ہیں جن میں سے پہلی یہ کہ ہمارے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی اکثریت اس وقت ”سٹاکسٹ“ بنی ہوئی ہے۔ بھلا وہ کیسے ؟ اس کے لیے میں آپ کو ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ دوست کے پاس لیے چلتا ہوں جو وطن عزیز کے ایک بڑے شہر کے ڈپٹی کمشنر تھے، وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں عموماََ تہواروں پر چیزیں مہنگی کرنے کا رجحان ہے، یا کسی بھی چیز کے حوالے سے مصنوعی قلت پیدا کرکے اُسکی قیمتیں دوگنی کردی جاتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن میں نے ٹھان لی کہ یہ پتہ لگا کر رہوں گا کہ جو کیلا ایک دن پہلے 60روپے درجن ہوتا ہے وہ اگلے دن 200روپے تک کیوں چلا جاتا ہے، موصوف ایک دن اس بات کی کھوج میں اپنے اکا دکا دوستوں اور عملے کے ہمراہ ایک صبح ساڑھے چار بجے مرکزی سبزی منڈی جا پہنچے اور خاموشی کے ساتھ کاروبار کو دیکھنے لگے۔ ان کے مطابق بظاہر سارا عمل شفاف اور کاروباری اصولوں کے مطابق تھا، صبح کاذب دن کی چمکدار روشنی میں بدل چکی تھی لیکن مسئلے کا کوئی سرا ابھی تک ہاتھ میں نہیں آ سکا تھا۔ انھیں ایسا لگتا تھا کہ ان کی یہ کوشش بھی ناکام جائے گی کہ عین مایوسی کی اس کیفیت میں روشنی کی ایک کرن چمکی۔ انھیں ایک شخص ملا جو کوئی مزدور ہی لگتا تھا اور بظاہر اتفاقاً اُن سے ٹکرایا۔ انہوں نے بتایا کہ ٹکراتے وقت وہ شخص کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا، وہ مقامی سرائیکی لہجے میں کہہ رہا تھا: ’منافع خوری دا راز سمجھنڑاں اے تے پہلے کولڈ سٹوریج دا مالک لبھو سائیں، یعنی ”منافع خوری کا راز سمجھنا ہے تو کولڈ سٹوریج کا مالک تلاش کرو بابو جی“۔ اس شخص کا ”یہ جملہ موصوف کے کانوں میں پڑا تو جیسے گھپ اندھیرے میں امید کا دیا جل اٹھا اور میں ایک نئی امید اور عزم کے ساتھ منڈی سے لوٹا۔“ سابق ڈی سی او نے کسی قدر جوش کے ساتھ یہ بات کہی اور بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے اپنے ایک انتہائی قابل اعتماد معاون کے ذمے لگایا کہ وہ شہر کے کولڈ سٹوریج کی تفصیلات اور ان کے مالکوں کے کوائف جمع کرے۔ تین چار روز کی محنت کے بعد پتہ یہ چلا کہ شہر میں 16 کولڈ سٹوریج تھے۔ یہ تمام کے تمام سٹوریج مقامی ایم این اے کے اپنے تھے یا اس کے رشتے داروں کے۔ خود مارکیٹ کمیٹی کا چیئرمین بھی ان میں سے چند ایک کا مالک تھا۔ وہ بتاتے ہیں ”یوں اپنے کیرئیر میں پہلی بار منڈی کی ایک اور جہت میرے سامنے آئی اور میں نے اگلا قدم ان سٹوریجز پر چھاپے کی صورت میں اٹھایا، اس کے بعد ہم لوگوں پر کیا بیتی، یہ ایک الگ داستان ہے لیکن کامیابی نے ہمارے قدم چومے۔“ سابق ڈی سی او دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کارروائی کے بعد لیموں کی قیمت کم ہو کر نصف رہ گئی اور کیلا ساٹھ روپے فی درجن پر بکنے لگا اور اس کے بعد آنے والے دنوں میں قیمتیں بڑی حد تک اعتدال پر رہیں۔لیکن اُنہیں کسی ایسے کونے کھدرے میں پھینک دیا گیا کہ اُس کے بعد ریٹائرمنٹ ہی ضروری تھی! قارئین !یہی حال چینی سٹاکسٹ مافیا کا اور یہی حال آٹا مافیا اور دوسرے مافیا کا ہے۔ اور یہ مافیا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے یہ مافیا ہر سال حکومت کو اربوں روپے کا چونا لگاتاہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ حکومت میں بیٹھے اسی مافیا نے 2دن پہلے سستی مقامی چینی چھوڑ کر 38روپے فی کلو مہنگی درآمدی چینی خرید ی ہے، یعنی ہمیں مقامی چینی 84.50 روپے فی کلو پڑتی ہے،جبکہ درآمدی چینی کی قیمت 106روپے ہے، اور اُس پر دیگر اخراجات ڈال کر یہ چینی یوٹیلٹی سٹورز پر 123روپے فی کلو میں پہنچے گی، مزید یہ کہ ٹریڈنگ کارپوریشن نے 2 لاکھ میٹرک ٹن چینی کے سودے کر نے کے لیے الخلیج گروپ سے معاہدہ بھی کر لیا ہے۔اب اس حکومتی سطح پر ایک چھوٹے سے سودے سے کروڑوں روپے کی دیہاڑی کون لگائے گا؟ اور پھر جب یہ چینی مہنگے داموں عوام تک پہنچے گی یا حکومت کو اس پر سبسڈی دینا پڑی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ عمران خان؟ یقینا وہی ہوں گے؟ کیوں کہ اُن کی اپنی رٹ کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ اور بقول اُن کے کہ وہ ابھی بہت سی چیزیں سمجھ رہے ہیں! خیر اگر مہنگائی کی دوسری وجہ کی بات کی جائے تو اس میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقامی سطح پر کونسی چیزیں بن رہی ہیں، یعنی اگر آپ کا ملک استعمال کی ہر چیز خود بنا رہا ہے ، یا پیدا کر رہا ہے تو اسے کسی دوسرے ملک کی کرنسی کے بڑھنے یا کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر آپ استعمال کی 70فیصد سے زائد اشیاءباہر سے منگوا رہے ہیں تو پھر آپ کا اپنی معیشت پر بھی کنٹرول نہیں رہے گا۔ مثلاََبجلی کا جو بلب 50 روپے کا درآمد کیا جاتا ہے وہ صارف کو 200 روپے میں ملتا ہے۔ یعنی باہر سے منگوانے والا تاجر اپنی مرضی کا ریٹ عوام پر مسلط کرے گا۔ الغرض 22کروڑ لوگوں کی مارکیٹ میں ”میڈ ان پاکستان“کچھ بھی نہیں اور جو ہے اس کی قیمتیں بھی اس لیے زیادہ مانگی جاتی ہیں کہ خام مال نہیں مل رہا۔اور اگر ہم اس حوالے سے یہ کہیں کہ خان صاحب جن مشیروں پر کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں، اُنہیں سائیڈ لائن کرکے صرف اتنا کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں کہ مقامی انڈسٹری کو فروغ دیں اور جس طرح انہوں نے بلڈنگز وغیرہ بنانے کے حوالے سے رعایات دیں ہیں بالکل اسی طرح کی سکیم انڈسٹری کو بھی دیں تو یقینا ہمارے ہاں مینوفیکچرنگ میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ جس سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا اور ہمارا درآمدی بل کم ہوگا اور بر آمدات بھی بڑھیں ۔ میرے خیال میں اگر دوسرے ملکوں میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو رہا تو اُس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اُن کی مقامی انڈسٹری مضبوط ہے، جیسے کورونا سے پہلے یعنی 2019 کے اعدداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل مینوفیکچرنگ 34 ارب ڈالرتھیں جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی 48ارب ڈالر، بھارت کی 412ارب ڈالر، انڈونیشیا کی 207ارب ڈالر، ترکی کی 147ارب ڈالر، جنوبی کوریا کی 459ارب ڈالر، جرمنی کی 806ارب ڈالر اور برطانیہ کی 253 ارب ڈالر تھیں۔ اور ان ممالک کی درآمدات حیرت انگیز طور پر اسی تناسب سے کم تھیں، لہٰذایہی وجہ ہے کہ جو حکومتیں اپنی مقامی انڈسٹری کو فروغ دیتی ہیں، وہ دوسروں پر انحصار کم کرتی ہیں۔ آپ امریکا میں دیکھ لیں، امریکا صرف انہی ملکوں سے چیزیں خریدتا ہے، جن ملکوں سے دو طرفہ تجارت معاہدے کے مطابق برقرار رکھنا ہوتی ہے، ورنہ وہ بغیر کسی وجہ سے کسی ملک سے کوئی چیز نہیں خریدتا۔ کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے ایسا کرنے سے ملک کا کثیر زرمبادلہ ملک سے باہر چلا جائے گا جس سے باقی چیزوں پر دباﺅ بڑھے گا۔ لہٰذامہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو سب سے پہلے اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے، پھر تجارتی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو اس حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرے کہ ہم مقامی انڈسٹری پر زیادہ انحصار کیسے کر سکتے ہیں؟ اور پھر حکومت کو درمیان سے ”آڑھتیوں“ یا سٹاکسٹ کو ختم کرنا چاہیے اس کے لیے حکومت خود آڑھتی بن جائے یا اس مقصد کے لیے پاکستان کو امریکی یا دوسرے ممالک کی طرح یا تو اپنی بڑی بڑی سپر مارکیٹ چینز بنانا ہوں گی یا پھر وال مارٹ، ایسڈا، ٹیسکو اور آلڈی کی طرح کے انٹرنیشنل سپر سٹورز کے لیے مارکیٹ کھولنی چاہیے۔یہ سپر سٹورز کیسے کام کرتے ہیں؟ یہ اشیائے خوردونوش بہت بڑی تعداد میں خریدتے ہیں اور عموماً براہِ راست کسان سے یا فیکٹری سے مال اٹھاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں وہ چیزیں آڑھتیوں سے بھی سستی ملتی ہیں۔پھر اگر ایک ہی شہر میں پانچ دس بڑے سپر سٹورز کی چینز موجود ہوتی ہیں تو ان میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے اور ہر کوئی صارف کو سستی سے سستی اشیا فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی خود بخود کنٹرول رہتی ہے۔اسی طرح جو اشیا صرف درآمد ہوتی ہیں وہ بھی یہ سپر سٹور خود کرتے ہیں اس لیے درمیان والا ہاتھ نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے صارف کو انتہائی سستی اشیا میسر آتی ہیں۔ اس کا ایک فائدہ لوکل مینوفکچررز کو بھی ہوتا ہے کیونکہ چیزیں بنانے سے کہیں زیادہ مشکلات انہیں مارکیٹ کرنے میں آتی ہیں۔میرے خیال میں اگر یہ طریقہ کار اپنا لیے جائیں تو حکومت پر مہنگائی کنٹرول کرنے جیسے الزامات سے چھٹکارہ مل سکتا ہے ورنہ جیسے چل رہا ہے اللہ توکل چلتا رہنے دیں! ہوسکتا ہے خان صاحب اسی میں عافیت سمجھتے ہوں! #inflation in pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon